[]
حمید عادل
طویل عرصے کے بعد دو دن قبل اڈوانی کا نام خبروں میں آیا، ورنہ آج ہر سو ’’ اڈانی ‘‘ چھائے ہوئے ہیں… اڈوانی کا شمار بی جے پی کو قائم کرنے والوں میں ہوتاہے لیکن آج خود بی جے پی اڈوانی کا نام تک لینا نہیں چاہتی لیکن حال ہی میں کانگریس کے جئے رام رمیش نے ان کا نام ایک خط شیئر کرتے ہوئے اُس وقت لیا جس میں اڈوانی نے مطالبہ کیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر اراکین کا تقرر پانچ رکنی پینل کے ذر یعے کیا جانا چاہیے، جس میں وزیر اعظم، چیف جسٹس آف انڈیا، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کے رہنما اور وزیر قانون شامل ہوں۔اڈوانی نے 2 جون، 2012 کے خط میں لکھا تھا ’’موجودہ نظام جس کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر صدر کے ذریعہ صرف وزیر اعظم کے مشورے پر کیا جاتا ہے، لوگوں میں اعتماد پیدا نہیں کرتا‘‘۔ جے رام رمیش نے کہا کہ ’’نریندر مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کی طرف سے لایا گیا بل ’’نہ صرف اڈوانی کی تجویز کے خلاف ہے بلکہ 2 مارچ 2023 سے 5 ججوں کی آئینی بنچ کے فیصلے کو بھی پلٹ دیتا ہے۔حکومت کے اس اقدام سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ مسٹر مودی الیکشن کمیشن پر کنٹرول کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
بہت دنوں بعد اپنا نام خبروں میں دیکھ کر یا پڑھ کر یقینا اڈوانی کوبے انتہا خوشی ہوئی ہوگی…ورنہ تو آج ہر سو اڈانی کے چرچے ہیں…اور جب جب اڈانی کا نام آتا ہے مودی کا نام ساتھ ہوتا ہے، سنا ہے کہ دونوں حضرات ’’ہم بنے تم بنے ایک دوجے کے لیے‘‘ کا سحر انگیز نغمہ گنگناتے ہوئے دیکھے گئے …ایسے میں بیچارے اڈوانی ’’ مودی۔اڈانی‘‘ دوستی پر یہی نغمہ گنگناسکتے ہیں ’’ غیروں پہ کرم، اپنوں پہ ستم، اے جان وفا یہ ظلم نہ کر، رہنے دے ابھی تھوڑا سا بھرم،اے جان وفا یہ ظلم نہ کر…‘‘
اڈوانی وہی ہیں جنہوں نے مودی کا ہر قدم پر ساتھ دیا…پھر وقت بدلا ، حالات بدلے تو مودی نے اڈوانی کو سیاسی منظر سے ایسے غائب کردیا کہ’’ اڈوانی ‘‘کب ’’ اڈانی ‘‘ بن گئے خود اڈوانی کو بھی پتا نہ چل سکا …ذرا سوچیے اس وقت انہوں نے کیسا محسوس کیا ہوگا جب گجرات کی گاندھی نگر نشست سے اڈوانی کی جگہ امت شاہ کو امیدوار بناکرانہیں ’’ایک تھے اڈوانی‘ ‘ بنا دیا گیا …یہ وہی نشست ہے جہاں سے اڈوانی1998 سے مسلسل جیتتے رہے تھے ۔انہوں نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے سیاسی کیرئیر کا ایسا درد ناک انجام ہوگا…وہ اس حد تک تک جاپہنچے کہ مودی کے روبرو ہاتھ جوڑے کھڑے رہنے پر مجبور ہوگئے یا مجبور کردیے گئے …کبھی مرد آہن کہلائے جانے والے اڈوانی مودی کے ہاتھوں کا کھلونا بننے تک تیار تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنا سیاسی کیرئیر بچا نہ سکے ۔ وہ یہ سوچ سوچ کرکس قدر اذیت میں مبتلا ہوئے ہوں گے کہ برے وقتوں میںجسے بچایا تھا،اسی نے ان کے سیاسی کیرئیر کا خاتمہ کردیا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے ’’سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا‘‘چنانچہ مودی کے دوست اڈوانی نہیں اڈانی بن گئے ہیں…
راہول گاندھی نے دو برس قبل ’’یوم دوستی‘‘ کے موقع پر سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی اور لکھا تھا ’’ ہم دو ہمارے دو ‘‘ کو یوم دوستی مبارک ہو۔اس ویڈیو میں مشہور فلم ’’فرینڈز ‘‘کے گانے کو بیک گراونڈ میوزک کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی راہول گاندھی ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ مودی حکومت پر کئی بار حملہ کر چکے تھے، راہول مرکزی حکومت پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیںکہ یہ حکومت صرف ملک کے چار لوگوں کے لیے ہے۔چار لوگ یعنی مودی، امت شاہ، امبانی اور اڈانی …کبھی مکیش امبانی ہندوستان کے سب سے امیر شخص تھے لیکن اڈانی نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ویسے یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ اڈانی کے نام کو ہندوستان کے بچے بچے تک پہنچانے میں راہول گاندھی نے بھی کافی اہم رول ادا کیا ہے۔ کم از کم 2014 کے بعد سے تو وہ مسلسل یہ الزام عاید کرتے آرہے ہیں کہ وزیر اعظم مودی ملک کی دولت اڈانی اور امبانی کے حوالے کرتے جا رہے ہیں۔
ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ’’ نیند ہماری ، خواب تمہارے‘‘ کے تحت اڈوانی جی کو خواب میں بلایا جائے ، اڈوانی خوشی خوشی ہمارے خواب میں آنے کے لیے تیار ہوگئے …انہیں خوشی اس بات کی تھی کہ کسی نے انہیں یاد تو کیا، ورنہ بی جے پی انہیں کچھ اس طرح فراموش کرچکی ہے کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں…جیسے ہی اڈوانی جی ہمارے خواب میں آئے ،ہم نے ’’ کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ کے امتیابھ بچن کی طرح لہک کر کہا ’’ نیند ہماری خواب تمہارے‘‘ میں آپ کا سواگت ہے ، تشریف رکھیں… ‘‘جیسے ہی اڈوانی کرسی پر براجمان ہوئے، ہم نے پہلا سوال دے مارا ’’ہم آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ اڈوانی کے لیے یہ کس قدر شرمناک بات رہی کہ وہ ایک وقت کے اپنے شاگرد نریندر مودی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے رہے… اور مودی آپ کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے…اس سوال کو سنتے ہی اڈوانی پتھر اگئے …ہم ڈر گئے کہ کہیں کچھ ایسی ویسی بات نہ ہوگئی ہو… ہم نے کپکپاتے ہاتھوں سے انہیں جھنجھوڑاتو ان کے حواس بحال ہوئے، ہم نے کہا ’’ کہیں آپ سے ہم نے ایسا سوال تو نہیں کردیا جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا؟
’’ عادل !میں ’’کوما‘‘ طاری کرنے والے تمہارے سوالات کے لیے خود کو تیار کرکے تو آیا تھا لیکن مجھے اس بات کی قطعی امید نہ تھی کہ ابتداہی میں تم مجھ پر سکتہ طاری کردو گے؟‘‘ اڈوانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنا نیم گنجا سر کھجانے لگے۔
’’ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں اڈوانی جی!‘‘
’’ کوئی دوسرا سوال کرو عادل‘‘ اڈوانی بیزارگی سے منمنائے۔
’’آپ کی سیاسی کشتی ہمیشہ ہچکولے کھاتی رہی، حالانکہ سیاسی پاپڑ تو آپ نے خوب بیلے لیکن کوئی دوسرا اپنی دکان سجا بیٹھا… ہمارے کہنے کا مطلب یہ کہ رتھ یاترا آپ اس امید کے تحت لے کر چلے تھے کہ آپ ہندوستان کی سیاست پر چھا جائیں گے لیکن جب وزیراعظم بننے کی بات آئی تو اٹل بہاری واجپائی آپ پر بازی مار گئے ، وہ آپ ہی تھے جنہوں نے نریندر مودی کے سیاسی کیریئر کی بے وقت موت کو ٹال دیا تھا،لیکن جب مودی کو اقتدار ملا تو انہوں نے آپ کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر کردیا… آپ پاکستان جا کر محمد علی جناح کو سیکولر بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کوپارٹی صدر کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے… آپ 2002ء سے 2004ء نائب وزیراعظم بھی رہے ، لیکن شاید ہی کسی کو یہ یاد ہو کہ آپ ہندوستان کے نائب وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں…اتنے سارے صدمات اور غلط فیصلوں کو آپ نے آخر کس طرح ہضم کرلیا؟ہاج مولا سے تو یہ سارا کام ہونے والا نہیں ہے۔
اڈوانی ہماری جانب کھاجانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے کہنے لگے ’’ میاں عادل! ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تم سوالات کی بہت بڑی نمک دانی لے کر بیٹھے ہو، جسے مسلسل میر ے زخموں پر چھڑ ک رہے ہو…‘‘
ہم بے ساختہ ہنس پڑے،’’ ایسا بالکل نہیں ہے ،آپ ہی کہیے ، ہم آخر آپ سے ایسا کونسا سوال کریں کہ جسے سن کر آپ کو خوشی محسوس ہو؟‘‘
ہمارے سوال پر اڈوانی خود سوالیہ نشان بن گئے ، ہونقوں کی طرح ہماری جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگے ’’ کیا ایسا کوئی سوال نہیں ہے، جسے سن کر یا جس کا جواب دیتے ہوئے مجھے خوشی ہو؟‘‘
’’ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ …ایک آسان سا سوال ،یہ بتائیے آپ کا پسندیدہ نغمہ کونسا ہے ؟‘‘
’’ سلمیٰ آغا کی گائی ہوئی غزل ’’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے، ہم وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے ‘‘میری پسندیدہ ہے ، دن رات اسی کو سنتا اور گنگنایا کرتا ہوں۔‘‘
’’ خوب سلکشن ہے آپ کا‘‘ ہم نے ستائش کی اور پھر موضوع بدلتے ہوئے کہا ’’ایک طرف آپ 2002 کے گجرات فسادات کے باوجود مودی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے سے بچاتے ہیں تو دوسری طرف آپ مودی کی اُس وقت مخالفت کرتے ہیں، جب انہیں وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا جاتا ہے…یہ کیا چکر ہے ؟
’’ نریندر مودی، وزیراعلیٰ تک تو ٹھیک تھے لیکن وزیراعظم بننے کے اہل نہیں تھے۔‘‘
’’ پھر کون اہل تھا؟‘‘
’’ بہت سے لوگ تھے،لیکن مودی نہیں تھے۔‘‘
’’ پھر بھی کسی ایک کا نام تو آپ لیجیے۔‘‘
’’ میں نام لے کر سرخیوں میں آنا نہیں چاہتا،تم خود سمجھ دار ہو…‘‘
ہم اڈوانی کے اشارے کو تاڑ گئے اور ان کے چہرے پر اپنی نظریں گاڑھتے ہوئے کہا ’’ آپ سے بڑھ کر وزیراعظم کے عہدے کے لیے بھلااور کون اہل ہوسکتا تھا؟‘‘ہم نے شگوفہ چھوڑا۔
اڈوانی کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا،کہنے لگے ’’ عادل!آج میں تمہاری سیاسی بصیرت کاقائل ہوگیا ۔‘‘
’’ آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔‘‘ ہم نے ہی ہی کرتے ہوئے روایتی جملہ دہرا یا اور پھر قدرے توقف سے کہا ’’ ہم چاہیں گے کہ’’ اڈانی ۔مودی فرینڈ شپ ‘‘ سے متعلق اڈوانی کچھ کہیں!‘‘
’’میں کیا کہوں،ان دونوں کی دوستی کے بارے میں ، بس اتنا جان لو کہ جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے اسی وقت سے دونوں کی دوستی گاہے بگاہے موضوع گفتگو بنتی رہی ہے لیکن 2014 کے بعد سے جب اڈانی کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہونا شروع ہوا تو اس دوستی کا چرچا زیادہ ہونے لگا۔ یہ کہا جانے لگا کہ مودی حکومت کے فیصلوں اور پالیسیوں سے سب سے زیادہ اگر کسی کو فائدہ ہو رہا ہے تو اڈانی کو ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت نے بعض صنعتی و تجارتی قوانین میں اس طرح ترمیم کی کہ اس کا فائدہ اڈانی کو پہنچے۔‘‘
’’ اڈوانی ‘‘اور ’’اڈانی‘‘میں صرف’’ و‘‘ کا فرق ہے ،کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے آپ کے نام میں موجود ’’و‘‘ نے خود آپ پر ایسا ’’ وار ‘‘ کیا کہ آپ کے ساتھ ایسی ’’واردات‘‘پیش آئی کہ آپ کہیں کے نہ رہے… یہ بتائیے کہ مودی سے دوری کی وجہ کیا ہے ؟‘‘
’’عادل! ’’ و‘‘ کے ’’ وار‘‘ کا تو پتا نہیں البتہ میں یہ ضرورکہوں گا کہ اوپر والے کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے لیکن جب پڑتی ہے تو وہ ’’ اڈوانی ‘‘ بن جاتا ہے …مودی سے دوری کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں ’’ اڈانی ‘‘ نہیںہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ ہمارے خواب سے غائب ہوگئے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰