مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:غزہ پر حملے کے 468 دن گزرنے کے بعد، جس میں 46 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 20 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا گیا۔ آخرکار جنگ بندی کا معاہدہ حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے کے اعلان کے بعد اسلامی دنیا اور فلسطین کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ مقبوضہ علاقوں کے رہائشی، خاص طور پر انتہا پسند صیہونیوں میں مایوسی اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انتہا پسند صیہونی عناصر خاص طور پر الٹرا آرتھوڈکس گروہ کے اراکین حماس کی طاقت بحال ہونے اور اسرائیلی فوج کی غزہ سے پسپائی پر شدید ناراض ہیں۔ صہیونی اخبار “اسرائیل ہیوم” نے امریکی دباؤ کے تحت ہونے والے اس معاہدے کو اسرائیل کے لیے ایک ناکام معاہدہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب یروشلم پوسٹ نے صیہونی حکومت کے انتہا پسند عناصر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے بعد غزہ پر دوبارہ حملہ کیا جائے گا۔ اگرچہ صیہونی حکومت نے حماس کے خاتمے، غزہ کی جغرافیائی سیاست میں تبدیلی اور شمالی علاقوں میں مہاجرین کی واپسی جیسے مقاصد حاصل کرنے کا دعوی کیا تھا لیکن حقیقت میں ان میں سے کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
حزب اللہ کے رہنما شہید سید حسن نصر اللہ کی پیشن گوئی کے مطابق صیہونی حکومت نہ صرف اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی بلکہ انہیں عالمی سطح پر شدید سیاسی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں
گزشتہ 15 ماہ کے دوران صیہونی حکومت کے اعلی حکام اور فوجی افسران نے بارہا اعلان کیا کہ غزہ کی جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے پورا ڈھانچہ اور اراکین کو مکمل طور پر ختم نہ کردیا جائے۔ تاہم حالیہ دنوں امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کی اٹلانٹک کونسل میں کی گئی تقریر اور ان کا یہ اعتراف کہ عزالدین القسام بریگیڈز دوبارہ منظم ہورہی ہے، غزہ میں صیہونی شکست پر مہر ثبت کرتا ہے۔
بلنکن نے اعتراف کیا کہ واشنگٹن نے اسرائیل کو بارہا خبردار کیا کہ صرف فوجی حملوں کے ذریعے حماس کو شکست دینا ممکن نہیں، بلکہ غزہ کی پٹی کے اندر حماس کا متبادل تلاش کرنا ضروری ہے۔ امریکی حکام غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی واپسی اور وہاں کے منتخب افراد کے ساتھ تعاون کے ذریعے انتظام و انصرام کو سنبھالنے کے خواہاں ہیں۔ امریکہ فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلیجنس ڈائریکٹر ماجد فرج کے اہلکاروں کی غزہ میں موجودگی اور صیہونی حکومت و بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ تعاون کے ذریعے مقاومت کا راستہ روکنے کا خواہاں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی یا علاقائی طاقت غزہ کے عوام میں مقاومتی تنظیموں کے لئے موجود مقام اور حمایت کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ غزہ کے باشندے 2004 سے 2007 کے حالات کو بھولے نہیں ہیں اور غالباً دوبارہ فلسطینی اتھارٹی کو حماس کے تعاون کے بغیر یہاں حکومت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ امریکی اور صیہونی حکام نے غزہ کی صورتحال کے بارے میں مزید غلط فیصلوں کا بخوبی اندازہ جنگ کے خاتمے پر غزہ کے عوام کی خوشی اور ان کی طرف سے حماس و جہاد اسلامی کی قدردانی سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ ایک ایسی حکومت یا تنظیم جو عوامی مقبولیت اور حمایت رکھتی ہو، اس کو ختم کرنے کا سوچنا دیوانے کا خواب ہے۔ جب غزہ یا مغربی کنارے میں کوئی مقاومتی مجاہد شہید ہوتا ہے تو درجنوں نوجوان اور بچے جنازے میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے مشن کو آگے بڑھانے کا عہد کرتے ہیں۔
بن گویر اور اسموتریچ ناکامی کے غم میں سوگوار
نتن یاہو کی کابینہ میں شامل سیاستدانوں میں ایتامار بن گویر اور اسموتریچ دو ایسے رہنما ہیں جو دوحہ میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان پر سب سے زیادہ ناراض ہوئے۔ بن گویر، جو “قدرت یہودی پارٹی” کے سربراہ ہیں، نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے اس معاہدے کی مخالفت کا اعلان کیا اور کابینہ سے علیحدگی کی دھمکی دی۔ تاہم گدعون ساعر کی کابینہ میں شمولیت کے بعد بن گویر کے پاس حکومت گرانے کے لیے درکار حمایت موجود نہیں رہی۔ اس لیے انہوں نے “صہیونی مذہبی پارٹی” کے سربراہ اور وزیر خزانہ اسموتریچ سے درخواست کی کہ وہ بھی حکومت کو گرانے کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں۔ اسموتریچ کی طرف سے حکومت کے خلاف تحریک میں شمولیت کے حوالے سے متضاد خبریں موصول ہورہی ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اسموتریچ کی غیر واضح پوزیشن نتن یاہو کے ساتھ ممکنہ سیاسی سودے بازی کی طرف اشارہ ہوسکتی ہے۔
نتن یاہو کی کابینہ میں شاید سب سے زیادہ مخالف شخصیت اسموتریچ ہیں، جو غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو اسرائیل کی تاریخ کا بدترین معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے سخت بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب انہیں نتن یاہو کے دباؤ میں آ کر بعض اوقات عملی سیاست اختیار کرنی پڑی جس کے نتیجے میں ان کی عوامی حمایت میں واضح کمی آئی۔ تازہ ترین سروے کے مطابق عوام نے “صہیونی مذہبی” پارٹی کو 3.25 فیصد سے کم ووٹ دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی پارلیمنٹ “کنسٹ” میں کوئی نشست حاصل نہیں کر سکے گی۔ اس تناظر میں اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا کہ نتن یاہو نے اسموتریچ کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے بعد غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کی جائے گی۔ بعض ذرائع کا خیال ہے کہ اسموتریچ کو غرب اردن کے “C” علاقے کی تقسیم کے حوالے سے کچھ خاص فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
غرب اردن کے علاقوں کی تقسیم
مغربی کنارے کے علاقے کو اوسلو معاہدوں کے تحت تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
علاقہ A: انتظام اور سیکیورٹی فلسطین کے کنٹرول میں
علاقہ B: انتظام فلسطین کے کنٹرول میں اور سیکیورٹی کنٹرول اسرائیل کے پاس
علاقہ C: اسرائیل کی مکمل سکیورٹی اور انتظامی کنٹرول میں
چاہے ان میں سے کوئی بھی نکتہ درست ہو، جو حقیقت میں سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ نتن یاہو اور ان کے انتہاپسند اتحادیوں کی دلی خواہش ہے کہ وہ جنگ بندی کے موقع پر اپنی پوزیشن مضبوط کریں اور غزہ میں جنگ بندی کا معقول جواز پیش کریں۔
حاصل سخن
طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز کے صرف چند گھنٹوں بعد نتن یاہو نے یوآو گیلانت اور بنی گانتز کے ساتھ اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے آکر غزہ میں ایک بڑی جنگ کے آغاز کا اعلان کیا جس کا مقصد علاقے کی دفاعی، سیاسی اور جغرافیائی صورتحال کو بدلنا تھا۔ “حماس کی نابودی” اور “غزہ کی جغرافیائی سیاست میں تبدیلی” ایسے دو بڑے وعدے تھے جو اسرائیلی وزیراعظم نے کیے تھے مگر یہ دونوں وعدے قطر کے وزیراعظم کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان تک پورے نہ ہوسکے۔
2024 کے خزاں کے اوائل میں اسرائیل کی جنگی کابینہ نے مہاجرین کی اپنے گھروں میں واپسی اور شمالی فلسطین میں امن کی بحالی کے عزم کے ساتھ لبنان کے مزاحمتی گروپوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لبنان کی محاذ پر جنگ بندی کے باوجود شمالی علاقوں کے مہاجرین اپنے گھروں میں واپس جانے میں صہیونی حکومت کے وعدوں پر یقین کے لئے تیار نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ شہید سید حسن نصر اللہ کا وعدہ تھا کہ “جب تک غزہ میں جنگ ختم نہ ہو، شمالی فلسطین کے مہاجرین اپنے گھروں میں واپس نہیں جائیں گے۔”
حالیہ کامیابی مقاومتی تنظیموں کے شہداء کے خون اور غزہ، غرب اردن، لبنان، یمن، شام، عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران سے تعلق رکھنے والے راہ قدس کے مجاہدین کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔