بھوج شالہ سروے کے دوران ہندو مذہبی علامات پائی گئیں،ہندو فریق کا دعویٰ گمراہ کن

[]

دھار(مدھیہ پردیش): ایک درخواست گزار نے آج دعویٰ کیا کہ مدھیہ پردیش کے ضلع دھار میں بھوج شالہ۔ کمال مولا مسجد کامپلکس میں جاری سروے کے دوران ہندوؤں کی مذہبی علامات اور اشیاء پائی گئی ہیں۔ بہرحال مسلم فریق نے یہ الزام لگایا  ہے کہ یہ ایک گمراہ کن دعویٰ ہے۔

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک ہندو تنظیم کی درخواست پر محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ سروے کرانے کا حکم دیا جس کا آغاز 22 مارچ کو ہوا تھا۔ پیر کے روز سپریم کورٹ نے اس عمارت کے سروے کو روکنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

 ہندو اور مسلمان دونوں ہی اسے اپنی عبادت گاہ قرار دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس مشق کے نتیجہ پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہئے۔ ہندو فریق کے ایک درخواست گزار کلدیپ تیواری نے یہاں نامہ نگاروں کو بتایا کہ جو چیزیں پہلے نظر نہیں آتی تھی اب وہ سامنے آنے لگی ہیں۔

 دیوی سرسوتی کے منڈپ کی داہنی جانب ایک تہہ خانہ پایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ باور کیا جارہا ہے کہ ٹوٹی پھوٹی مورتیوں کو وہاں رکھا گیا ہے۔ سروے کے دوران انہیں برآمد کیا جائے گا۔

 ہندو مذہبی اشیاء اور علامات جیسے ”استھواکرا کمل“، سنسکرت کندہ کاری یا کتبے، شنکھ اور ہون کنڈ کے علاوہ بھگوان ہنومان کی مورتیاں بھی تہہ خانہ میں پائی گئی ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بھوج شالہ ایک ہندو مندر تھا۔

 کمال مولا ویلفیئر سوسائٹی کے عبدالصمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پرجس کے ذریعہ کھدوائی کو روک دیا گیا ہے  مسلم فریق کو مسرت ہے‘ ہندو مقدمہ باز، میڈیا کے ذریعہ غلط معلومات پھیلارہے ہیں۔

ہندو لوگ بھوج شالہ کو واگ دیوی کا مندر مانتے ہیں جبکہ مسلمان اسے کمال مولا مسجد تصور کرتے ہیں۔11 ویں صدی عیسوی کی  یہ عمارت اے ایس آئی کی حفاظت میں ہے۔

 تنازعہ پیدا ہونے کے بعد اے ایس آئی نے 7 اپریل 2003 کو ایک فارمولہ تیار کیا تھا جس کے تحت منگل کے روز ہندو لوگ یہاں پوجا کرتے ہیں جبکہ جمعہ کو مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *