نہ جانے کونسا پل موت کی امانت ہو

[]

حمید عادل

کون کب اور کیسے ہم سے بچھڑ جائے؟کچھ کہا نہیں جاسکتا… البتہ عجب دستور ہے کہ انسان کی زندگی میں اتنی قدر نہیںہوتی جتنی مرنے کے بعد کی جاتی ہے …کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ایسا ہے تو ایک بار مر کر دیکھتے ہیں…جانتے ہیں ایسا ممکن نہیں،آدمی صرف ایک بار ہی مرتاہے اورجب مرتا ہے تو پھرمرہی جاتا ہے …زندگی اور موت کی ترتیب کو معروف شاعر برج نارائن چکسبت نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے :
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
جو دنیا میں آیا ہے ،اسے ایک دن دنیا سے جانا بھی ہے ، اپنوں کی موت پرہماری آنکھیںاشکبار ہوجاتی ہیں…رئیس فروغ نے اس کرب کو بڑے پیارے انداز میں ڈھالا ہے:
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
ایک طرف کسی کی موت پراس کے اپنے روتے بلکتے ہیں تو دوسری طرف وہ شخص جسے زندگی نے کبھی چین سے سونے نہ دیا ، سبھی سے اس قدر بے نیاز ہوکر سوتاہوانظر آتا ہے کہ اسے ہماری سسکیوں اور آہوں کی تک کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔بشیر بدر کہتے ہیں:
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا
فلم ’’ مقدر کا سکندر‘‘ کا معروف نغمہ ہے ’’روتے ہوئے آتے ہیں سب،ہنستا ہوا جو جائے گا، وہ مقدر کا سکندر جان من کہلائے گا‘‘لیکن موت عموماً دبے پاؤں آتی ہے اورآدمی کودنیا سے ہنستے ہوئے جانے کا قطعی موقع نہیں دیتی یا پھر بہت کم دیتی ہے ۔اب موت کوئی فوٹو گرافر تو ہے نہیں کہ ہر کس و ناکس سے کہے ’’ Smile Please‘‘ اور پھر روح کھینچ لے …موت تصویر نہیں لیتی، جیتے جاگتے آدمی کو تصویر بنا جاتی ہے …لیکن چمن بیگ کا خیال ہے کہ مذکورہ نغمے میں بہت بڑا فلسفہ چھپا ہے، شاعر دراصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ ہر دم ہنستے رہیں،جب آپ ہرحال میں ہنستے رہیں گے تو لازمی طور پر آپ ہنستے ہوئے چلے بھی جائیں گے …
چمن کی باتیں چمن جانیں…
البتہ جب جب ہم ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور بے ترتیب ٹریفک سے گزرتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ہم منزل کی چاہ میں کہیں اور پہنچ نہ جائیں اور دوست احباب یہ کہتے رہ جائیں:
بلا کی چمک اس کے چہرے پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
احمد مشتاق
شہری زندگی میں ٹریفک مسائل نے حادثات کے خطرات بڑھا دیے ہیں ،لیکن جگر مرادآبادی نے خود زندگی ہی کو حادثے سے تعبیر کر ڈالا:
زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
کہنے والوں نے توشادی کو بھی حادثہ قرار دیا ہے…ایک شخص سڑک پار کر رہا تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی اس کی طرف بڑھی۔ اچانک اس شخص کو آواز آئی ‘‘بچو‘‘… وہ شخص چونک کر ایک طرف ہو گیا لیکن اسے آواز دینے والا نظر نہ آیا،اس شخص نے گھبرا کر ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا:‘‘کون ہو بھائی؟‘‘
’’فرشتہ‘‘ جواب ملا۔
کچھ عرصے بعد وہ شخص ایک بوسیدہ عمارت کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ آواز آئی ’’بچو‘‘… وہ شخص جلدی سے ہٹ گیا ، دریں اثنا عمارت گر گئی۔
تیسری دفعہ جب فرشتے نے اس شخص کو بچایا تو اس نے غصے سے کہا:’’تم ہر حادثے سے مجھے بچاتے ہو لیکن اس وقت تم کہاں تھے جب میری شادی ہورہی تھی؟‘‘
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، کچھ کو زندگی سے پیار ہوتا ہے تو کچھ کو موت سے…جگر مرادآبادی کہتے ہیں:
موت کیا ایک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
فراق گورکھپوری فرماتے ہیں:
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکا
مشکوک حیدرآبادی کہتے ہیں ’’موت سے ڈرنہیں لگتا صاحب! زندگی سے لگتا ہے ۔‘‘ جبکہ چمن بیگ موت سے اس قدر گھبراتے ہیں کہ نعرہ مارتے ہیں: اے موت تجھے کیوں موت نہ آئی ؟
ایک بوڑھے شخص کا دنیا میں کوئی سہارا نہ تھا، بڑھاپے میں وہ اس طرح گزارا کرتا کہ جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور سارا دن لکڑیاں کاٹنے اور چننے میں گزر جاتا۔شام ہونے سے قبل لکڑیاں فروخت کرکے اپنی دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتا۔ایک دن اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی، اتنی کمزوری محسوس کر رہاتھا کہ اس سے چلا نہ جاتا تھالیکن مرتا کیا نہ کرتا لکڑیاں جنگل سے نہ لاتا تو روٹی کہاں سے کھاتا؟لکڑہارا گرتا پڑتا جنگل پہنچا ، لکڑیوں کاٹیں اور گھٹا جو اُٹھایا تو پسینے نکل گئے اور ابھی گھٹا سینے تک ہی پہنچا تھا کہ ہاتھ کانپنے لگے اور گھٹا چھوٹ کے زمین پر گر گیا…آسمان کی طرف نظر اُٹھا کے کہنے لگا:’’خدایا بوڑھاپے میں، میں یہ کس طرح مشقت کروں؟میں یہ گھٹا کس طرح اُٹھاوں؟اس جینے سے تو موت بہتر ہے، اے موت ! اُٹھا لے…‘‘یہ سنتے ہی موت ایک طرف سے نمودار ہوئی اوربولی:تم نے مجھے کیوں پکارا؟
موت کو دیکھتے ہی بوڑھے شخص پر دہشت طاری ہوگئی ، وہ تھر تھر کانپنے لگااور ہکلاتے ہوئے کہا:’’میں نے تمہیں اس لیے پکاراہے کہ اس جنگل میں دور دور تک کوئی نظر نہیں آرہا ہے،ذرا یہ گھٹا اٹھا کے میرے سر پر رکھ دو!‘‘
موت نے اچھے اچھوں کو دیکھ لیا لیکن موت کو کہاں ہرکوئی دیکھ پاتا ہے …لیکن کچھ سائنسد اں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے موت کو دیکھا ہے … امریکی سائنسداں مسٹر ہالینڈ نے16 انچ عدسہ والا کیمرہ بنایا اور کیمرے کی آنکھ سے مرنے والے پر نظر رکھی۔وہ کہتا ہے کہ ’’ مردے کے عین اوپر اس کی روح جس کی شکل اس جیسی ہی تھی، تھکی تھکی نگاہوں سے مجھے گھور رہی تھی کہ میں بے ہوش ہو گیا۔‘‘خدا جانے اس انکشاف میں کتنی صداقت ہے ، یورپ اور امریکی سائنسدانوں نے تو یہاں تک لکھ مارا ہے کہ جو چیز جسم سے نکلتی ہے ،اس کا وزن غالباً ایک یا آدھا اونس ہوتا ہے، یعنی انہوں نے روح کا وزن تک پتا لگا لیا ہے۔
جب بات روح کی چل پڑی ہے تو ہمیں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی وہ ڈراونی فلمیں یاد آرہی ہیں ، جن میں دکھایا جاتاہے کہ مقتول کی آتماکو اسی وقت شانتی ملتی ہے جب وہ اپنے قاتل کو جان سے مار ڈالے یا پھر اسے ذلیل و رسوا کرا دے۔ بالی ووڈ کے فلمسازوں نے آتما کے نام پر لوگوں کو خوب بیوقوف بنایا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس موضوع پر کچھ سلجھی ہوئی اور عمدہ کہانیوں پر مبنی فلمیں بھی بنی ہیں لیکن بیشتر فلمسازوں نے آتما کو روپئے کمانے کا آسان ساذریعہ بنا ڈالا ۔رامسے برادرس کے تعلق سے یہ بات بڑی مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے خود ساختہ شیطان کا ماسک تک بدلنا گوارا نہیں کیا اور اپنی ہر فلم میں کسی شریف آدمی کو وہ ماسک پہناکر اپنا کام نکالتے رہے ۔بپاشا باسو نے توروح والی فلموں میں اس قدرکام کیا کہ انہیں ’’ خوف کی رانی‘‘ کے خطاب سے نوازدیا گیا … کہا یہ بھی جاتا ہے کہ جان ابراہم ’’ خوف کی رانی‘‘ بپاشاباسوسے خوفزدہ ہوکر ہی دورہوگئے … یعنی ان کے عشق کی موت ہوگئی ہو۔
یوں تو مو ت کا کوئی وقت مقرر نہیں لیکن جیسے جیسے آدمی بوڑھا ہوتا جاتا ہے، اسے اپنی موت قریب سے قریب تر نظر آنے لگتی ہے …اب اس کو کیا کیجیے کہ آج کی گمراہ نسل اپنے بوڑھے ماں باپ کو بوجھ سمجھنے لگی ہے …ہائے کیا دور آگیا ہے کہ وہ ماں باپ جواپنا سکھ چین قربان کرکے بچوں کو ہر سکھ مہیا کرتے ہیں ، وہی ماں باپ عمر کے آخری حصے میںدعا کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں چلتے پھرتے اٹھا لے،تاکہ وہ اپنے بچوں کی لاپرواہیوں کا شکار نہ ہوں…آج کی ناخلف اولاد اکبر الہٰ آبادی کے اس شعر کی گویا تصور بنی ہوئی ہیں :
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
بوڑھوں کو بھی جو موت نہ آئے تو کیا کریں
فی زمانہ ہمارا مرجانا ہی کافی نہیں ہوتا … پسماندگان کو ہماری موت کا صداقت نامہ بھی چا ہیے جو زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے ہمارے کام آنے کے بعد ان کے کسی نہ کسی کام آتا ہے … یہ الگ بات ہے کہ کچھ ایسے شاطر حضرات (جنہیں ہم دکنی اصطلاح میں ’’ ڈیڑھ ہوشیار ‘‘ کہہ سکتے ہیں) بھی ہیں جو مرے بغیرہی موت کا صداقت نامہ حاصل کرکے انشورنس کمپنی سے رقم اینٹھنا چاہتے ہیں۔ پچھلے دنوںایسے تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کی کاغذی موت ہوچکی تھی یعنی جن کے پاس ان کی اپنی موت کا صداقت نامہ موجود تھا اور وہ زندہ تھے۔دوسری طرف کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے کسی رشتے دارکی موت کا صداقت نامہ حاصل کر کے اس کی جائیداد اور دولت پر قبضہ جمائے بیٹھ جاتے ہیں اور سادہ لوح رشتے دار اپنے زندہ ہونے کا ثبوت حاصل کرنے کے لیے مرے جاتے ہیں…
شوپنہار (Schopenhauer) وہ پہلا فلسفی ہے جس نے موت کے مسئلے پر تفصیلی بحث کی اور موت کو ایسا منبع ومصدر قرار دیا،جس سے فلسفیانہ تفکر کے سوتے پھوٹتے ہیں۔اس کا خیال ہے کہ لوگ تسلیم کریں نہ کریں،فلسفیانہ سوچ کی قوت متحرکہ موت ہی ہے… برصغیر ہندو پاک کے معروف مزاحیہ شاعرغوث خواہ مخواہ کا خیال سب سے اچھوتا ہے، کہتے ہیں :
بہتر ہے موت خواہ مخواہؔ ، دیتی تو ہے کفن
گر زندگی کا بس چلے ، کپڑے اُتار لے
موت برحق ہے،اس کے باوجود ہم ایسے جیتے ہیں جیسے ہمیں مرنا نہیں ہے ۔ایک دن ہمیں اس دنیا سے سدھار ناہے لیکن پھر بھی ہم سدھرتے نہیں جبکہ ہمیں درس ہی یہ ملا ہے کہ ہم موت کے تصور کے ساتھ زندہ رہیں…
نہ جانے کونسا پل موت کی امانت ہو
ہر اک پل کی خوشی کو گلے لگا کے جیو
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *