سپریا شرینیت نے سوال کیا ہے کہ اگر 1947 میں آزادی نہیں ملی، اگر آزادی کی لڑائی نہیں لڑی گئی تو رانی جھانسی سے لے کر بھگت سنگھ، راج گرو، سکھدیو، اشفاق اللہ خاں جیسوں نے اپنی جان کس کے لیے قربان کی؟
آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے جب سے ملک کی حقیقی آزادی کو رام مندر کی تعمیر سے جوڑنے والا بیان دیا ہے، کانگریس لگاتار ان پر حملہ آور ہے۔ کانگریس لیڈران موہن بھاگوت کے بیان کو ملک مخالف اور غداریٔ وطن قرار دینے کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی میں شہید بہادروں کی توہین بھی ٹھہرا رہے ہیں۔ اب کانگریس نے 4 تلخ حقائق پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آخر موہن بھاگوت ہندوستان کی آزادی 1947 میں کیوں نہیں مانتے۔
کانگریس ترجمان سپریا شرینیت نے ایک طویل ویڈیو پیغام جاری کر موہن بھاگوت کے متنازعہ بیان اور اس کے بعد سامنے آ رہے رد عمل پر کچھ اہم باتیں عوام کے سامنے رکھی ہیں۔ اس ویڈیو میں کانگریس لیڈر نے کئی نکات پیش کیے ہیں، جن میں وہ 4 تلخ حقائق بھی شامل ہیں جو موہن بھاگوت اور آر ایس ایس-بی جے پی کو ہندوستان کی حقیقی آزادی کا سال 1947 ماننے پر شرمندگی کا احساس کراتا ہے۔ سپریا شرینیت کہتی ہیں کہ:
-
ان کی دقت یہ ہے کہ آزادی میں انھوں نے اپنا ایک ناخن تک نہیں کٹایا۔ ان کا تحریک آزادی میں کوئی تعاون نہیں تھا، یہ تو مخبری کر رہے تھے، معافی نامے لکھ رہے تھے۔ اسی لیے یہ اس تاریخ کو ہی مسترد کرنا چاہتے ہیں۔
-
جنھوں نے آئین کی کاپیاں جلائیں، بابا صاحب کے پُتلے نذر آتش کیے، 53 سال ترنگے کا بائیکاٹ کیا، وہ نہ آزادی کو سمجھ سکتے ہیں، نہ آج ملک کے آئین کو سمجھ سکتے ہیں۔
-
دراصل ان کو مایوسی ہے کہ ان کے پاس ایک بھی ایسا رول ماڈل نہیں ہے جس کا اس ملک میں احترام ہو۔ ان کے رول ماڈل تو انگریزوں کی مخبری کرتے تھے، معافی نامے لکھتے تھے، انگریزوں کا ساتھ دیتے تھے، ان کو بتاتے تھے کہ کس طرح 1942 کے ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کو کمزور کیا جائے۔
-
ان کو (1947 کی) آزادی سے اس لیے دقت ہے کہ آزادی کے بعد ملک میں آئین بنا اور آئین نے ان سب لوگوں کو برابری کا درجہ دیا جن کا وہ صدیوں سے استحصال کرتے آئے تھے۔ ان کو ہضم نہیں ہو رہا ہے کہ دلت، پسماندہ، قبائلی طبقہ کے لوگ ان کے بغل میں برابری سے بیٹھنے لگے اور اب وہ ان کا استحصال برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ آئین میں دیے حق کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسی لیے یہ آر ایس ایس والے آزادی، آزادی کے ہیروز، کانگریس کے جنگجوؤں اور آزادی سے پیدا آئین کی مخالفت کرتے ہیں۔
سپریا شرینیت کے اس ویڈیو پیغام کو کانگریس نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر شیئر کیا ہے۔ اس میں وہ کہتی نظر آ رہی ہیں کہ ’’جس تنظیم پر سردار پٹیل نے مہاتما گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعد فساد، دہشت اور بدامنی پھیلانے کے لیے پابندی عائد کر دی تھی، اگر اس آر ایس ایس کا چیف ہماری تحریک آزادی، ہماری آزادی کی جنگ، ہماری آزادی اور ہمارے آئین کو ہی مسترد کرے تو کیا آپ کو ذرا بھی حیرانی ہوتی ہے؟ مجھے تو نہیں ہوتی۔ مجھے تو افسوس ہوتا ہے اس بات پر کہ اس ملک میں اس قدر نفرت پھیلائی گئی ہے، ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ آج موہن بھاگوت جیسے آدمی کی ہمت ہو گئی کہ وہ اس ملک کی آزادی پر سوال اٹھا کر یہ کہہ سکیں کہ ہم 1947 میں آزاد ہی نہیں ہوئے تھے۔‘‘
سپریا شرینیت یہ سوال بھی قائم کرتی ہیں کہ ’’اگر آزادی نہیں ملی، اگر آزادی کی لڑائی نہیں لڑی گئی تو رانی جھانسی سے لے کر بھگت سنگھ، راج گرو، سکھدیو، اشفاق اللہ خاں جیسوں نے اپنی جان کس کی آزادی کے لیے قربان کی؟‘‘ وہ یہ بھی پوچھتی ہیں کہ ’’لالہ لاجپت رائے نے کہاں کی آزادی کے لیے لاٹھیاں کھائیں؟ نہرو نے اپنی جوانی کے 10 سال جیل میں کہاں کی آزادی کے لیے گزار دیے، کس آزاد ملک کی بنیاد انھوں نے رکھی؟ پٹیل بیرون ملک میں وکالت چھوڑ کر کس کی تحریک آزادی میں شامل ہونے آئے، کس آزاد ملک میں تمام ریاستوں اور رجواڑوں کو جوڑا؟ بابا صاحب نے کس آزاد ملک کے لیے آئین بنا کر سب کو برابری کا موقع دیا؟ مہاتما گاندھی نے سچائی اور عدم تشدد کی طاقت پر کس کو اکھاڑ پھینکا؟ لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں نے برطانوی حکومت کو کس ملک سے کھدیڑ کر 1947 میں آزادی پائی؟‘‘ ان سوالات کے بعد کانگریس لیڈر کہتی ہیں کہ ’’ہماری آزادی، آزادی کی تحریک، آئین کے اوپر سوال اٹھا کر موہن بھاگوت نے وطن سے غداری کی ہے۔‘‘
موہن بھاگوت کے قابل اعتراض بیان پر پہلا رد عمل ظاہر کرنے کے لیے سپریا شرینیت نے کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کی تعریف بھی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایک بات ماننی پڑے گی، نظریات کو لے کر راہل گاندھی جیسی وضاحت کسی دیگر میں نہیں ہے۔ موہن بھاگوت نے ملک کی آزادی اور آئین پر سوال اٹھانے والا ملک مخالف بیان 48 گھنٹے پہلے دیا تھا، لیکن جب تک راہل گاندھی نے اس پر آواز نہیں اٹھائی، تب تک ہر طرف سوئی ٹپک سناٹا تھا۔ ان کے بولنے کے بعد ہی اپوزیشن کے تمام لوگ اور سویا ہوا میڈیا بھی بیدار ہوا۔‘‘
راہل گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے سپریا شرینیت یہ بھی کہتی ہیں کہ ’’اس ملک کو راہل گاندھی کی ضرورت ہے۔ اس لیڈر کی ضرورت ہے جو بغیر کسی جھجک کے نظریات کی لڑائی لڑ رہا ہے، جو بغیر کسی خوف کے موہن بھاگوت کے ملک مخالف تبصرہ کو غلط کہنے کی طاقت رکھتا ہے، جس کے لیے یہ ملک ہر چیز سے اوپر، ہر چیز سے ضروری ہے۔ جس کی سریانوں میں قربانوں کا خون بہتا ہے اور جس کے اپنوں کا خون ترنگے میں شامل ہے۔‘‘ ویڈیو کے آخر میں سپریا شرینیت یہ بھی کہہ ڈالتی ہیں کہ ’’ہماری آزادی پر سوال اٹھانے کا کام ایک غدارِ وطن ہی کر سکتا ہے، حب الوطن کبھی نہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔