تحریر:سید سرفراز احمد
آریس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت وقفہ وقفہ سے الگ الگ بیانات دیتے ہوۓ سرخیوں میں چھاۓ رہتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہے حال ہی میں کچھ عرصہ قبل انھوں نے پونے شہر میں بھارت وشو گرو پر لکچر دیتے ہوۓ کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگ مسجدوں کے نیچے مندروں کو تلاش کرکے ہندو طبقے کا بڑا قائد بننے کی کوشش کررہے ہیں جس پر بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں نے ان کے اس بیان کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ آر ایس ایس اپنے نظریات میں تبدیلی لا رہی ہے ہم نے بھی آر ایس ایس کے نظریات پر روشنی ڈالتے ہوۓ لکھا تھا کہ آر ایس ایس کبھی بھی اپنے نظریات سے منہ نہیں موڑ سکتی چونکہ ان کے ظاہری بیانات کا تقابل ان کے نظریات سے ہرگز بھی نہیں کرنا چاہیئے وہ اپنے نظریات کے اٹل حامی ہے ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا تھا جب سنبھل کی جامع مسجد پر مندر ہونے کا دعوی کرنا اور منظم انداز میں تشدد برپا کرتے ہوۓ پانچ مسلم نوجوانوں کو شہید کردینا جس کے بعد یوگی سرکار سوالات کے گھیرے میں تھی تب ہی آر ایس ایس کے سربراہ نے حکمتاً اس طرح کے بیان کا سہارا لے کر وہ یوگی سرکار کی ڈھال بن کر کام کیا تھا۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا دوسرا بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب دہلی اسمبلی انتخابات سر پر منڈلارہے ہوں انھوں نے اندور میں پیر کےروز رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری جمپت راۓ کو دیوی اہلیہ بائی ایوارڈ دیتے ہوۓ تقریب سے خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ ہندوستان کو حقیقی آزادی گذشتہ 22 جنوری 2023 کو رام مندر کے پران پرتشٹھا کے موقع پر حاصل ہوئی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس دن بھارت کی خود مختاری(پرتشتھا دیوا دشی) کا یوم منانا چاہیئے کیونکہ صدیوں تک دشمنوں(پرچکر)کے حملوں کے بعد یہ کامیابی حاصل ہوئی حملہ آواروں نے ملک کے مندروں کو تباہ کیا تاکہ بھارت خود بھی تباہ ہوجاۓ انھوں نےمزید کہا کہ رام مندر کی تحریک کسی کی مخالفت کے لیئے نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد بھارت کی خودی کو بیدار کرنا تھا اور ملک کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ آزادانہ طور پر کھڑا ہوکر دنیا کی رہ نمائی کرسکے 15 اگسٹ 1947 کو ہندوستان کو انگریزوں سے سیاسی آزادی ملنے کے بعد ملک کا ایک تحریری آئین بنایا گیا لیکن اس دستاویز پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
موہن بھاگوت کے اس بیان کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے چار باتیں متنازع کہی ہیں جس کا تعلق راست ملک کی ہم آہنگی سے وابستہ ہے اول تو یہ کہ ملک کی حقیقی آزادی کو انھوں نے رام مندر کی تعمیر سے جوڑا ہے یہ دعوی سنگھ کی نیت اور ان کے مصمم ارادوں کو پیش کرنے کے لیئے کافی ہے اس غیر موزوں جملے کا مطلب یہی ہوا کہ 1947 میں انگریزوں سے ملنے والی آزادی حقیقی آزادی نہیں تھی کیا اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوگا کہ ہزاروں کی تعداد میں وطن کی خاطر شہید ہونے والے مجاہدین آزادی کی قدر و قیمت آر ایس ایس کی نظر میں کچھ بھی نہیں ہے؟ دراصل یہ بعید نہیں ہے کہ آر ایس ایس کانام اس ملک کو آزاد کروانے میں کہیں بھی نہیں تھا بلکہ آزادی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان کا نام غداروں کی سرفہرست میں تھا اگر ایسا نہ ہوتا توساورکر انگریزوں کو معافی نامہ نہ لکھتے اس بیان کے ردعمل میں راہول گاندھی نے کہا کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان غداری کے مترادف ہے جو کروڑوں ہندوستانیوں کی توہین ہے بلکہ یہ لوگ قومی پرچم اور دستور پر یقین نہیں رکھتے یہی زبان اگر کسی دوسرے ملک میں استعمال کی جاتی تو اسے گرفتار کرلیا جاتا اور مقدمہ چلتا راہول گاندھی ایک اپوزیشن قائد ضرور ہے لیکن ان کے ردعمل میں حقیقت کے پہلو پوشیدہ ہےاصل سچائی یہ ہے کہ بھلا بھاگوت کی نظر میں یہ حقیقی آزادی رہے گی بھی کیوں؟ اس لیئے کہ یہ خود انگریزوں کے کٹر مددگار تھے جن کا کوئی حامی دیش کی آزادی کے لیئے انگلی بھی نہ کٹوا سکا وہ بھلا شہادت کا مقام اور معیار کیا جانے۔
موہن بھاگوت کی وسری متنازع بات جو انھوں نے کہی رام مندر کے پران پرتشٹھا کے دن یعنی 22 جنوری کو یوم خود مختاری منانا چاہیئے اس بات کو بھاگوت ہی نہیں بلکہ پورا ملک جانتا ہے کہ یہ کثیر المذاہب ملک ہے جو یہاں کے آئین سے چلتا ہے جب کہ رام مندر پہلے تو بابری مسجد کا حصہ تھی بظاہر آج نہیں ہے لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ اس جگہ مسجد ہمیشہ رہے گی بھاگوت کے اس بیان کی اگر قلعی کھولی جاۓ تو صاف نظر آرہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر میں تبدیل کرنے کو اصل آزادی سمجھتے ہیں گویا کہ کیا وہ اس ملک کے مسلمانوں سے آزادی لینا چاہتے ہیں؟ بات دبے الفاظ میں ضرور ہے لیکن ان کے اشارے بہت واضح پیغام دے رہے ہیں جو ایک جمہوری ملک میں کسی ایک طبقے کی طرف جھکاؤ والے جانب دارانہ بیانات کو حساس نظر سے دیکھنا ہوگا ورنہ ملک کی سالمیت اور ہم آہنگی کو یہ مزید خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
تیسری بات جو انھوں نےکہی کہ صدیوں تک دشمنوں کے حملوں کے بعد یہ آزادی ملی حملہ آوروں نے مندروں کو تباہ کیا تاکہ بھارت بھی تباہ ہوجاۓ یہ ایک طرح سے سراسر جھوٹ پر مبنی بیان ہے یہاں موہن بھاگوت کا اشارہ مسلمانوں کی طرف منسوب ہے وہ مغل شہنشاہوں کو بیرونی حملہ آور مانتے ہیں جب کہ یہ بات انھوں نے صاف لفظوں میں نہیں کہی اس بات کو ہم اس نکتہ نظر سے سمجھ سکتے ہیں کہ آر ایس ایس و دیگر ہندو توا تنظیمیں مغل شہنشاہوں پر مندروں کو توڑ کر مساجد تعمیر کرنے کا الزام عائد کرتی رہتی ہے تب ہی ملک بھر میں تاریخی مساجد پر مندروں کے دعوے پیش کیئے جارہے ہیں کیا موہن بھاگوت کا یہ متضاد رویہ نہیں ہے کہ انھوں نے خود کہا تھا کہ ہر مسجد کے نیچے مندروں کو کیوں تلاش کیا جارہا ہے؟ہمیں لڑائی جھگڑا کیوں کرنا ہے لیکن ان کایہ بیان ملک کی رواداری میں مزید رخنہ پیدا کررہی ہے۔
چوتھی اور آخری بات انھوں نے ملک کے آئین کے متعلق کہا کہ انگریزوں سے سیاسی آزادی کے بعد ایک تحریری آئین بنایا گیا لیکن اس پر عمل آواری نہیں کی گئی کیا یہ سوال موہن بھاگوت اور ان کی ذیلی تنظیموں سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ آپ نے اس ملک کے دستور پر کتنی عمل آواری کی؟جب کہ آپ ہی کی سیاسی شاخ بی جے پی تیسری میقات میں بھی ملک پر حکمرانی کررہی ہے اور اس دور حکومت کا ہر روز ملک کے حق میں وبال بن کر کھڑا رہا لیکن آپ نے اپنی سیاسی شاخ پر تنبیہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے بلکہ آج تک ایک اف تک کہنا گوارا نہیں سمجھا اگر ہم اس دور حکومت میں دستور کے متعلق جائزہ لیں گے تو معلوم ہوتا ہےجتنا ان گیارہ سالوں میں دستور کی دھجیاں اڑائی گئی اس کی مثال ماضی میں کہیں بھی نہیں ملتی یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی لازمی ہے کہ آر ایس ایس اپنے نظریہ کے مطابق بابا صاحب امبیڈ کر کے قانون کا سرے سے انکار کرتی ہے اور اپنی آئیڈیا لوجی کو اس کثیر المذاہب والے ملک پر تھوپنا چاہتی ہے تب ہی وہ دستور کی نفی کررہے ہیں۔
موہن بھاگوت کے آۓ دن متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں کبھی وہ زخموں کو کریدتے ہیں کبھی مرہم پٹی کرتے ہیں تو کبھی اپنے نظریات کو تھوپنے کے تھیکے وار کرتے ہیں جس سے ایک بات تو یہ ظاہر ہورہی ہے کہ وہ اپنی زبان کے کسی بھی الفاظ کو مستقل طور پر استعمال نہیں کرتے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ تذبذب کا شکار ہے میں آپ کو یاد دلادوں کہ بھاجپا کی پوسٹر گرل و رکن پارلیمان کنگنا رناوت نے کہا تھا کہ اس ملک کو 2014 میں آزادی ملی تھی جس پر پورا ملک قہقہے لگایا تھا اس لیئے کہ شائد کنگنا رناوت ہلکی اور مضحکہ خیز باتیں کرنے میں بہت مقبولیت رکھتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا بھاگوت اور کنگنا ایک ہی صف کے کھلاڑی ہیں؟سوال یہ بھی ہے کہ کنگنا رناوت موہن بھاگوت کی ذیلی سیاسی پارٹی کی ہی رکن پارلیمان ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ یہ پہلے آپس میں طئے کرلیں کہ اس ملک کو حقیقی آزادی 2014 میں ملی ہے یا رام مندر کی تعمیر کے بعد؟ ورنہ آنے والے کل میں پھر کوئی اٹھے گا اور اسی طرح کی کوئی بھی بکواس کرے گا۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ایسے بیانات سے ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ متنازع بیانات سے کس طرح دفاع کیا جاتا ہے یا نہیں یا یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سماج میں کتنی شدت سے مخالف کی جاتی ہے پھر اس کے بعد آگے کا لائحہ عمل تیار کیاجاتا ہے ایسے بیانات ایک مکمل منصوبہ بند طریقے سے دیئے جاتے ہیں جس کے پیچھے سیاسی منطق چھپی ہوتی ہے تاکہ اکثریتی طبقہ کی عوام کو اپنی جانب پر کشش بنایا جاسکے بھاگوت کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آتا ہے جب کہ راج دھانی کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں دوسرا 22 جنوری کو رام مندر کی تعمیر کا ایک سال مکمل ہونے جارہا ہے شائد اسی نسبت سے بھاگوت نے ایک نیا پانسہ سماج میں پھینکا ہے جس سے وہ دہلی اسمبلی انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں دوسرا آر ایس ایس اپنے نظریات کو اس ملک میں لاگو کرنے کے لیئے اپنی سیاسی جماعت کے ذریعہ یکساں سول کوڈ،ون نیشن ون الیکشن،وقف ترمیمی بل و دیگر کو لاگو کرنے میں مگن ہے جس سے وہ اپنے اہم ہدف ہندوتوا کو نافذ کرنے کی طرف آگے بڑھ رہی ہے یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بے محل نہ ہوگا کہ اس ملک کا ہر شہری اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ چاہے آر ایس ایس کے سربراہ ہو یاسنگھ کا کوئی قائد جن کا کوئی بھی بیان اپنے نظریات سے بالکل بھی الگ نہیں ہوسکتا ہاں یہ بات دوٹوک کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ دور میں فی الحال آر ایس ایس، بی جے پی یا کوئی بھی ہندوتوا تنظیم اس ملک کو ہندو راشٹر میں بدلنے کی چکر میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے پر تلی ہوئی ہے تب ہی اس طرح کی بوکھلاہٹ میں ایسے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔بقول افتخار عارف ؎
حامی بھی نہ تھے منکر غالب بھی نہیں تھے
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے