[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:شام کا بحران عصر حاضر کے پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے زوال اور انتہا پسند گروہوں کے ملک کے بڑے حصوں پر قبضے سے دنیا کو نئے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے مشرق وسطی شدت پسندی کا مرکز بننے کے علاوہ ان مغربی ممالک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑگئی ہے جو خود ان تنظیموں کو مالی اور عسکری مدد دے رہے ہیں۔
مغرب کی حمایت میں مشرق وسطی میں شدت پسندی کا فروغ
مشرق وسطی کے بحرانوں میں مغرب بالخصوص امریکہ کی پالیسیوں نے شدت پسندی کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے داعش جیسے گروہوں کی تشکیل کے لیے زمین ہموار کی۔ 2014 میں داعش نے شام اور عراق کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا۔ شام کے اندرونی تنازعات کے دوران بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے مغربی ممالک نے باغی گروہوں کو مالی اور دفاعی امداد فراہم کی۔ 2012 سے لے کر اب تک مغربی ممالک نے شامی مخالفین کو تقریباً 500 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی، جس کا ایک حصہ براہ راست انتہا پسند گروہوں تک پہنچا۔
مغرب کی جانب سے انتہاپسند گروہوں کے حامی عرب ممالک کے ساتھ تعاون بھی دہشت گردی کو تقویت دینے کا سبب بنا۔ ذرائع کے مطابق ان ممالک سے شامی باغیوں کو بھیجی جانے والی 40 فیصد امداد انتہا پسند گروہوں کے ہاتھوں میں گئی۔ علاوہ ازین خطے میں عوام کو درپیش غربت اور بیروزگاری اور سیاسی مسائل بھی شدت پسندی کے پھیلاؤ کے اسباب میں شامل ہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں شام کے ان علاقوں میں، جو دہشت گرد گروہوں کے زیرِ کنٹرول ہیں، 50 فیصد سے زیادہ نوجوان بے روزگار تھے، جس نے ان گروہوں میں بیروزگار افراد کی بھرتی آسان بنادی۔
مغربی ممالک کی فوجی مداخلتیں بھی شدت پسند گروہوں کو تقویت دینے کا باعث بنیں۔ ان حملوں کے بعد تقریباً 30 فیصد خالی ہونے والے علاقے انتہا پسند گروہوں کے کنٹرول میں چلے گئے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے مغرب، خصوصاً برطانیہ پر شام کے بحران کو طول دینے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے شام کے بحران کے لیے چار ارب پاؤنڈ سے زائد رقم خرچ کی لیکن اس رقم کا کتنا حصہ دراصل اس بحران کو پیدا کرنے اور جاری رکھنے کے لیے استعمال ہوا؟ برطانیہ جو شام اور عراق میں داعش کے پھیلاؤ کے ذمہ دار ہیں، شامی عوام کے خون میں اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج شامی عوام ان ہتھیاروں سے قتل کیے جارہے ہیں جو برطانیہ نے اسرائیل کو فراہم کیے ہیں اور ان کی بنیادی انفراسٹرکچر کو تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ اقدامات باعث شرمندگی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی پالیسیاں نہ صرف خطے کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ ان کی وجہ سے بحران مزید گہرا ہوا اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔
شام دہشت گرد گروہوں کا گڑھ اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ
شام جو پہلے بھی بعض علاقوں میں دہشت گردوں کا مرکز رہا ہے، اب مشرق وسطیٰ میں مسلح اور دہشت گرد گروہوں کے سب سے بڑے مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ان گروہوں کی موجودگی نہ صرف شام کی داخلی سلامتی بلکہ خطے اور دنیا کے استحکام کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ ذیل میں شام میں سرگرم چند بڑے دہشت گرد گروہوں کا ذکر کیا جارہا ہے:
الف۔ ہیئت تحریر الشام
یہ تنظیم شمال مغربی شام میں سب سے زیادہ متحرک اور طاقتور دہشت گرد گروہ ہے، جو القاعدہ کی باقیات پر مشتمل ہے۔ اسے پہلے جبهة النصرہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور 2018 میں امریکی محکمہ خارجہ نے اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، ابو محمد الجولانی کی قیادت میں اس گروہ نے شام کے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
ب۔ داعش
اگرچہ داعش کی طاقت 2014 سے 2018 کے عروج کے مقابلے میں کم ہو چکی ہے، لیکن اس کے باقیات اب بھی مشرقی شام کے صحرائی علاقوں خاص طور پر دیر الزور اور حمص میں سرگرم ہیں۔ حالیہ دنوں میں تحریر الشام کے جنگجوؤں کے داعش کے جھنڈے تلے لاذقیہ شہر میں داخل ہونے کی تصاویر نے ایک بار پھر خطے اور دنیا کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ گروہ نہ صرف شامی عوام بلکہ بین الاقوامی امن و امان کے لیے بھی مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
ج۔ شامی قومی فوج
یہ گروہ ترکی کی حمایت سے کام کرتا ہے اور ترکی کی سرحد کے ساتھ شمالی شام کے وسیع علاقے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ یہ گروہ ان فوجیوں پر مشتمل ہے جو بشار الاسد کی افواج سے منحرف ہو کر شامی آزاد فوج میں شامل ہوئے تھے۔
د۔ سیرین ڈیموکریٹک فورسز
یہ گروہ داعش کے خلاف جنگ میں سرگرم ہے اور مشرقی فرات کے علاقوں، بشمول رقہ (سابقہ داعش کا دارالحکومت)، پر قابض ہے۔ تاہم، SDF کو ترکی اور دیگر گروہوں کے ساتھ جھڑپوں کا سامنا بھی رہتا ہے، جو خطے میں مسلسل کشیدگی کا باعث بنتا ہے۔
ہ۔ جنوبی آپریشنز روم
یہ ایک نیا باغی گروہ ہے جس نے جنوبی شام کے علاقے درعا سے سر اٹھایا ہے۔ یہ علاقہ جو اسد حکومت کے خلاف بغاوت کا مرکز رہا ہے، اب دروزی اقلیت کے جنگجوؤں کا گڑھ بن چکا ہے۔
و۔ چھوٹے شدت پسند گروہ
ایسے گروہ، مثلاً القاعدہ کی ذیلی تنظیم حراس الدین اور جبهة النصرہ کے باقیات اب بھی شام کے مختلف علاقوں میں فعال ہیں۔ ان گروہوں کو بعض علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں سے مالی اور عسکری مدد ملتی ہے، جو خطے کی سیکورٹی کو مزید خطرے میں ڈالتی ہے۔
شام میں طاقت کا خلا اور عالمی سلامتی پر اثرات
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو ایک تاریخی تبدیلی سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، اس کے نتیجے میں طاقت کے خلا نے دہشت گردی کے فروغ کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔ ان واقعات کے نتیجے میں خطے اور عالمی سطح پر درپیش چند اثرات کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
1. شدت پسندی کے نظریات کا احیاء
اگر تحریر الشام اور دیگر دہشت گرد گروہ شام کے وسیع علاقوں پر قابض ہو گئے تو یہ شدت پسندی کے نظریے کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ گروہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے اپنے نظریات کو پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس سے مغربی ممالک میں نئی دہشت گردانہ کارروائیوں کو ترغیب مل سکتی ہے۔ شام میں دہشت گردوں کی کامیابی سے مشرق وسطی، افریقہ اور یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ میں موجود دیگر شدت پسند گروہوں کو بھی شہہ مل سکتی ہے۔ یہ عالمی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔
2. غیر ملکی جنگجوؤں کی واپسی مغرب کے لیے ایک سنگین خطرہ
گزشتہ برسوں کے دوران ہزاروں غیر ملکی جنگجو شام میں داخل ہوئے، جنہوں نے شدت پسندانہ نظریات کو فروغ دینے کے علاوہ عسکری تربیت حاصل کی۔ اب ان جنگجوؤں کی اپنے ممالک کو واپسی مغربی ممالک، خاص طور پر یورپ اور امریکہ، کے لیے سنگین سیکیورٹی خطرہ بن چکی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 900 برطانوی شہریوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی، جن میں سے نصف واپس برطانیہ جا چکے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد پہلے ہی قید میں تھے، لیکن بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے ساتھ ان میں سے کچھ قیدی آزاد ہو گئے ہیں۔ ان شدت پسندوں کی آزادی مغربی ممالک کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے پاس جنگی تجربہ اور شدت پسندی کی سوچ دونوں موجود ہیں۔
3. مہاجرین کا سیلاب اور یورپ کا بحران
شام میں اقتدار کا خلا شدت پسند گروہوں کی باہمی جھڑپیں اور مسلسل بد امنی خطے سے خطے سے مہاجرین کا سیلاب جاری ہوسکتا ہے۔ یہ حالات یورپی ممالک پر مہاجرین کے دباؤ کو مزید بڑھا سکتے ہیں، جو پہلے ہی اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
حال ہی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے خبردار کیا کہ بشار الاسد حکومت کا خاتمہ یورپ میں ایک بڑے پیمانے پر مہاجرین کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال یورپی یونین میں سیاسی اور سماجی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔
4. مغرب میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ
شام میں سیکیورٹی کے خلا سے شدت پسند گروہوں کو مزید پیچیدہ اور بڑے پیمانے پر حملے منصوبہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ ان گروہوں کے پاس اب زیادہ وسائل اور تربیت موجود ہے جو یورپ اور امریکہ میں خطرناک حملوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر داعش کے 2015 اور 2016 میں فرانس میں کیے گئے حملوں میں 700 سے زائد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، جس نے مغربی دنیا کو گہرے صدمے میں ڈال دیا۔ برطانیہ میں بھی دہشت گردی کے خطرے کی سطح اکثر بحرانی رہی ہے۔ یہ خدشہ برقرار ہے کہ شدت پسند گروہ مستقبل میں مزید خطرناک کارروائیاں انجام دے سکتے ہیں۔