مسئلہ فلسطین سے متعلق اردن کے نقطہ نظر کا جائزہ

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اردن ایک ایسا ملک ہے جو مسئلہ فلسطین سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ یہ تنازعہ اردن کے لیے کئی سیکورٹی عوامل کی وجہ سے ہے۔ اس مضمون میں فلسطین کے تنازع پر اردن کے موقف اور طرزعمل کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے۔

مسئلہ فلسطین میں اردن کی جغرافیائی اہمیت

اردن نے 1946 میں آزادی حاصل کی لیکن رقبے کے لحاظ سے یہ سب سے بڑے عرب ممالک میں سے ایک ہے۔ اردن کا جغرافیہ بہت اہم ہے کیونکہ اس کی شام، عراق، سعودی عرب، فلسطین، اور مقبوضہ علاقوں سمیت اہم عرب ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ملتی ہیں۔
 اردن فلسطین کا قریب ترین عرب ملک ہے اور اس کی فلسطین کے ساتھ سب سے لمبی سرحد ہے۔ اس جغرافیائی محل وقوع اور 89 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کے رقبے کی وجہ سے، اردن خاص طور پر صیہونی رجیم اور امریکہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

فلسطین میں پیش آنے والی صورت حال میں اردن کا بھی نمایاں کردار ہے، لیکن یہ کردار زیادہ تر فلسطینیوں کو نقصان پہنچنے کی جہت سے ہے۔ 

1917 کے اعلان بالفور کے بعد سے مغربی طاقتوں نے ہمیشہ اردن کے جغرافیے کو صیہونی حکومت کے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

 اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں، وہ پناہ گزین جو خود کو اردن کا شہری نہیں سمجھتے اور ملک کی ڈیموگرافی کو متاثر کر چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ ایک اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے اردن کو فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن کہا جاتا ہے۔

آبادی کے علاوہ، اردن نے 1948 کی جنگ کے بعد 1950 میں مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کو لے لیا۔ اس ملک نے 1967 میں مغربی کنارے کو صیہونی حکومت سے کھو دیا تھا۔ 1980 کی دہائی میں اردن نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور متبادل وطن کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے فلسطین کے حق میں مغربی کنارے پر خودمختاری کا دعویٰ ترک کر دیا لیکن یہ منصوبہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی طرف سے ہمیشہ موجود رہا ہے۔ 

اردن کے شاہ عبداللہ دوم فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن کے خیال کے خلاف ہیں اور مسئلہ فلسطین کا واحد حل دو ریاستی حل کو سمجھتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران، عبداللہ دوم نے مختلف مواقع پر واضح طور پر کہا: “اردن اردن ہے اور فلسطین فلسطین ہے۔

فلسطین کے بحران کے بارے میں اردن کا نقطہ نظر: صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ اور مغربی طاقتوں کی کاسہ لیسی

فلسطین کا بحران اردن کی خارجہ پالیسی میں بہت اہم ہے اور گزشتہ ستر سالوں کے دوران اردن کی سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی صلاحیتوں کا ایک بڑا حصہ اس بحران پر مرکوز رہا ہے۔ 
1990 کی دہائی سے اردن نے صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتے اور امن کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اردن کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم واقعہ 1994 میں صیہونی حکومت کے ساتھ وادی عربہ امن معاہدے پر دستخط ہے۔ 

مصر کے بعد اردن دوسرا عرب ملک تھا جس نے صیہونی حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کا نام اس جگہے کے نام پر رکھ گیا ہے جہاں اس پر دستخط کیے گئے تھے۔

وادی عربہ اردن اور صیہونی حکومت کی سرحدوں پر واقع ہے۔ یہ معاہدہ اردن اور صیہونی حکومت کے درمیان اس وقت امریکہ کے صدر بل کلنٹن کی نگرانی میں طے پایا تھا۔ 

اس معاہدے کے بارے میں کہا گیا ہے: “فریقین کا ہدف سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 اور 338 کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ، مستقل اور جامع امن کا حصول ہے۔” 

اکتوبر 1999 میں، صیہونی حکومت کے ساتھ ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے اردن نے ملک میں حماس کے دفاتر بند کر دیے اور اس کے کئی سینئر رہنماؤں کو ملک بدر کر دیا۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ؛ مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے اردن کا نقطہ نظر بڑی حد تک مغربی ممالک کا صیہونی ایجنڈا ہے۔ اس ہم آہنگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردن اتنا مضبوط نہیں ہے کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی اختیار کر سکے۔ درحقیقت، اردن مغربی طاقتوں پر انحصار کے ذریعے اپنی غلامی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
 تاہم، فلسطین کے مسئلے پر مغربی طاقتوں کے ساتھ اتحاد نے اردن کی علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 
فلسطینیوں کو آباد کرنے کے لیے اردن کے جغرافیے کی لالچ اور صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطین کے جغرافیے پر مکمل قبضے کا بھی حالیہ برسوں میں جائزہ لیا گیا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی صدی کی ڈیل میں بھی اردن کا ذکر متبادل وطن کے طور پر کیا گیا تھا۔ غزہ کی موجودہ جنگ میں صیہونی حکومت نے غزہ کے لوگوں کو اردن میں آباد ہونے کا مشورہ دیا۔

تل ابیب کے اس خیال کا بنیادی ہدف غزہ کے لوگوں کی جبری نقل مکانی اور غزہ کی مکمل تباہی تھی، جس کی اردن کے عوام نے سخت مخالفت کی۔

اردن کے عوام کی وادی عربہ معاہدے کی وسیع پیمانے پر مخالفت

اردن کی حکومت صیہونی رجیم کے ساتھ سمجھوتے کو اپنے شاہی مفادات کے لئے ضروری سمجھتی ہے، لیکن اس کے برخلاف اردن کے عوام وادی عربہ معاہدے کے خلاف ہیں اور وہ کئی بار مظاہرے کرکے اپنی اس مخالفت کا اظہار کرچکے ہیں۔ 

بعض جائزوں کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ اردنی باشندے نہ صرف وادی عربہ معاہدے کے خلاف ہیں بلکہ عرب ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کے بھی خلاف ہیں۔
جب کہ بعض دیگر جائزوں میں 97% اردنی باشندے صیہونی حکومت کے ساتھ امن اور مفاہمت کے خلاف ہیں اور وادی عربہ معاہدے کی منسوخی پر زور دیتے ہیں۔

اردن کے عوام بھی فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن کے منصوبے کے خلاف ہیں اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیتے ہیں۔ غزہ کی موجودہ جنگ میں اردن کے عوام نے بارہا مظاہرے کیے جن میں غزہ کے عوام کی حمایت اور صیہونی حکومت سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

ان مظاہروں نے ثابت کیا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اردنی عوام اور حکومت کے نقطہ نظر میں واضح تضاد پایا جاتا ہے اور اردن کے عوام کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ اور مغربی طاقتوں کی غلامی صرف ملک پر مسلط شاہی رجیم اور تل ابیب کے مفادات کو پورا کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ اور یہ اردن کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے لئے ایک وبال جان ہے۔ تاہم اردنی حکومت چونکہ مطلق العنانیت رکھتی ہے اس لئے وہ عوامی دباو کو خاطر میں نہیں لارہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مظاہرے اور تضادات اردن کی حکومت کی قانونی حیثیت کی واضح کمزوری کو بھی ثابت کرتے ہیں۔

نتیجہ

اردن فلسطین اسرائیل تنازع میں اہم ممالک میں سے ایک ہے۔ 

تاہم اسے یہ اہمیت صیہونی رجیم اور مغربی ممالک کی کٹھ پتلی ریاست کے طور پر حاصل ہے۔

 اردن نے 1994 میں وادی عربہ امن معاہدہ کیا، لیکن اس سے سیکورٹی خطرات برطرف نہیں ہوسکے، کیونکہ اردن کو ہمیشہ فلسطینیوں کے لیے ایک متبادل وطن کے طور پر تصور کیا جاتا رہا ہے۔

غاصب صیہونی رجیم کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی حالیہ فوجی کارروائی میں فلسطین اور صیہونی حکومت کے تنازع میں اردن کا کردار ایک پرلے درجے کے آلہ کار کے طور پر رہا اور اس نے اپنی خودمختاری کے تحفظ کے بہانے ایران کے خلاف صیہونی رجیم کے ساتھ تعاون کیا۔ 

 جب کہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ اس ملک نے بھی دیگر بیشتر عرب ممالک کی طرح غزہ میں صیہونی رجیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *