شام کے خلاف امریکہ اور صیہونی منصوبے کی تکمیل میں ترکی کا کردار

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ ترکی نے شام کے خلاف امریکی صیہونی منصوبے کی تکمیل میں علاقائی مہرے کا کردار ادا کیا ہے۔

  اس ملک نے آج سے 13 سال پہلے (مارچ 2012) شام میں اپنی سفارتی سرگرمیاں اس وقت روک دی تھیں جب اس ملک میں دہشت گردوں اور مسلح گروہوں کے بحران کا آغاز ہوا تھا۔

 تاہم بشار الاسد حکومت کے زوال کے ایک ہفتے بعد ترکی نے دمشق میں  سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔

 اس وقت شام کا مستقبل غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔ مبصرین اس ملک میں جنم لینے والے حالیہ بحران  کو بیرونی ممالک کے منصوبے کا شاخسانہ قرار دے چکے ہیں۔

خاص طور پر ترکی کی جولانیاں واضح  دکھائی دے رہی ہیں جو بشار الاسد مخالف مسلح گروہوں کے اہم ترین حامیوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے شام کے بحران  کو امریکی صیہونی منصوبہ قرار دیتے ہوئے ایک پڑوسی ملک کے واضح کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ واقعات ایک امریکی صہیونی منصوبے کی پیداوار ہیں اور اس منصوبے کا اصل کمانڈ روم امریکہ اور صیہونی رجیم ہے۔

 انہوں نے اگرچہ نام لے کر ترکی کا ذکر نہیں کیا لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ شام کے واقعات میں واضح کردار ادا کرنے والا یہ پڑوسی ملک خلیفہ اردگان کا ترکی ہے۔

 شام سے روسی اور ایرانی افواج کے انخلاء سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شام کے سیاسی منظر نامے میں ایران اور روس کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے اور یہ ملک ایک طرف ایک نئے نظام کی طرف بڑھ رہا ہے، اور دوسری طرف ترکی کی جانب سے مسلح گروہوں کی وسیع حمایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک میں ترکی کا کردار سب سے اہم ہو گیا ہے۔ 

شام کا بحران اور بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے۔ ترکی، اس بحران میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر، سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر باغیوں خاص طور پر تحریر الشام جیسے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ مبصرین ترکی کے کردار کو نو-عثمانیت کے احیا کی اس ملک کی دیرینہ خواہش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 شام پر دہشت گردوں کے قبضے کے لئے اردگان کی حمایت

اردگان نے گزشتہ ہفتے استنبول میں ایک دعائیہ تقریب کے دوران  شامی حکومت کے خلاف مسلح دہشت گردوں کی حمایت کے ارادے کو واضح طور پر ظاہر کیا۔

انہوں نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مسلح گروہوں کا حتمی ہدف دمشق ہے اور میری خواہش ہے کہ حلب، ادلب اور حما کے بعد حکومت مخالف قوتوں کی پیش قدمی بغیر کسی ہنگامے اور کشیدگی کے دمشق کی طرف جاری رہے۔

اگرچہ ترک حکام بشمول وزیر خارجہ ہاکان فیدان  نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انقرہ کا اسد حکومت کے زوال میں کوئی کردار نہیں ہے تاہم زمینی شواہد اس دعوے کے برخلاف ترکی کی شام میں دخل اندازی کو ثابت کرتے ہیں۔

ترکی کی دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی وجوہات

 بین الاقوامی ماہرین نے اسد حکومت کو گرانے میں ترکی کردار اور اہداف کی درج ذیل وجوہات بتائی ہیں:

 1۔ سرحدی تحفظ: مسلح گروپوں کی حمایت میں ترکی کے اہم مقاصد میں سے ایک اپنی جنوبی سرحدوں پر کردوں اور PKK سے وابستہ ملیشیاؤں کے اثر و رسوخ کو پھیلنے سے روکنا ہے۔

 2. اپنے اثر و رسوخ کا ایک خطہ بنانا: اردگان شمالی شام میں اثر و رسوخ کا ایک ایسا علاقہ بنانا چاہتے ہیں جہاں وہ اپنے سیاسی اور اقتصادی مقاصد کو آگے بڑھا سکیں۔ ترک حکمرانوں کے مطابق، اس سے بین الاقوامی مذاکرات میں ترکی کی پوزیشن کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

 3۔ طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا: بشار الاسد مخالف گروہوں کی حمایت شام میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے اور مرکزی حکومت کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتی ہے، جو ترکی کے مفاد میں ہے۔

4- اقتصادی مفادات: شام میں جنگی بحران نے ترکی کے لیے اقتصادی مواقع پیدا کیے ہیں، جن میں مسلح گروہوں کے ساتھ تجارت اور ان کے زیر کنٹرول علاقوں کے قدرتی وسائل کا استعمال شامل ہے۔ 

تاہم میڈیا میں اسد حکومت کے خاتمے کے لیے ترکی کے کردار کی دو سیاسی وجوہات بتائی گئی ہیں:

 پہلی وجہ، اسد کے تعاون سے انکار پر اردگان کا غیر سفارتی آپشنز کی طرف مائل ہونا۔

دوسری وجہ، اردگان امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فروری میں باضابطہ طور پر حلف اٹھانے سے پہلے ایک سودے بازی کا کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ وہ شامی کردوں کی حمایت نہ کرے، جنہیں ترکی اپنے لئے”ممکنہ خطرہ” سمجھتا ہے۔ “شامی کرد” ملک کے شمال میں ترکی کی جنوبی سرحدوں کے قریب موجود ہیں اور PKK” گروپ سے وابستہ ہیں۔ PKK کو ترکی نے ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے۔

نتائج اور مضمرات

ترکی نے شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے نہ صرف بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کرنے میں مدد کی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں خطے میں انسانی اور سکیورٹی بحران نے بھی جنم لیا ہے اور ان اقدامات نے روس اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ ترکی کے تعلقات کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ 

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ” کے امریکی تجزیہ کار کا خیال ہے کہ ترکی کی شام میں مداخلت نے خارجہ پالیسی کے میدان میں انقرہ کے لئے اہم چیلینج پیدا کر دیا ہے۔

  ہوسکتا ہے کہ ترکی شام میں اپوزیشن قوتوں کی طویل المدتی حمایت کی وجہ سے  سردست اچھی صورتحال محسوس کر رہا ہو لیکن نئے حالات انقرہ کے لیے بھی چیلنجز پیدا کریں گے۔ 

کیونکہ شام، ترکی کے ساتھ طویل مشترکہ سرحد رکھتا ہے، شامی پناہ گزینوں کی ایک بڑی آبادی کی موجودگی، شمالی شام کے کچھ حصوں میں ترک فوج کی تعیناتی اور کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کے کردار جیسے مسائل کی وجہ سے انقرہ کے لیے مزید چیلینجز پیدا ہوں گے۔

مذکورہ امریکی تھنک ٹینک نے مزید لکھا کہ شام کے بحران میں امریکہ کا کردار مرکزی ہے خاص طور سے جب صیہونی رجیم ایک بفرزون قائم کرنے کے بہانے شامی علاقوں پر قبضہ کر رہی ہے۔

 التونسیک مشورہ دیتے ہیں کہ شام میں موجودہ چیلنجز اور حالات کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے ترکی کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کی غیر معقول توقعات کے بجائے زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرے جس کے اثرات سب سے زیادہ ترکی پر پڑیں گے اور شام کا بحران آخرکار ترکی کے گلے پڑ جائے گا۔”

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *