تجسس غالب کی شاعری کی بنیادی شناخت ہے: پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی

غالب ہوں یا اقبال ان کی شاعری کو فارسی سے واقفیت کے بغیر باقاعدہ نہیں سمجھا جاسکتا اور اس سیمینار میں فارسی نویسی پر بھی مقالے پڑھے گئے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویربشکریہ یو این آئی</p></div><div class="paragraphs"><p>تصویربشکریہ یو این آئی</p></div>

تصویربشکریہ یو این آئی

user

تجسس غالب کی شاعری کی بنیادی شناخت ہے اور ہمارے تمام اہم نقادوں نے اس تعلق سے لکھاہے، لیکن اس عہدمیں اس گوشے پر غورکیاجائے تو بہت سے نئے گوشے واضح ہوسکتے ہیں اور غالب پر اب گفتگو کرنے کایہی جواز ہے کہ نئے گوشے دریافت کیے جائیں، ان خیالات کا اظہار غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب تقریبات کے تحت سمینار کے دوسرے دن اجلاس کی صدارتی تقریر کے د وران سابق صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کیا۔ اس اجلاس میں صدر جمہوریہ کے او ایس ڈی سنیل ترویدی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر احمد امتیاز نے’مرزا غالب اور ذہنی اضطراب‘، ڈاکٹر توصیف ڈرانے ’غالب اور غم روزگار‘ اور ڈاکٹر نوشاد منظر نے ’غالب کا استفہامیہ طرز تخاطب‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شاہد اقبال نے کی۔

دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر عبدالحق نے کی۔ مقالات پر گفتگو کے دوران انہوں نے کہاکہ غالب ہوں یا اقبال ان کی شاعری کو فارسی سے واقفیت کے بغیر باقاعدہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کے اجلاس میں غالب کی فارسی نویسی پر بھی مقالے پڑھے گئے لیکن آئندہ نسل کو اس طرف زیادہ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر خالد علوی نے ’غالب کی فریادکی ایک دلچسپ لَے‘،پروفیسر شافع قدوائی نے ’غالب کا تخلیقی ردعمل‘، ظہیر انورنے ’خطوط غالب کے ڈرامائی عناصر‘ اور ڈاکٹر معید رشیدی نے’غالب کا تصور ہستی‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ اجلاس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عالیہ نے انجام دیا۔

تیسرا اجلاس آن لائن منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور پروفیسر قاضی جمال حسین نے کی۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ اس سال سمینار کا عنوان ایک قسم کی آزمائش بھی ہے تاکہ تکرارسے محفوظ رہاجاسکے۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے کہاکہ کسی شاعر کامطالعہ کرتے وقت یہ احتیاط رکھنا چاہیے کہ اس کی تخلیقی شخصیت اور ظاہری شخصیت میں ایک فاصلہ قائم رہے۔ ظاہری شخصیت کا کچھ عکس تو تخلیق میں ہوتاہے لیکن بعینہ نہیں ہوتا۔اس اجلاس میں پروفیسر تحسین فراقی، پروفیسر اصغر ندیم سید اور پروفیسر ناصر عباس نیر نے مقالات پیش کیے اور پروفیسر سرورالہدیٰ نے مقالہ نگاروں کا تعارف پیش کیا۔

چوتھے اجلاس کی صدارت سابق صدر شعبہ فارسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر آزر می دخت صفوی نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے بین الاقوامی سمینارکی یہ خصوصیت بھی ہے کہ یہاں فارسی دنیا کے نام آور محققین کوبھی مدعو کیاگیاہے جنہوں نے غالبیات کے تعلق سے ایران میں اہم خدمات انجام دی ہیں۔ اس اجلاس میں پروفیسر محمد رضانصیری نے ’فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ‘ پروفیسر کریم نجفی نے بر زیگر نے ’مہر نیم روز ایک مطالعہ‘، پروفیسر اخلاق احمد آہن نے ’فریاد کی لے اور غالب کا تخلیقی ذہن‘، ڈاکٹر رشد القادری نے ’غالب اور احساس غم‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر سید وجاہت مظہر نے کی۔اجلاس سے قبل آغامحمد باقر شمس کی کتاب ’داستان لکھنو‘ اور ’دبستان لکھنو اور پروفیسر کریم نجفی برزیگرکی مرتبہ کتاب ’مہرنیم روز‘ کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔

اس موقع پر آغامحمد باقر شمس کے نواسے وقار حیدراور پروفیسر انیس اشفاق نے بھی مختصراً اظہار خیال کیا۔ سمینار کے بعد عالمی مشاعرے کاانعقاد ہواجس کی صدارت جناب وقار حیدر (امریکہ) نے کی۔ جلیل نظامی (قطر)، امیرمہدی (لندن) نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور نظامت منصور عثمانی نے کی۔

جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں پروفیسر عتیق اللہ، ڈاکٹر نواز دیوبندی، پروفیسر شہپررسول، پروفیسر فاروق بخشی، شکیل حسن شمسی، پروفیسر مہتاب حیدر نقوی، ڈاکٹر شبنم عشائی، اعجاز پاپولر،شکیل اعظمی، معین شاداب، ڈاکٹر مجاہد فراز، ما ہرسیوہاروی، سیف بابر، مصداق اعظمی، محتر مہ عصمت زیدی شفاء ، صہیب احمد فاروقی اور سالم سلیم کے نام شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *