[]
مہر خبررساں ایجنسی نے عراقی واع نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے پوپ فرانسس کے حالیہ خط کے جواب میں تشدد اور نفرت کے خلاف جنگ اور لوگوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
آیت اللہ سیستانی نے کہا: میں آپ کے عراق کے تاریخی سفر کی دوسری سالگرہ کے موقع پر آپ کے بھیجے گئے خط اور نجف اشرف میں آپ کے ساتھ ملاقات سے خوش ہوں۔ یہ اہم ملاقات اسلامی اور عیسائی مذاہب کے بہت سے پیروکاروں اور دوسروں کے لیے ان لوگوں کے ساتھ رواداری اور مناسب بقائے باہمی کا اظہار کرنے کی ترغیب تھی جو مذہب اور عقیدے کے لحاظ سے ان سے مختلف ہیں۔
مرجع عالی قدر نے کہا کہ آپ نے اپنے خط میں بعض امور کا ذکر کیا ہے جن پر ہم نے اس اہم ملاقات میں زور دیا تھا۔ پرامن بقائے باہمی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے کوششوں کے اتحاد کی اہمیت، تشدد اور نفرت کی نفی اور لوگوں کے درمیان دوستی اور اتحاد کی اقدار پیدا کرنا، جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان حقوق اور باہمی احترام پر مبنی ہے۔
آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ میں بھی آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مظلوموں کے دفاع کے لیے مزید کوششیں کی جانی چاہئیں۔ مشرق اور مغرب کے بہت سے حصوں میں بہت سے نسلی اور سماجی گروہوں کو ان سانحات کا سامنا کرنا پڑا، جو فکری اور مذہبی ظلم و ستم اور بنیادی آزادیوں کو دبانے اور سماجی انصاف کے فقدان کا نتیجہ تھا۔ کچھ انتہا پسند تحریکوں کا ابھرنا جو غیر ہم خیال لوگوں پر حملہ کرنے سے شروع ہوتا ہے کی روک تھام ضروری ہے۔
مرجع عالی قدر نے اپنے خط میں کہا: میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ ہر شخص ان مظالم کے خاتمے پر زیادہ توجہ دے اور مختلف معاشروں میں انصاف اور امن کے حصول کے لیے اپنی طاقت سے ہر ممکن کوشش کرے۔ اس سے نفرت اور تشدد کے واقعات میں یقیناً کمی آئے گی۔ میں اس دور میں انسانیت کو درپیش بڑے چیلنجوں پر قابو پانے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغامات پر ایمان اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کے ضروری کردار کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
آیت اللہ سیستانی نے پوپ کے جواب میں خاندان کی حفاظت، روحانی اور معنوں پہلووں کی تقویت اور تقویٰ کی پابندی کی طرف اشارہ کیا جو انسانوں کے کمال اور بلندی کا ضامن ہے۔
انہوں نے انسانیت کے لیے خدا کی رحمت اور بھلائی کی دعا کی اور پوپ کے لئے بھی تندرستی کی خواہش کی۔