[]
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
عرف عام میں منحوس اسکو کہتے ہیں جو مصیبتوں‘ بلائوں‘ پریشانیوں‘ امراض سے گھِرا ہوا ہو۔ اس میں کوئی عمل کیا جائے تو کامیابی حاصل نہ ہو۔ یہ’ مبارک ‘’خوش حالی‘ کی ضد ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی جگہ ‘مہینہ ‘دن ‘حیوان یادیگر اشیاء منحوس ہوتے ہیں؟ شریعت مطھرہ نے بالکل واضح الفاظ میں بیان کیا کسی چیز میں نحوست نہیں ہوتی بخاری شریف میں ہے ان کان الشؤم في شيء ففي الدار والمرأۃ والفرس (بخاری ومسلم ) اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ہو سکتی تھی۔ اس حدیث شریف سے نحوست کی بالکل نفی کردی گئی یعنی کسی چیزمیں نحوست نہیں ہے ، فی نَفسہ کوئی چیز منحوس نہیں ہے۔
اگر کوئی مسلمان کسی چیز کو منحوس مانتا ہے یا سمجھتا ہے تو وہ تعلیماتِ اسلامیہ کے خلاف ہے اسطرح کے عقیدہ سے اعتقادِخدا وندی وتوکل میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ بات حق ہے کہ کسی چیز کو منحوس مان لینے سے آدمی تذبذب میں پڑجاتا ہے اس کا دل مطمئن نہیں رہتا، شکوک شہبات کا شکار ہو جاتاہے اور وہ ہمیشہ سونچنے لگتاہے کہ فلاں وقت یا فلاں جگہ اگر وہ کام کرے گا تو اس کو کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔ اسلام نے صرف یقین پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے اسی لئے زمانہ جاہلیت کے تمام باطل رسوم واعتقاداتِ فاسدہ کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ بے بنیاد فاسد عقائداور باطل افکار سے روکتا ہے اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں بد شگونی بد فالی کابہت زیادہ رواج تھا ۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسکی چند مثالیں قرآن مجید اور احادیث شریفہ کی روشنی میںقارئین کی نذر کی جائیں:
دور ِ جاہلیت میں مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر کوئی عظیم انسان مرجائے تو سورج اور چاند کو گہن لگ جاتا ہے، چاند و سورج کو گہن لگنا گویا ان کے عقیدہ کے مطابق نحوست تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بے بنیاد فاسد عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ چاند وسورج اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے ان دونوں کو گہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی ہے، رب کریم کی جانب سے یہاں یہ فکر دی جارہی ہے کہ دیکھو ساری دنیا کو روشن کرنے والا سورج خود بے نور ہوگیا تو تمہاری کیا حقیقت ہے ۔ تم اپنے اعمال پر فخر نہ کرو اور اپنے اندر تواضع‘ عاجزی وانکساری پیدا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایسے باطل عقیدہ کا رد نہیں کیا بلکہ یقین کی راہ اسطرح بتائی کہ جس خدا نے سورج کو وجود بخشا وہی خدا نے اس سورج کو گہن کے ذریعہ بے نور کیا، اس ذات ِ وحدہ لا شریک کی عبادت کا اہتمام کرتے ہوئے طویل نماز ادا کی۔ اور تمام انسانوں کو بتلایاکہ ساری کائنات کا حقیقی رب ایک ہی ہے، اسی کی عبادت کی جائے اور اسی کے سامنے اپنا سر جھکایا جائے۔
یہ حق ہے کہ دورِ جاہلیت میں توہم پرستی بہت زیادہ تھی ، اگر کسی گھر بیٹی پیدا ہوجائے تو لوگ اس کے پیدا ہونے کو منحوس سمجھتے یہاں تک کہ کہتے کہ ہم انہیں کہاں سے کھلائیں‘ پلائیں اور ان کی پرورش کیسے کریں، یہ ہمارے لیے بہت بڑا بوجھ ونحوست ہے۔ اسی وجہ سے بعض بدبخت لوگ اپنی بیٹیوں کو نحوست سمجھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے قتل کردیتے، اس عمل کو اسلام نے سختی سے منع کیا، چنانچہ ارشاد باری ہے: وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَکُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ (سورہ انعام) تم اپنی اولاد کو (نحوست سمجھ کراور )بھوک مری کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دینے والے ہیں۔اسلام نے دورِ جاہلیت کے ان باطل نظریات کی پرزور تردید کی اور عورتوں کو بلند مقام عطا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الجنۃ تحت اقدام الامھات۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔ دوسری حدیث شریف وارد ہے: الدنیا کلھا متاع، وخیرمتاع الدنیاالمرأۃ الصالحۃ: تمام دنیا فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور نیک عورت دنیا کی بہترین متاع ہے۔
اسی طرح دور جاہلیت میں لوگ پرندوں کو دیکھکر بھی بد شگونی لیتے اگر صبح مخصوص پرندہ کو چہچہاتے دیکھتے تو کہتے کہ آج کا دن منحوس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فاسد عقیدہ کی نفی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا طیرۃ۔ پرندہ سے بد شگونی لینا درست نہیں۔
تاہم نحوست کا انکار نہیں کیا جا سکتاہے، نحوست ہوتی ہے لیکن نحوست برے اعمال وافعال کی وجہ سے ہوتی ہے یا پھر عذابِ الٰہی جن پر نازل ہوا ان کیلئے وہ نحوست ہے، چنانچہ سورہ یٰسین میں ہے جب شہر ِ بیت المقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تین رسل (قاصدین) تبلیغ کرنے کی غرض سے آئے تھے اور سارے شہر والوں کو خدا کی وحدانیت اور حضرت عیسیٰ ؑ کی رسالت کا درس دیتے تھے، تبلیغ وہدایت کا فریضہ بڑے زور وشور کے ساتھ انجام دیتے رہے، اس وقت بستی والوں پر اللہ تعالیٰ کی سخت آزمائش ہوئی، پورا شہر قحط سالی کا شکار ہو گیا، لوگ اور جانور قحط سالی کی وجہ سے پریشان ہوگئے ، اس قحط سالی کی وجہ سے قوم نے اللہ کے ان رسولوں سے کہا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو، جب سے تم آئے ہو نحوست ہمارے پیچھے پڑ گئی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
قَالُوا إِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَئِن لَّمْ تَنتَہُوا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِیْم (سورہ یٰسین) وہ کہنے لگے ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کردیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں درد ناک عذاب پہنچے گا ۔ ان بستی والوں نے کہاہم طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہو گئے ہیں کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہم قحط سالی کا شکار ہو جاتے ہیں تو کبھی کوئی وبا پھوٹ پڑتی ہے تو کبھی کساد بازاری شروع ہو جاتی ہے ۔ ہمارے نزدیک تو ان سب مصائب کا سبب تم ہو ۔ تمہاری نحو ست سے ہماری مسکراتی ہوئی زندگی غم و اندوہ کا شکار ہوگئی ہے ۔ ہماری معاشی خوشحالی افلاس و تنگدستی میں بدلتی جارہی ہے ۔تمہاری گستاخیوں سے ہمارے دیوی دیوتا ہم سے ناراض ہوگئے ہیں ۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کی بے سروپا باتوں کو رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تمہاری نحوست تمہارے برے اعمال کی وجہ سے ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: قَالُوا طَائِرُکُمْ مَعَکُمْ أَئِن ذُکِّرْتُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُون (سورہ یٰسین) رسولوں نے فرمایا تمہاری بد فالی تمہیں نصیب ہو (حیرت ہے ) اگر تمہیں نصیحت کی جاتی ہے (تو تم دھمکیاں دینے لگتے ہو )بلکہ تم لوگ حد سے بڑھ جانے والے ہو ۔ ان حضرات نے فرمایا تمہاری بد بختی اور بد فالی تو تمہارے ساتھ ہے ۔جب تم اس دنیا میں آئے تھے تو تمہارا فالنامہ اور شگون تمہارے گلے میں لٹکا دیا گیا تھا ۔ اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں، تم اپنے مقدر کو کوسو جس کے باعث تلخ و تُر ش حادثات کا تم شکارہوتے ہو۔جہالت اور تو ہم پرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ عہد جاہلیت میں نیک وبد شگون کا بڑا رواج تھا کئی چیزیں ان کے نزدیک منحوس تھیں ۔اگر صبح سویرے ان میں سے کوئی چیز انہیں دکھائی دیتی تو سمجھتے تھے کہ آج کا دن بڑا منحوس ہے، اگر سفر پر جاتے ہوئے ایسی چیز سے آمنا سامنا ہو جاتا تو گھر واپس آجاتے ، سفر کا ارادہ ترک کردیتے ۔تطیر کامعنی ہے کسی سے بُرا شگون لینا اور اسے منحوس سمجھنا ۔ ان آیات ِ کریمہ سے نحوست کا ثبوت ملتا ہے، نحوست سے مراد انسان کے بُرے اعمال ہیں۔ اسی طرح عذاب ِ الٰہی کو رب تبارک وتعالیٰ نے فرمایا یہ نافرمان قوم کیلئے
ان کے اعمال کی وجہ سے ان پر جن دنوں میں عذاب نازل ہوا وہ دن اس قوم کیلئے منحوس دن ہیں چنانچہ ارشاد باری ہے : إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحاً صَرْصَراً فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ (سورہ قمر ) ہم نے ان پر ایک تیز ہوا بھیجی ایسے دن میں جس کی نحوست جاری رہی۔ اسی طرح قوم عاد کا واقعہ بھی قابل عبرت ہے حضرت ہود نے اپنی قوم کے لوگوں کو پیغام حق سنا یا لیکن ان بدبختوں نے اس کو قبول نہیں کیا، پھر جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو ایک دن ان پر عذاب نازل ہوا، اور وہ ان کیلئے بڑا منحوس تھا، سخت آندھی چلی جس نے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پھینک دیا۔ قوم عاد کے بڑے بڑے قد آور جوان اس طرح زمین پر پڑے ہوتے تھے جس طرح کھجور کے موٹے موٹے تنے اکھڑے ہوئے ہوں۔ اس آیت کریمہ میں جس نافرمان قوم پر عذاب نازل ہوا وہ دن ان کیلئے منحوس تھا۔
’’اصل نحوست گناہوں کی وجہ سے ہے ، جس وقت میں بندہ مومن اللہ پاک کی اطاعت وبندگی میں مشغول ہو وہ وقت بڑا مبارک ہے اور جس وقت میں اللہ پاک کی نافرمانی کرے وہ وقت اس کیلئے منحوس ہے۔‘‘ (تفسیر روح البیان)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص رات میں جب سوتا ہے تو شیطان اس کے سر پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ باندھتے ہوئے کہتا ہے کہ رات بہت لمبی ہے سو جا لیکن اگر وہ شخص بیدار ہو جائے اور اللہ کا ذکر کرنے لگے تو اس کی ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر اگر وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے، پھر اگر نماز ادا کرتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اس صورت میں صبح کے وقت وہ چاق وچوبند اور خوش مزاج رہتا ہے ورنہ دن بھر نحوست اور سستی میں رہتا ہے۔ (بخاری) اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہے کہ جو شخص فجر کی نماز ادا نہیں کرتا وہ شیطان کے قید وبند میں ہوتا ہے، دن بھر اس پر نحوست چھائی ہوئی رہتی ہے اور وہ بے برکتی ‘ غفلت‘ سستی وکاہلی کا شکار ہوجاتا ہے۔
انسان کے گناہ اس کے لئے سب سے بڑی نحوست ہے جیسے شرابی کے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ شراب پینے سے شرابی پر ایسی نحوست چھا جاتی ہے کہ اسکی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شرب الخمرلم یقبل اللہ لہ صلاۃاربعین صباحا الیٰ ۔۔۔ الخ (ترمذی) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخض پہلی مرتبہ شراب پیتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا پھر اگر وہ (خلوص دل سے )توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتاہے پھر اگر وہ (دوسری مرتبہ )شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازقبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے پھر اگر وہ (تیسری مرتبہ )شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نمازقبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قول کرتا ہے یہاں تک کے جب وہ چوتھی مرتبہ شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا بلکہ اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ بھی قبول نہیں کرتا اور (آخرت میں)اس کو دوزخیوں کی پیپ اور لہو کی نہر سے پلائے گا ۔( ترمذی نسائی)
ہمارے معاشرہ میں بعض ناواقف لوگ ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس ماہ میں کوئی اچھے کام کرنے سے گریز کرتے ہیں، مثلا: شادی بیاہ کرنا‘ مکان کی تعمیر‘ دکان کا افتتاح ۔ وغیرہ ۔ ماہ ِ صفر میں ان تمام امور کی انجام دہی اس غرض سے نہیں کرتے کہ انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوگی اور کہتے ہیں کہ یہ مہینہ منحوس ہے۔یہ جاہلانہ عقیدہ ہے اور دینِ اسلام نے جاہلانہ عقیدہ سے منع کیا اورحقانیت کا درس دیا۔ جاہلانہ طریقہ اپنا تے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں کامیابی اس میں حاصل نہیں ہوگی۔ دین اسلام نے یہ تعلیم دی کہ کوئی دن‘ ہفتہ‘ مہینہ‘ سال منحوس نہیں ہوتے، چونکہ ان تمام کا خالق اللہ سبحانہ تعالیٰ ہے۔ حدیث قدسی ہے : قال النبي ﷺ: قال اللہ تعالیٰ: ان ابن آدم یسب الدھر وانا الدھر (مشکاۃ) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رب تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ابن آدم زمانہ کو پرا بھلا کہتا ہے حالانکہ میں خود زمانہ ہوں۔ انسان کہتا ہے کہ کیا برا زمانہ آگیا ، حالانکہ زمانہ کو وجود بخشنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ زمانہ میں ماہِ صفر بھی ہے اگر کوئی ماہِ صفر کو منحوس سمجھتا ہے تو گویا وہ رب کریم کو تکلیف پہنچارہا ہے(نعوذ باللہ من ذلک)
٭٭٭