[]
نظام آباد:25/ اپریل (اردو لیکس) جناب سید نجیب علی ایڈوکیٹ نے چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک مکتوب ارسال کرتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف نفرت انگیز بیانات اکثریتی طبقہ کو اُکسانے اور تشدد پر ابھارنے کا از خود نوٹ لیتے ہوئے کارروائی کرنے کی درخواست کی ہے مکتوب میں انہوں نے بتایا کہ راجستھان میں وزیر اعظم نے جس نفرت و حقارت اور توہین آمیز جملوں کا مسلمانوں کیخلاف استعمال کیا ہے وہ کسی بھی مہذب سماج کیلئے قابل قبول نہیں ہے
۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے اور وطن ہندوستان کے شہری کی حیثیت سے مکتوب مسلمانوں کے خلاف کی گئی تقریر پر سخت تشویش اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے باوقار عہدہ پر فائز رہتے ہوئے وزیر اعظم کی جانب سے مسلمانوں کو درانداز قرار دینا اور انہیں زائد بچے پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہندوؤں کی املاک دولت حاصل کرنے جیسے سنگین ریمارک قابل مواخذہ ہیں۔ جس کا مقصد ملک میں مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جذبات کو بھڑکارہے۔ وزیر اعظم کی اس تقریر کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے
اور عالمی سطح پر ان بیانات کا سخت نوٹ لیا گیا ہے تاہم تین یوم گذر جانے کے باوجود الیکشن کمیشن آف انڈیا جو ایک دستوری خودمختار آزاد ادارہ ہے جس کا مقصد منصفانہ صاف شفاف جمہوری غیر جانبدارانہ انداز سے انتخابات کا انعقاد عمل میں لانا ہے اس واقعہ پر معمول رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کن موقف اختیار کرنے اور غیر جانبدار انہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ الیکشن کمیشن وزیر اعظم کیخلاف کارروائی سے گریز کررہا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی دستوری ذمہ داری سے اعتراض کرتے ہوئے برسراقتدار جماعت کا حصہ بن گیا ہے
اس ملک کے ایک شہری کی طرح کروڑہا شہریوں کے جذبات ان تقاریر سے متاثر ہوئے ہیں اور نفرت پر مبنی یہ تقاریر پر ملک میں کشیدگی امن کو درہم برہم کرنے اور ہندوؤں کو مسلمانوں کیخلاف اکسانے تشدد و فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے اور اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کا حصہ ہیں۔ مندرجہ بالا صورتحال کے پیش نظر قانون دستور اور عدلیہ پر ایقان رکھنے والے شہری کی حیثیت سے جمہوریت کے ایک مضبوط ستون عدلیہ کو ملک کے وسیع تر مفاد میں ان تقاریر کا سخت نوٹ لینے الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ رول کے پیش نظڑ آئین پر حلف لینے والے وزیر اعظم کے اعلیٰ عہد ہ کے وقار کو متاثر کرنے والے نریندر مودی کیخلاف تعزیراتی قوانین کے تحت مقدمہ درج کئے جائیں اور ان کا قانونی مواخذہ کیا جائے
ہندوستان میں کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں ہے سپریم کورٹ کی جانب سے اس سلسلہ میں مداخلت ملک کیلئے ایک اہم اقدام ہوگااور آئین کی بالادستی وار جمہوریت کے اس ادارے کی آئینی وراثت کو داغدار ہونے سے بچایا جائے۔
اس مرحلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے آپ کا کلیدی کردار ہندوستان کی تاریخ کے سنہرے ابواب مین لکھا جائے گا۔ لیکن سب سے آخر میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سلسلہ میں آئین کی بالا دستی کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ سے مداخلت کی خواہش کی۔