[]
پانچ سال قبل جب میں نے سچائی کی تلاش کا سفر شروع کیا تو میری عمر 52سال تھی میں عیسائی عقیدے کی پیرو کار تھی مگر ہوش سنبھالنے سے لے کر 50سال کی عمر مجھے سچ کی تلاش میں گذارنے پڑے۔ میری پیدائیش عیسائی گھرانے میں ہوئی تھی، چنانچہ پرورش بھی مسیحی عقیدے کے مطا بق ہی ہوئی۔ مسیحیت پر ایمان کے باوجود روحانی تسکین حاصل نہ ہوسکی تھی۔
میں نے کبھی دل سے عیسائیت کی پیروی نہیں کی، گو کہ چرچ کوجاتی ‘ عبادتوں اور دعا ئیہ اجتما عات میں شرکت کرتی مگر بے دلی سے ، 9سال کی عمر سے میں نے بائبل کی تلاوت کی تھی، یسوع کو خدا ماننے کے لئے کبھی ضمیر رضا مند نہیں ہوا۔ عجیب بے سکونی اور ذہنی انتشار کا شکار رہتی تھی ، اس بے چینی اور بے کلی کی کیفیت سے تنگ آکر میں نے سچائی کی تلاش شروع کر دی۔اورحقیقی خالق کی تلاش میں 50سال کا عرصہ لگا دیا۔اس پچاس سالہ عرصے میں، میں نے اپنے عقیدے کے مطا بق مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا ۔ کیتھولک پادریوں سے مبا حثے بھی ہوئے لیکن وہ روحانی سکون مجھے نہ مل سکا جس کی مجھے تلاش تھی۔
کیتھولک پادریوں کی کوششیں بھی رائیگاں گئیں انہوں نے مجھے کیتھولک فرقے میں شامل کرنے کی بہت کوششیں کیں لیکن بے سود ثابت ہوئیں۔ یہودیت کا بھی تفصیلی مطا لعہ کیا لیکن اس میں بھی خامیاں نظر آئیں ، دل مطمئن نہ ہوسکا۔ میرے ایک یہودی دوست نے مجھے بہت سمجھا یا لیکن وہ بھی مجھے مطمئن کر نے میں ناکام رہا۔ بے چین ومضطرب زندگی گذر تی رہی۔ ایک دن جب اپنے کام سے واپس آئی تو بے حد تھکان کے با وجود نیند نہ آئی عجیب کیفیت میں گرفتار تھی دل بے چین تھا ،آخر کار تنگ آکر ان دیکھے خدا کے سامنے سر بسجود ہو گئی، ضمیر نے کہا یسوع خدا نہیںہو سکتا ، مگر اللہ کا پیامبر ضروسرہو سکتا ہے۔دل نے کہا آدم اورحوّا اپنے گناہ کے خود ذمہ دار ہیں ’ ہم نہیں۔۔۔ہم اپنے گناہوں کے خود ذمہ دارہو تے ہیں کسی اور کے گناہ کے ہم ذمہ دار کیوں کر ہونگے۔۔۔؟
جو شخص ہم میںسے ہی پیدا ہوا ہو، انسانوںکی طرح زندگی گذارتاہو ایذا رسانی کرنے والوں سے رہائی پانے کی قدرت نہ رکھتا ہو بھلا وہ کیسے خالق کائنات ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ سوالات تھے جو مجھے بے چین کر دیتے تھے ، ان ہی سوالات کے جوابات کی تلاش میں تقریباً عمر کا ایک بڑا حصہ گذر گیا، کئی مذاہب کا مطالعہ کیاتھا لیکن تسلی حاصل نہ ہوسکی‘ ہمارے مذہبی رہنمائوں نے کہا کہ یہ ایک معمہ ہے اس بات کو یسوع پر چھوڑ دینا چاہئے ۔۔۔خدا اپنے بندوں سے آزما ئشیں لیتا ہے ، اس طرح کے معمے خدا جان بوجھ کر چھوڑ دیتا انہیں حل کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، اگر جہنم سے بچنا ہو تو بلا چوں وچرا بائبل کی تعلیمات کو آنکھیں بند کر کے مان لو ورنہ عذاب کی مستحق ہوگی ۔ انکی باتوں سے خوف بھی آ گیا، لیکن نفس نے ملامت کی ‘ جو مذہب معمولی سوالوں کے جواب نہ دے سکتا ہو بھلا وہ کس طرح ایک سچا مذہب ہوسکتا ہے‘ ضمیر نے کہا آسمانی کتاب تو ایسی ہونی چا ہئے کہ اس کی تعلیمات پر کسی انسان کو کوئی شک وشبہ نہ پیدا ہو سکے ۔
تورات کا بھی مطا لعہ کیا لیکن دل مطمئن نہ ہوسکا،اللہ تبارک وتعالٰی کو کچھ اور ہی منظور تھا سو اس نے میری رہنما ئی فرمائی۔ ہوا یوں کہ میں او رمیرے شوہر امریکن پولیس میں خدمات انجام دیتے تھے میرے شوہر مجھ سے ایک سال قبل خدمت سے سبکدوش ہوگئے تھے ، میری خدمات جاری تھیں۔دنیا کے تمام پولیس اہلکار آپس میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ہم سب آپس میں ’’ لاء انفورسمنٹ بھائی بہن کہلاتے ہیں‘‘ایک دوسرے کی مدد کرنا ہم پر لازم ہوتا ہے۔چناچہ اسی رشتہ کے تحت سعودی عرب کے کچھ مسلم نو جوان پولیس اہلکاروں کو انگریزی سکھا نے کے لئے ہماری مدد درکار تھی، اورانہیں امریکہ میں موقع فراہم کیا گیا تھا ،اس خدمت کے لئے مجھے بھی چن لیا گیا۔ میری زندگی کایہ پہلا موقع تھا کہ میں نے مسلمانوں کو قریب سے دیکھا ، تعجب کی بات یہ تھی کہ محکمئہ پولیس میں 24 سال رہنے کے باوجود میںنے کبھی مسلمانوں سے دوستی نہیں کی تھی،گوکہ مسلمانوں سے شب وروز کا سا بقہ رہتا تھا’ لیکن کبھی ان سے کھل کر بات نہیں ہوتی تھی، اور نہ ہی میں نے کبھی اسلام میں دلچسپی لی تھی۔ خدا کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ مجھے راہ ہدایت نصیب فرمانے کے لئے اس نے کہاں سے اور کس طرح انتظام فرمایا ، اس ذات پاک کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔
اب چلتے ہیںاصل موضوع کی طرف۔ میرا لڑکا اپنی بیٹی یعنی میری پوتی کی اکیلا ہی پرورش کرتا ہے ، ہم نے اپنے گھر کے قریب ہی اس کو بھی گھر دلا دیا تا کہ وقتاً فوقتاً اسکی مدد کر سکیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ان سعودی نوجوانوں کو رہنے کی جگہ فراہم کرنا جو انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے آئے ہوئے تھے میںاورمیرے شوہر نے با ہمی مشورے سے یہ طئے کیا کہ میرے بیٹے کے گھرمیں ’’پیئنگ گیسٹ‘‘ کی طرح جگہ فراہم کی جائے،تاکہ اسکی بھی مالی مدد ہوجائے اور ہمیں بھی مسلم تہذیب و تمدن کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل جائے ۔چنانچہ ایرو زونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے حکام نے ایک نوجوان سے میری ملاقات کروائی جس کا نام تھا عبدل۔
عبدل انگریزی سے بالکل نا بلد تھااس سے گفتگو کا مسئلہ بڑا سنگین تھا وہ ہماری زبان بالکل نہیں سمجھتا تھا۔ہم نے اشاروں سے بات چیت کی اور اسکا کمرہ اسے دکھا دیا وہ بہت خوش ہوگیا۔اس نے اشاروں سے ہمارا شکریہ ادا کیا، مجھے بھی اسکی زبان بالکل سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن پہلی ہی نظر میں اسکے اخلاق وکردارمجھے بھا گئے، لگتا تھا وہ کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ خوش خلق اورہنس مکھ تھا۔ قلیل مدت میں ہی وہ ہم سب میں گھل مل گیا۔کچھ دنوں بعد ایک اورلڑکا ہمارے ہاں آیا جسکا نام تھا ’فہد‘ یہ لڑکا بہت شرمیلا اور محتاط رہنے والے قسم کے لوگوں میں سے تھا اس کو انگریزی تھوڑی بہت آتی تھی اس لئے ہم سے گفتگو کرسکتا تھا۔ انکو انگریزی سکھا نے میں لطف آتا تھا۔وہ ذہین بھی تھے اوربااخلاق بھی، انکے علاوہ 16لڑکے اوربھی تھے جو سعودی عرب سے آئے تھے ہم سب آپس میں گفتگو کرتے اوردنیا بھر کی پولیس کارکردگی پرتبصرہ بھی کرتے تھے۔
میں اور میرے شوہر انہیں انگریزی کے قواعد و ضوابط سمجھا تے، اسی طرح دیکھتے دیکھتے ایک سال کا عرصہ گذر گیا۔ ا س ایک سالہ دور میں مجھے مسلمانو ںکے رہن سہن طورطریقوں، دینی سرگر میوں ، عبادات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میںانکے اخلاق وکردار کا بغور مشا ہدہ کرتی تھی، وہ لوگ نماز ادا کرتے تھے اور کھانے پینے میں بعض چیزوں کا پرہیز کر تے تھے، جب میں نے ان سے اسکی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتا یا کہ دین اسلام نے ہمیں کچھ چیزوں سے منع کیا ہے سوہم ان چیزوں کوہاتھ نہیں لگا تے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا ‘ وہ اپنے نفس کو مار کرخدا کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔جبکہ ہم میں وہ بات نہیںتھی، ہم عیسائی نفساً کمزور وا قع ہوئے ہیں۔
لیکن مسلمانوں کا عزم اوردین پرکاربند رہنے کی قوت دیکھ کر میں حیران وششدر رہ گئی۔قرآن کی تلاو ت کرناانکا معمول تھا ، چونکہ میں عربی زبان سے ناواقف تھی اس لئے قران کی تلاوت کا مطلب نہیں سمجھ پاتی تھی ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ اس کتاب میںکیا لکھا ہے۔تو انہوں نے مجھے قر آنی احکامات کے بارے میں بتایا، اسلام کی خوبیاں بتانی شروع کیں تومیری دلچسپی بڑھتی گئی ،میں نے ان سے قرآن کا انگریزی نسخہ مانگا۔ اگلے دن انہوں نے مجھے لا کر دیا مجھے بے انتہا خوشی بھی ہوئی اور میراتجسس بھی بڑھ گیا‘ میں نے نیک نیتی ،خلوص دل ، پوری سچائی اور غیر جانبداری سے قرآن کا مطالعہ کیا اور میں اس بات کا بر ملا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکی کہ اپنی غیر جانبدارانہ تحقیق میں، میں نے پایا کہ اسلام ایک دین فطرت ہے او راسکی تعلیمات کو انسانی فطرت بہ آسانی قبول کر تے ہوئے اسلام کے پیش کردہ خدا کوحقیقی خالق کائنات تسلیم کرے بغیر نہ رہ سکتی۔
قرآن کی بدولت مجھے روحانی سکون نصیب ہوا وہی سکون جس کی مجھے برسوں سے تلاش تھی ایسا لگتا تھا کہ میری روح سیراب ہوچکی ہو۔ ان لڑکوں کا وقت ختم ہو چکا تھا انہیں واپس وطن لوٹنا تھا میں نے انکے اعزاز میں عشائیہ تر تیب دیا، وہ سب نوجوان شام کے کھانے پر ہمارے گھر آئے اور مجھے دیکھ کرحیران ہو گئے۔ اس لئے کہ میرا حلیہ بدل چکا تھا، میںنے عبا یا زیب تن کیا تھا اور حجاب سے اپنے سرکو ڈھا نکا تھا۔ میرے شوہر بھی حیران ہو گئے۔ میں ان کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی اورمیرا مطالبہ تھا کہ مجھے کلمہ پڑھا یا جائے۔عبدل اورفہد حیران وپریشان ہکا بکا مجھے دیکھتے رہ گئے، انہیں کیا پتہ تھا کہ میری زندگی بدل چکی ہے۔ مجھے راہ ہدایت مل چکی تھی۔
میرے شوہر نے اس تبدیلی پر زیادہ ردعمل کا اظہارنہیں کیا، ان کاکہنا تھا کہ یہ وقتی جنون ہے کچھ دنوں بعد زائل جائے گا ، مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ مجھے روحانی تسکین حاصل ہو چکی تھی جس کے لئے میں بچپن سے بے چین وبیقرار رہتی تھی۔بہر حال کھانے سے قبل میں نے باآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئی۔فہد اور عبدل کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر وہ خوشی کے تھے بڑی ہی عقیدت واحترام سے مجھ سے مصا فحہ کیا اور میرے حق میں دعا بھی کی۔دیکھیے کس طرح اللہ تعا لیٰ کی رحمت مجھ پر ہوئی اور اس نے کیسے کیسے ذرائع سے میری ہدایت فرمائی، یہ سب سوچتی ہوں تو بے اختیار سجدہ ریزہوجاتی ہوں، اُس مالک رحمن ورحیم کا احسان عظیم ہے کہ ا س نے مجھے اپنی رحمت میں شامل کرلیا اور معجزاتی طرز پر میرے لئے راستہ فراہم کیا۔
سعودی نوجوان وطن واپس ہو چکے تھے غالبًا میرے قبول اسلام کے ایک ہفتہ بعد ، مجھے انکی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ان کے حق میں دعا کرتی ہوں۔ اب میں نے مقامی مسجد میں اپنا رجسٹریشن کروا لیا ہے اور خواتین کی جماعت کی ممبر بھی بن گئی ہوں۔میرے گھر والے ابھی تک صدمے سے دوچارہیں، وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ یہ سب کب اورکیسے ہوگیا۔ وہ کیاجانیں کہ زندگی کے 50سال میں نے کس ذہنی اذیت اور روحانی کرب میں گذاردیے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت شبنم کی بوندوں کی طرح دھیرے دھیرے مجھ پر برس رہی ہے جس سے میری روح سیراب ہو تی ہے۔اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کے لئے میں مسجد میں باقاعدہ کلاسس اٹینڈ کرنے لگی ہوں۔
مگر صدمہ یہ ہوا کہ وہاں کی خواتین مجھے خوش دلی سے نہیں اپنا پائی ہیں۔ میں یہ سمجھتی تھی کہ سب مسلمان ویسے ہی ہونگے جیسا کہ سعودی لڑکے تھے ،مگر اللہ تعالیٰ سے پر امید ہوں او راللہ پر یقین و ایمان کو مانتی ہوں دنیا والوں کے رویہ کی مجھے پر واہ نہیں ہے۔ انٹر نیٹ کے ذریعہ مسلمان خواتین کے گروپ کوجوائن کرلیا ، ان خوا تین نے میرے پست ہوتے ہوئے حوصلوں کو سہارا دیا، میری ہمت افزائی کی، ان کی باتوں سے مجھ میں نئی جان آگئی تھی۔ ایک دن مجھے پارسل موصول ہوا ‘ میں نے کھول کر دیکھا تو عبایا‘ حجاب‘ تسبیح اور خواتین کے اسلامی لباس موجود تھے ، انکے ساتھ ایک محبت نامہ بھی تھا جس میں لکھا تھا ’’ ان تحفوں کی کوئی قیمت نہیں، جو تحفہ خدا نے تمہیں دیا ہے وہ سب سے عظیم ہے‘‘ وہ پارسل بھیجنے والی میری مسلم دوست تھی جوکویت میں مقیم تھی ا ور نیٹ کے ذریعہ ہماری دوستی ہوئی تھی۔ اسکے مختصر خط نے میرے حوصلے بلند کرنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ دلجمعی سے قرآن کی تلاوت کرنا میرا معمول ہے، کئی سورتوں کو زبانی یاد کرلیا ہے۔ کئی مسا جد کا دورہ بھی کیا، ہر جگہ مساجد کا وہی ماحول، مسلمانوں کا وہی طرز مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ صرف اس خدائے واحد سے محبت والفت کا نتیجہ ہے جو تمام مسلمانوں کو ایک ڈور میں باندھے رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میری یہی دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں پر اپنی رحمت اور کرم کے در کھول دے اور نیک توفیق عطا فرمائے۔ اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کرنے کی ہدایت نصیب فرمائے۔(آمین)
٭٭٭