شجیع اللہ فراست
اسرائیل نے غزہ جنگ شروع کرتے ہوئے دو مقصد مقرر کئے تھے ایک یہ کہ حماس کو ختم کر دیا جائے اور دوسرے حماس اور اسلامی جہاد کی قید سے یرغمالیوں کو چھڑایا جائے لیکن 16 مہینوں کی جارحیت کے باوجود اسرائیل اپنے دونوں مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ حماس اور مزاحمت آج بھی قائم ہے اور حماس اور اسلامی جہاد کی قید میں آج بھی یرغمالی موجود ہیں۔ اس طرح اسرائیل اپنے دونوں مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا اور یہ اس کی بڑی شکست ہے۔ غزہ جنگ کے دوران کم سے کم 46 ہزار فلسطینی شہید ہوئے۔ 23 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ بستیوں کی بستیاں اجڑگئیں۔ لاکھوں لوگ کھلے آسمان کے نیچے اور خیموں میں رہنے کے لئے مجبور ہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف آبادی والے علاقوں میں بم گرائے بلکہ ان ہاسپٹلس اور اسکولس کو بھی نشانہ بنایا جہاں بے گھر فلسطینی پناہ لئے ہوئے تھے۔
اسرائیل کے حملوں میں غزہ کا بنیادی انفرااسٹرکچر تباہ و تاراج ہوگیا۔ غزہ جنگ میں بچے بری طرح سے متاثر ہوئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔کئی افراد معذور ہوگئے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ فلسطینی بچوں کو اس جنگ کے نفسیاتی اثرات بھی جھیلنے پڑیں گے۔ اسرائیل نے خاص طورپر ہیلت انفرااسٹرکچر کو اپنے بموں سے نشانہ بنایا۔ غزہ 2007 ء سے اسرائیل کی غیرانسانی ناکہ بندی کا شکار تھا۔ غزہ ایک کھلی جیل بنا ہوا تھا جہاں اسرائیل کی مرضی کے بغیر کوئی آ جا نہیں سکتا تھا اور کوئی ضروری سامان بھی لایا نہیں جاسکتا تھا۔ اس قدر ناانصافی کے باوجود دنیا نے غزہ اور فلسطین مسئلہ کو نظرانداز کر دیا تھا لیکن 7 اکتوبر 2023 ء کو ایک دلیرانہ کارروائی کرتے ہوئے حماس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑا اور تب سے اب تک گذشتہ 16 ماہ میں فلسطین ایک بار پھر دنیا کے ایجنڈہ میں نمایاں ہوا۔
یہ بھی حماس کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اب جبکہ اتوار سے غزہ جنگ بندی پر عمل ہونے والا ہے سب سے اہم کام یہ ہے کہ سمجھوتہ پر خلوص نیت سے عمل ہو اور غزہ کی دوبارہ تعمیر کا کام شروع ہو۔ غزہ جنگ کے دوران عرب ملکوں کا کردار کوئی قابل تعریف نہیں رہا۔اب جبکہ فلسطینی مزاحمت کے نتیجہ میں جنگ رکنے والی ہے ان ملکوں کو غزہ کی دوبارہ تعمیر میں فراخدلی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ غزہ جنگ غزہ تک محدود نہیں رہی۔ 7 اکتوبر 2023 ء کے فوری بعد سے حزب اللہ نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کی شمالی سرحدوں کے قریب ایک محاذ کھولا۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بھی 14 ماہ تک جنگ لڑی گئی اور آخر کار جنگ بندی ہوئی، اس مدت کے دوران حزب اللہ نے کئی قربانیاں دیں جن میں سب سے اہم حسن نصراللہ کی شہادت ہے۔ اس کے علاوہ عراق کی مزاحمتی تنظیموں نے بھی وقفہ وقفہ سے اسرائیل کو اپنے میزائلس اور ڈرونس سے نشانہ بناتے ہوئے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔
غزہ جنگ کے شروع سے ہی یمن کے حوثیوں نے جنہیں ایران کی مدد حاصل ہے پہلے بحراحمر اور دوسرے سمندروں میں اسرائیل کے جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ لیکن جب امریکہ اور برطانیہ نے حوثیوں پر حملے شروع کئے، انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برطانیہ کو بھی اپنا جائز ہدف قراردے۔ یمن کے حوثیوں نے اسرائیل کی سرزمین پر بھی کئی حملے کئے۔ یمن پہلے سے ہی جنگ سے تباہ حال ہے لیکن یہ مادی کمزوریاں فلسطینیوں کی مدد کے جذبہ کو روک نہیں سکی اور شروع سے آخر تک حوثی غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ ڈٹے رہے۔ غزہ جنگ کے دوران ایران کے ساتھ بھی اسرائیل کی دشمنی اپنی انتہا کو پہونچ گئی۔ پہلی مرتبہ اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے کی زمین پر حملے کئے جس سے ایک بہت بڑی جنگ کے اندیشے بھی پیدا ہوئے۔ ایران کی سرزمین پر ہی حماس کے لیڈر اسماعیل ھنیہ کو شہید کیا گیا تھا۔
مزاحمتی لیڈرس کو نشانہ بنانے پرایران نے اسرائیل میں ایک بڑی کارروائی کی۔ اسرائیل کے خلاف لڑنے والی مزاحمتی تنظیموں حماس، حزب اللہ، انصاراللہ تحریک اور عراق کے مزاحمتی محاذ کو ایران کی بھرپور مدد حاصل رہی۔ غزہ جنگ کے کئی پائیدار اثرات دیکھے گئے اور آنے والے وقت میں دیکھے جائیں گے۔ ایسا ہی ایک اہم واقعہ شام میں بشارالاسد حکومت کا زوال ہے۔