امریکہ کو ایران کے جائز ردعمل کی تعریف کرنی چاہیے، ایرانی ترجمان وزارت خارجہ

[]

مہر نیوز رپورٹر کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان “ناصر کنعانی” نے ایک پریس کانفرنس میں، پاسداران انقلاب کی کامیاب اور دندان شکن جوابی کارروائی اور امریکی حکام کی طرف سفارتی اقدامات کی تجویز کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کا ردعمل کا اظہا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی فیصلہ کرنا قبل از وقت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک طاقتور اور امن پیدا کرنے والی طاقت ہے اور مقبوضہ علاقوں میں بعض فوجی اڈوں پر حملہ کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے تحت دفاعی فریم ورک کے اندر ایران کا جائز حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی مسلح افواج نے حالیہ واقعے میں صیہونی حکومت کی جارحیت کا جائز جواب دیتے ہوئے پوری طرح پیشہ وارانہ انداز میں کام کیا اور ہم نے کارروائی سے قبل سفارتی طریقوں سے ضروری انتباہ دیا تھا۔

انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایران خطے میں کشیدگی کو بڑھانے کا خواہاں نہیں ہے اور وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ملک کی سرخ لکیروں کے سلسلے میں جارح کو روکنے اور سزا دینے کے لیے اقدامات کرے گا۔ ایران کی کارروائی ضروری اور متناسب تھی اور صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

کنعانی نے کہا کہ ایران نے امریکہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور صیہونی حکومت کے جرائم کے تسلسل کو روکنے کی سمت میں قدم بڑھایا ہے۔ ایران کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایرانی ڈرون کو روکنے کے لیے اپنی فضائی حدود کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں اردن کے متضاد موقف کے بارے میں مزید کہا کہ میں ڈرون کو روکنے میں اردن کے کردار پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ ایک فوجی مسئلہ ہے اور فوجی حکام ہی اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔  تاہم ایران علاقائی استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور غاصب حکومت کے خلاف ایران کی کارروائی جارح کے لیے کڑی سزا ہونے کے علاوہ غاصب رجیم کو وحشیانہ جرائم سے با، رکھنے کی تنبیہ بھی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ جارح رجیم کو سزا دینے میں ایران کے جائز اقدام کو عالمی اور علاقائی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اردن کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں۔

انہوں نے سلامتی کونسل میں اسرائیلی حکومت کو ہتھیار فراہم کرنے پر پابندی کی منظوری کے بارے میں  کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اس رجیم کے خلاف دو قراردادیں آئیں، ایک قرارداد اسرائیلی حکومت کو ہتھیار بھیجنے پر پابندی کی تھی۔ اور دوسری جنگ بندی کی  تھی۔ صیہونی نسل پرست حکومت نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر توجہ نہیں دی اور امریکہ کی غیر مشروط حمایت کے تحت فلسطین میں اپنے جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران مذکورہ قرارداد کی منظوری کو مثبت اور تعمیری سمجھتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کو وسیع پیمانے پر ہتھیار بھیجنا فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ کے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مہر نیوز رپورٹر کے اس سوال کے جواب میں کہ تہران میں آذربائیجان کے سفارتخانے کے دوبارہ کھولے جانے کے بارے میں کہا کہ تہران میں آذربائیجان کی سفارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے اچھی تیاریاں کی گئی ہیں اور وزرائے خارجہ کی سطح پر اچھی بات چیت ہوئی ہے اور آذربائیجان کا سفارتی وفد کچھ عرصہ قبل تہران آیا تھا تاکہ سفارتخانے کو دوبارہ کھولنے کی تیاری کرسکیں۔ یہ اتفاق رائے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعاون جیسے دیگر شعبوں کے مطابق آگے بڑھنے کے لیے ہوا ہے۔ آذربائیجان میں ایرانی سفیر کے مشن کی تکمیل کے بعد قدرتی طور پر موجودہ عمل کے مطابق سفیر کا انتخاب انتظامی طریقہ کار کے مطابق کیا جائے گا۔

ناصر کنعانی نے ممکنہ پابندیوں کی صورت میں ایران کے ردعمل کے بارے میں مزید کہا کہ جوہری معاملے میں ایران کے خلاف مغربی حکومتوں کے اقدامات ذمہ دار نہیں تھے اور دوسرے لفظوں میں وہ ایران پر قرض دار ہیں۔ لیکن کسی بھی نئی پابندیوں کے سلسلے میں ان کے اقدامات نتیجہ خیز نہیں ہوں گے اور تعلقات میں مدد نہیں کریں گے۔ تاہم ایران “NPT” فریم ورک اور جوہری توانائی کے ساتھ تعمیری تعاون کی بنیاد پر اپنی جوہری سرگرمیاں جاری رکھے گا۔

سلامتی کونسل کے کل رات کے اجلاس اور ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے مغربی ممالک کے ارادے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی امن کو برقرار رکھنے کی بنیادی ذمہ داری سلامتی کونسل کی ہے۔ اس کونسل نے گزشتہ سات مہینوں کے دوران امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی غیر مشروط حمایت کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کی جانب سے ویٹو کے استعمال کی وجہ سے ایران اور دیگر آزاد ممالک کی درخواست پر غیر فعال کردار ادا کیا ہے۔

کنعانی نے بیان کیا کہ صیہونی حکومت کے جرائم اور دمشق میں ایران کے سفارتی مرکز پر حملے کی مذمت کے بارے کونسل کی عدم توجہی اس دعوے کا ایک اور ثبوت ہے کہ کونسل امریکہ اور بعض یورپی حکومتوں کے منفی اثر و رسوخ کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہی ہے۔

 سلامتی کونسل میں صیہونی رجیم کی اپیل اور اجلاس کے انعقاد نے اس رجیم اور اس کے غیر علاقائی حامیوں کے جرائم کو واضح کر دیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پیشین گوئی کی تھی کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے نقطہ نظر سے ایران کے اقدام کے جواز پر غور کرتے ہوئے، اس اجلاس میں صیہونی حکومت کے لیے عملی طور پر سیاسی کامیابی کا فقدان تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ممالک کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایران کے اقدامات جائز ہیں اور انہیں علاقائی سلامتی اور امن کے سلسلے میں ایران کے تحمل و ضبط کی پالیسی کو سراہنا چاہیے۔ ایران پر الزام لگانے کے بجائے انہیں اپنے آپ کو جوابدہ ٹھہرانا چاہئے کہ انہوں نے فلسطین میں سات ماہ سے جاری کھلی نسل کشی کو روکنے کے لئے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی؟؟۔

لہذا ان ممالک کے لیے عقلمندی یہ ہے کہ وہ پرامن اور تعمیری کردار ادا کرنے والے ممالک کے ساتھ کھڑے ہوں اور غاصب رجیم کی حمایت کرنے کے بجائے انہیں ایران کے جائز اقدام اور معقول اقدام کی تعریف کرنی چاہیے۔

کنعانی نے آبنائے ہرمز میں ایک مال بردار بحری جہاز کو قبضے میں لینے کے بارے میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے قومی مفادات اور علاقائی خودمختاری کے تحفظ کے فریم ورک کے اندر اس اسٹریٹجک آبنائے میں تمام سمندری ٹریفک کی نگرانی کر رہا ہے اور ساتھ ہی تمام ایگزٹ پوائنٹس خود کو روکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران نے بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر آبنائے ہرمز میں جہاز رانی کی آزادی کا پابند ہے اور  ہمیشہ اس فریم ورک کے اندر رہ کر کام کیا۔

انہوں نے عراقی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے بارے میں کہا کہ یہ عراقی حکومت اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے فریم ورک کے اندر ایک مسئلہ ہے۔ ایران کا مؤقف یہ ہے کہ گزشتہ دہائیوں کے ریکارڈ اور تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ خطے میں امریکی فوجی موجودگی نے سلامتی کے بجائے نا امنی پیدا کی ہے۔

انہوں نے ایران اور امریکہ کے درمیان پیغامات کے تبادلے کی تفصیلات کے بارے میں مزید کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان پیغامات کا تبادلہ دمشق میں ایران کے سفارتی ہیڈ کوارٹر کے خلاف صیہونی حکومت کی مہم جوئی سے متعلق تھا۔ توقع تھی کہ امریکی حکومت بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور ویانا کنونشن کا احترام کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرے گی۔ لیکن امریکہ نے اس کے بالکل برعکس نہ صرف اس اقدام کی مذمت سے گریز کیا بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدام کی مذمت میں بیان پاس کرنے سے بھی روک دیا۔

ناصر کنعانی نے مزید کہا کہ ایران نے اعلان کیا کہ صیہونی حکومت کی جارحیت کی ذمہ دار امریکی حکومت ہے۔ ہم اب بھی پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر امریکی حکومت کی ہری جھنڈی نہ ہوتی تو صیہونی حکومت کو شام میں ہمارے سفارت خانے کے خلاف کارروائی کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔

مغربی ممالک کے ردعمل اور ایرانی نمائندوں کی طلبی کے بارے میں کنعانی نے کہا کہ ایران کے اقدامات مکمل طور پر ذمہ دارانہ تھے۔ ایران صیہونی حکومت کی خلاف ورزیوں کی مذمت سے گریز کرنے کے لیے برطانیہ کے رویے کو ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ افسوس کی بات ہے کہ برطانوی حکومت جرائم سے آنکھیں چراتے ہوئے اپنے دفاع میں ایران کے جائز اقدام کو ناقابل قبول سمجھتی ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ملکی سلامتی کے حوالے سے ایران کے موقف کے بارے میں کہا کہ ایران نے سلامتی کی خلاف ورزی کرنے والے رویے کے سلسلے میں اپنا طرز عمل اور ردعمل ظاہر کیا ہے اور ایران کا موقف واضح ہے۔ کیونکہ رہبر معظم انقلاب، صدر، وزیر خارجہ اور دیگر اعلی حکام نے بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں ایران کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ ہم پوری طاقت کے ساتھ اپنی سلامتی اور مفادات کا دفاع کریں گے۔

کنعانی نے کہا کہ قدرتی طور پر خطے میں مزاحمتی تحریکوں کے خلاف غیر معقول اور جارحانہ اقدامات جارح ممالک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں گے۔ وہ اپنی قوموں کے مفادات کے دائرے میں رہ کر کام کریں گے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *