[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سویڈن میں قرآن کریم کی توہین کے بعد عالمی سطح پر ہونے والے ردعمل میں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی ممالک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے کروشیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار ایوان کسیچ نے پریس ٹی کی ویب سائٹ پر منتشر ہونے والے مضمون میں لکھا ہے کہ بعض ممالک نے سویڈش سفارتکاروں کو ملک بدر اور بعض نے سویڈن کے نمائندوں اور وفود کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
متعدد ممالک نے سویڈن کے سفیروں کو متعلقہ اداروں میں بلاکر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
عراقی نژاد عیسائی سلیون مومیکا نے 28 جون کو اسٹاک ہوم میں مرکزی مسجد کے سامنے قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کے بعد 19 جولائی کو دوبارہ عراقی سفارت خانے کے باہر اس ہتک آمیز واقعے کو دہرایا۔ اس کے بعد سویڈن کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں نے سویڈش پولیس کی حفاظت میں قرآن کریم اور عراقی پرچم کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنماوں کی تصاویر کو بھی آگ لگائی تھی۔
سویڈن کی حکومت نے دو واقعات کو آزادی بیان کا نام دیتے ہوئے اجازت نامہ صادر کردیا جس کی قانون اداروں نے بھی حمایت کی۔ سویڈن میں ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔
جنوری میں ایک انتہا پسند جماعت کے سربراہ راسموس پالودان نے اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارتخانے کے باہر قرآن کریم کی بے حرمتی کی تھی جس کو پولیس سویڈش پولیس نے سیکورٹی فراہم کی تھی۔
سویڈن میں توہین آمیز واقعات کی مسلسل تکرار کے بعد مسلمان ممالک میں سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے 2022 میں صادر ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ترکی اور سعودی عرب سویڈش مصنوعات کے بڑے درامد کنندگان میں شامل ہیں۔ دونوں ممالک تقریبا ایک ارب یورو کی مصنوعات درامد کرتے ہیں۔
مصر، عرب امارات، انڈونیشیا، ملائشیا، مراکش، قطر، الجزائر، پاکستان، نائجریا، قازقستان، عمان، تیونس، کویت اور عراق بھی ان ممالک میں شامل ہیں۔
سویڈن سے مسلمان ممالک کو بھیجے جانے والی مصنوعات میں معدنی پتھر، لوہا اور فولاد، مختلف اقسام کی گاڑیا، اسٹیشنری، ادویہ جات اور الیکٹرونک مصنوعات شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر مصنوعات عالمی سطح پر معروف کمپنیوں کے ماتحت ہیں لہذا مسلمان ممالک کے اعلی حکام کی جانب سے سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ کے سلسلے میں مداخلت ضروری ہے۔
سویڈش مصنوعات پر پابندی اور بائیکاٹ کا زیادہ اثر اس وقت ہوگا جب آٹوموبائل مخصوصا والوو کمپنی کی بسوں اور ٹرکوں پر پابندی لگادی جائے جوکہ سویڈش کے زرمبادلہ میں اہم حصہ ڈالتا ہے۔
گھریلو اشیاء بنانے والی معروف سویڈش کمپنی IKEA کے بھی بیرون ملک گاہکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ موبائل فون کمپنی سونی اریکسن، سماجی رابطے کی ویب سائٹ سکائپ، بچوں کی حفاظت کی برانڈ Essity، کپڑے بنانے والی کمپنی H&M، تعمیراتی کمپنی Skanska اور آٹوموبائل کمپنی ولوو وہ کمپنیاں ہیں جو مسلمان ممالک کی جانب سے بائکاٹ کیا جاسکتا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سویڈن 635.66 ارب ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ یورپ کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے جب کہ دنیا کی کچھ بڑی کمپنیاں بھی اس ملک میں بھی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔
سویڈش مصنوعات کا بائیکاٹ سویڈن سے درآمد کرنے والے اہم ممالک پر توجہ مرکوز کرنے سے ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سویڈن میں تیار ہونے والی اشیاء کے بارے میں آگاہی میں اضافہ اور مختلف ممالک اور کمپنیوں کے اعلی حکام کی جانب سے درخواستیں دے کر بائیکاٹ کی اس مہم کو زیادہ مؤثر کیا جا سکتا ہے۔
فسلطینیوں کے خلاف جارحیت کے جواب میں صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کو اس سلسلے میں نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
قرآن کریم کی توہین کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی مذمت اس کا ایک اور نمونہ ہے۔ عالمی سطح پر سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ بلدیہ تہران کے بین الاقوامی امور کے معاون حمید رضا غلامزادہ نے ٹوئیٹر پر لکھا ہے کہ سویڈن میں ہونے والے واقعات کے بعد اسلامی ممالک کو متحد ہونا چاہئے۔ سویڈش سفیروں کو ملک بدر کرنے کے علاوہ IAEA سمیت سویڈن کی دیگر مصنوعات کا اجتماعی بائکاٹ کرنا چاہئے۔
صحافی روشن صلاح نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سویڈن اور ڈنمارک نسل پرست، اسلام مخالف اور غیر مہذب ممالک میں شامل ہیں۔ ان افراد کی ذہنیت کو منطقی اور عقلی استدلال سے بدلنا ممکن نہیں ہے لہذا اسی طریقے کا ضرب لگانا چاہئے جس سے یہ زیادہ متاثر ہوجائیں جوکہ اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ کچھ نہیں۔ دونوں ممالک کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اس حوالے معروف کمپنی IKEA بہترین نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔
کویت سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ نے سویڈن کی مشہور مصنوعات کی تصویر شئیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ان مصنوعات کا بائکاٹ کرکے قرآن کریم کی حمایت اور دفاع میں اپنا حصہ ڈالے گا۔