اپنے ہاتھ سے روزی کما کر کھانا انبیاء کرام ؑکی سنت مبارکہ  حلال کمائی مال وصحت میں برکت کا ضامن۔ مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین رحمت حسامی

حیدرآباد 11جنوری (راست) مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین رحمت حسامی (نائب خطیب جامع مسجد دارالشفاء)نے جامع مسجد دارالشفاء میں جمعہ کے خطاب میں کسب معاش سے متعلق بیان فرماتے ہوئے کہا کہ حضرت مقدام بن معدی قرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبھی کسی نے اپنے ہاتھ کی محنت کی روزی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا اور اللہ تعالی کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی محنت سے کمائی ہوئی روزی کھاتے تھے اپنے ہاتھ سے روزی کما کر کھانا خود محنت کر کے کھانا یہ انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت مبارکہ ہے جو شخص کسی کمائی مثلا تجارت زراعت وغیرہ کا پیشہ اختیار کرے اس پر فرض ہے کہ وہ صرف حلال اور جائز مال کمائیں حرام کمائی سے مکمل طور پر اجتناب کریں اپنے پیشے اور ہنر میں احکام شریعت کو ہر حال میں ملحوظ رکھے اپنے پیسے میں جدوجہد سخت ترین محنت سے کام لیں اور صرف اللہ تعالی کی ذات پر مکمل توکل کرے اور اعتماد رکھیے اس لیے کہ حقیقی رازق مطلق صرف اللہ ہی ہے قران مجید میں ارشاد باری تعالی ہے اے ایمان والو تم صرف وہی پاکیزہ اور حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کیا اور شکر ادا کرو اللہ تعالی کا اگر تم اس کے بندے ہو۔حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث سے دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس ایت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ سب سے بہتر کسب جہاد ہے بشرط یہ کہ جہاد کے ارادے کے وقت مال و غنیمت کے حصول کا خیال دل میں قطع نہ ہو بلکہ نیت میں اخلاص ہو جو مال غنیمت حاصل ہو سب سے بہتر رزق ہے اس کے بعد تجارت کا درجہ ہے تجارت ملکی ہو یا غیر ملکی جو مسلمانوں کی ضروریات کو شامل ہو اس قسم کی تجارت کرنے والا اگر حصول منفعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خدمت کی نیت بھی رکھے تو اس کی تدارت عبادت کی ایک صورت بن جائے گی تجارت کے بعد جرات کا درجہ ہے زراعت کا پیشہ بھی دنیاوی منفعت کے علاوہ اجر و ثواب کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتا ہے بشرط یہ کہ اس میں اللہ تعالی کی رحمت پر توکل واعتماد ہو اج کل کاروباروں میں دھوکہ دہی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے ایک قیمت بتا کر ایک قیمت میں بیچا جاتا ہے فائدہ بتا کر نقصان چھپایا جاتا ہے حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام کے خلاف ہے اور اس میں حرام کا شبہ بھی بڑھ جاتا ہے تو ان عادتوں سے تاجروں کو چاہیے کہ اپنی تجارتوں میں شفافیت پیدا کریں اور حلال و حرام کا فرق کرتے ہوئے تجارت کریں خراب مال کو الگ کر دے اور اچھے مال کو الگ کر دے خریدنے والے کو مال کے خرابی سے اگاہ کر دیں اسلام میں مال کی ذخیرہ اندوزی سے بھی منع فرمایا گیا ہے حضرت محمد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص احتقار کرے یعنی غلے کی ذخیرہ اندوزی وہ گنہگار ہوگا یعنی ایسی چیز کہ جو انسان یا حیوان کی غذائی ضرورت میں کام اتی ہو گراں بازاری کی حالت میں خرید کر اس نیت سے اپنے پاس رکھے کہ جب اور زیادہ گرانی ہوگی تو اسے بیچوں گا یہ احتقار کہلاتا ہے حدیث سے میں ہے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تاجروں کو رزق دیا جاتا ہے اور احتکار کرنے والا ملعون ہے اج کل ہمارے معاشرے میں ذخیرہ اندوزی عام بات ہو گئی ہے لوگ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد مالدار بنیں جس کی وجہ سے بڑے بڑے کاروبار والے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں تاکہ عوامی ضروریات کو روکے اور جب اس مال کی شدید ضرورت ہو اس وقت اس کی قیمت بڑھا کر بیچا جائے ایسا کرنا اسلام میں سخت گناہ قرار دیا گیا ہے چنانچہ اس سے بھی ہم کو محفوظ رہنے کی ضرورت ہے اور اپنی کمائیوں میں شفافیت لانے اور حلال کمائی کمانی چاہیے اخیر میں مولانا نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اللہ تعالی ہم سبوں کو حلال اور پاکیزہ روزی دے اور زندگی کے ہر شعبے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور ان کی سنتوں کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *