[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معروف امریکی میگزین دی ہل نے امریکی فوج کو جدید بھرتیوں کے معاملے میں درپیش بحران کے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی فوج کے رضاکار یونٹ گزشتہ ماہ 50 سال کے ہوگئے۔ اگرچہ 1973 میں جبری بھرتی کا خاتمہ امریکی فوج اور معاشرے دونوں کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، لیکن اس لمحے کی سالگرہ کا سرکاری طور پر پرتپاک استقبال نہیں کیا گیا۔ حقیقت میں یہ ایک تلخ واقعیت کو پیش کرتا ہے کہ امریکی فوج ایک بحران سے گزر رہی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے بلکہ بہتر انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ امریکی فوج کے سر سے پانی گزر رہا ہے۔
امریکی فوج کے پالیسی ساز ۲۰۲۳ تک فوج میں انسانی وسائل اضافہ کرنا چاہتے تھے لیکن توقع کے برعکس آج امریکہ کو موجودہ تعداد کو بھی برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ گذشتہ سال کل وقتی ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کی تعداد میں ۴ لاکھ ۸۵ ہزار افراد اضافہ کرنا چاہتے تھے لیکن ۲۰۲۳ میں اس تعداد میں ۳۳ ہزار کی کٹوتی کی گئی اس کے بعد اعلان کے مطابق کم شدہ تعداد کو پورا نہیں کیا جاسکا۔
اس بحران کی مختلف وجوہات ہیں۔ امریکی فوج کی جانب سے سہولیات کے وعدے اور یونیورسٹیوں کے طلباء کے لئے قرضون کی ادائیگی کے سلسلے میں دی گئی رعایتیں بھی زیادہ کارگر ثابت نہ ہوسکیں۔ امریکی جوان فوج کے بجائے دیگر شعبوں میں قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔
عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکی فوج پر عوام کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچایا ہے۔ دی ہل کے مطابق مالی بحرانوں اور کرونا سے پیدا ہونے والے حالات سے گزرنے والی جوان نسل کسی قسم کا رسک لینا نہیں چاہتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ۱۷ سے ۲۴ سال کے درمیانی عمر کے ۷۷ فیصد امریکی جوان جسمانی مشکلات، منشیات کے استعمال اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے فوج میں بھرتی کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔
امریکی فوج کو اندرون ملک اور بیرون ملک زیادہ ڈیوٹیاں درپیش ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں ایک انتظامی حکمنامہ جاری کرکے یورپ میں امریکی افواج کو مضبوط بنانے کے لیے ۳۰۰۰ ریزرو فوجیوں کو متحرک کرنے کی اجازت دی ہے یہ صدارتی حکم دنیا بھر میں بڑی تعداد میں فوجی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے واشنگٹن کی لامتناہی خواہش کی تصدیق کرتا ہے۔
میگزین کے مطابق گذشتہ دہائی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نسبت امریکی فوج زوال کا شکار ہے۔ فوج کے اندر بنیادی تبدیلیاں نہ لائی جائیں تو کسی جنگ کے بغیر ہی تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ فوج میں کل وقت ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کی تعداد پرل ہاربر پر حملے کے زمانے میں موجود تعداد سے بھی کم ہوسکتی ہے۔ اس کمترین تعداد کے ساتھ امریکی فوج مشرق وسطی، یورپ اور مشرقی ایشیا میں مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ یوکرائن جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ایک ہزار امریکی فوجی نیٹو کی دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کے لئے موجود ہیں۔
مشرق وسطی سے فوجی انخلاء لفظی وعدوں پر محدود ہونے کی وجہ سے فوجی اہلکار ابھی اس خطے میں موجود ہیں۔ عراق کے اندر ڈھائی ہزار فوجی جب کہ داعش کے خلاف کاروائی کے بہانے کویت میں فضائی فوج کے اہلکار موجود ہیں۔ ایرانی میزائلوں اور مقاومتی تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے سعودی عرب میں فضائی دفاعی سسٹم نصب کررکھا ہے حالانکہ خطے میں سیاسی حالات پہلے سے بہت زیادہ بدل گئے ہیں۔
جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ معاہدوں کے بہانے بحر الکاہل میں امریکی فوج فعال ہے۔ جنوبی کوریا میں ۲۸ ہزار سے زائد اہلکار تعیینات ہیں۔ اگرچہ مبصرین کے مطابق امریکہ اور چین کی اگلی جنگ بحر الکاہل میں ہوگی جوکہ فضائی اور بحری جنگ ہوگی لیکن واشنگٹن لاجسٹک سپورٹ کے لئے اپنے فوجی اہلکاروں کو تعیینات رکھنے کا خواہشمند ہے۔
دی ہل میگزین نے مزید لکھا ہے کہ سرحد پار سرگرمیوں میں افواج کی مناسب ایڈجسٹمنٹ کے بغیر فوج کی تعداد میں کمی لانے سے امریکی فوج کی آپریشنل صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے اس کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ ملکی فوج احتمالی جنگ کی صورت میں تیار نہیں ہوگی۔ پینٹاگون کی پالیسی کے مطابق ہر فوجی چھے مہینے ڈیوٹی دینے کے بعد ۱۸ مہینے اپنے گھر والوں کے پاس چھٹی منانے جاتا تھا لیکن یہ فیصلہ فوج کے لئے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں تھا اسی وجہ سے جدید فیصلے کے مطابق ہر چھے مہینے بعد ۱۲ مہینے کی چھٹی دی جاتی ہے۔
میگزین کے مطابق بیرون ملک ڈیوٹی دینے کے علاوہ ملک کے اندر بھی فوج کی ضرورت ہے۔ کرونا وائرس کے دوران ہونے والے فسادات اور سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ہونے والے وسیع مظاہروں کے دوران اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی۔ قدرتی حادثات، طوفانون، سیلاب اور جنگل میں آگ لگنے کے واقعات میں فوج کا کردار اہم ہے۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی فوج کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو جذب کرے یا ملک کے اندر اور بیرون ملک اپنی سرگرمیوں میں کمی لائے۔ جوانوں کو جذب کرنے کے سلسلے میں امریکی فوج کو درکار اجتماعی مشکلات کے باعث مستقبل میں امریکی فوج کو درپیش بحران میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔