[]
مہر خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق امام جمعہ تہران نے آج نماز جمعہ کے خطبوں میں کہا کہ محرم الحرام کی 25 تاریخ امام حسین (ع) اور ان کے اہل بیت کے مصائب کا اوج ہے اور یہ امام سجاد علیہ السلام کا یوم شہادت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عاشورہ کا واقعہ دو حقیقتوں اور دو اہم سماجی، ثقافتی اور سیاسی واقعات کی وضاحت کرتا ہے۔
نماز جمعہ تہران کے خطیب نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی کی مختصر مدت ایک عظیم انقلاب رونما ہوا۔ جس سے بصیرت اور علم پر مبنی ایک فکری اور سیاسی مکتب تشکیل پایا۔ امام حسین (ع) کے قائم کردہ مکتب نے نمایاں مقام کے حامل برجستہ شخصیات کی تربیت کی۔
حجۃ الاسلام ابو ترابی فرد نے کربلا میں آمد کے موقع پر امام حسین علیہ السلام کے خطاب کا حوالہ دیا جس میں امام عالی مقام نے فرمایا کہ تم کیا کہہ رہے ہو کہ جو مجھ حسین کو تباہی کی دعوت دے رہے ہو؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا؟ میں فرزند رسول، ان لوگوں کے خلاف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسند پر بیٹھے ہیں اور منکر سے لڑنے اور حق کو قائم کرنے کے لئے شہادت کی منزل تک جانے کے لیے تیار ہوں۔
امام جمعہ تہران نے کہا کہ مکتب عاشورہ کی وجہ سے ہی آج شام امریکہ کے تسلط سے آزاد ہوا ہے۔ یہ وہ مکتب ہے جس نے یمن کو مزاحمت کے استعارے میں تبدیل کر دیا ہے۔
حجۃ الاسلام ابو ترابی فرد نے شہید سلیمانی کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہ اسرائیل 33 روزہ جنگ کے بعد ایک ناکام اور غیر فعال عنصر تھا، مزید کہا: ان فرزندان مکتب عاشورا نے اس غاصب رژیم کو ناکام ہونے پر مجبور کیا جس نے خود اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا سامان اپنے ہاتھوں فراہم کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی شناخت مکتب عاشورا سے ہے۔ یہ مکتب عاشورا ہے جو حزب اللہ اور جارح صیہونی حکومت کے درمیان 33 روزہ جنگ کو جنم دیتا ہے۔ یہ وہ مکتب ہے جس نے شہید سردار سلیمانی اور دفاع مقدس کے شہداء کی تربیت کی۔
انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے خلاف حزب اللہ کی جنگ میں کامیابی کو عالم اسلام نے عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ آج قومیں اُس کی تعظیم میں کر رہی ہیں۔ 4 ملین لبنانی مومنین مکتب عاشورا کی بدولت عرب دنیا میں عزت اور فخر کی علامت بن گئے۔
حجۃ الاسلام ابو ترابی فرد نے کہا کہ اگر عاشورہ نہ ہوتا تو اسلامی انقلاب نہ آتا اور دفاع مقدس ایران کی حاکمیت کی علامت نہ بنتا۔
نماز جمعہ خطیب نے کہا کہ سیاسی نظام کی بنیاد وحی کے اصولوں پر استوار قومی ارادہ پر ہے۔ یہ قوم مکتب قرآن و عترت کی پروردہ ہے۔ اگر نظام اور قوم کے درمیان یہ ربط نہ ہوتا تو یقیناً آج ہم اقتدار کے اس مقام پر نہ ہوتے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلامی نظام کے متن میں عوامی اقتدار کو مرکزیت حاصل ہے کہا کہ رہبر معظم انقلاب نے رواں سال اپریل میں انتخابات سے ایک سال قبل اسٹریٹیجک نظام کے اہم اصول پر زور دیا جن میں سے ایک اقتدار اور عوامی جمہوریت کے درمیان تعلق ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے اسلامی جمہوریہ کے حکام کے ساتھ مذکورہ ملاقات میں آئندہ انتخابات میں اسلامی جمہوریہ کی حکمت عملی کی وضاحت فرمائی۔
حجۃ الاسلام ابو ترابی فرد نے کہا کہ قیادت نے اس بات پر زور دیا کہ طاقت عوام کی مرضی سے آتی ہے۔ انتخابات سیاسی موجودگی اور عوام کے سماجی کردار کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ انتخابات قوم، حکومت اور ملک کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انتخابات ملک کی خودمختاری اور ملکی نظم و نسق کے اہم میدان میں عوام کی موجودگی کا مظہر ہیں، واضح کیا کہ رہبر معظم نے انتخابات کی بنیاد 4 اہم حکمت عملیوں پر استوار بتائی ہے جو عوامی شرکت، سلامتی، صحت اور مسابقت سے عبارت ہیں۔
حجۃ الاسلام ابو ترابی فرد نے واضح کیا کہ آج ہم جس وقار اور آزادی کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ بلاشبہ دینی اور اسلامی جمہوریت کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی انقلاب نے ایران، عراق، شام، لبنان، یمن، فلسطین کے مغربی کنارے کو امریکہ چنگل سے آزاد کرایا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ملک کے مسائل کو سمجھنے والے دانشمند، ذہین اور فہم و فراست والی شخصیات سے میں کہتا ہوں کہ حکومت کرنے کا فن در اصل عوام اور معاشرے کی خدمت کا ایک حقیقی اور پیچیدہ علم ہے۔
حجۃ الاسلام ابو ترابی فرد نے کہا کہ حکمرانی ایک پیچیدہ علم ہے جو اقتصادی، سیاسی اور سماجی ترقی کی اعلیٰ صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ معاشرے کو درپیش چیلنجز جتنے بڑھتے ہیں، حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی اتنی ہی کوششیں کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا: حکمرانی کا دائرہ عقلمند اور پرعزم مفکرین کے عمل کا دائرہ ہے، شفاف کردار اور صاف ہاتھوں میں یہ سماجی انصاف کی ترقی اور فروغ کا باعث بنے گا اور اس سے سماجی سرمائے اور امید میں اضافہ ہوگا۔
حجۃ الاسلام ابو ترابی فرد نے انتخابات میں بطور امیدوار رجسٹرڈ ہونے والوں کا شکریہ ادا کیا اور یاد دہانی کرائی کہ جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس مہنگائی کی جڑ ملک کے سالانہ بجٹ خسارے میں ہے وہ بجٹ کے ڈھانچے میں اصلاح کرکے مہنگائی کو روکنے کی سمت میں قدم اٹھائے۔ اور جو لوگ فکر مند ہیں کہ قومی وسائل کو بچایا جائے، کرنسی ریزرو فنڈ کو طاقتور فنڈ میں تبدیل کیا جائے تو وہ ملک کو اس مرحلے تک لے جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
امام جمعہ تہران کے خطیب نے آخر میں کہا کہ موجودہ اخراجات میں اضافے اور غیر قانونی ذرائع سے ان اخراجات کی مالی اعانت کے ساتھ مرکزی بینک سے قرض لینا ملک کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔