سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی

[]

مہر خبررساں ایجنسی نے عالمی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی قرارداد پر رائے شماری کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہوا جس میں قرارداد کو منظور کرلیا گیا۔

فوری جنگ بندی کی قراردادسلامتی کونسل کے10 رکن ممالک نے پیش کی۔

قرارداد پیش کرنے والے ممالک میں الجزائر، جاپان، ایکواڈور ، سوئٹزرلینڈ، جنوبی کوریا، مالٹا اور دیگر ممالک شامل تھے۔

سلامتی کونسل کے15میں سے 14 ارکان نےقراردادکی حمایت کی جب کہ امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

قرارداد میں یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور غزہ میں بلا رکاوٹ امداد کی رسائی بھی شامل ہے۔ ووٹنگ سے چند منٹ پہلے امریکا نے قرارداد میں مستقل جنگ بندی کے الفاظ کو طویل جنگ بندی میں تبدیل کرا دیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے 4 قراردادیں پیش کی گئیں تھیں تاہم ان میں سے کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہوسکی۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے قرارداد کی منظوری پر ردعمل دیتے ہوئے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس قرارداد کو فوری نافذ ہونا چاہیے، ایسا نہ ہوا تو یہ ناقابل معافی ہوگا۔

حماس کی جانب سے سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونےکا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ قرارداد دونوں طرف سے قیدیوں کے فوری تبادلے کے لیے تیار ہونے پر زور دیتی ہے۔

 اسرائیل نے قرارداد ویٹو نہ کرنے پر اسرائیلی وفد کا دورہ امریکا منسوخ کر دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے قرارداد ویٹو نہ کرنا ماضی کے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔ 

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے اس اقدام سے حماس کے خلاف جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ 

غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 32 ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 74 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ شہدا میں 13 ہزار بچے بھی شامل ہیں، یہ پچھلے چار برسوں میں کسی بھی عالمی تنازع میں ہلاک بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اسرائیل پورے غزہ کو ملیامیٹ کرچکا ہے اور مکانات، اسپتال، مساجد، پناہ گاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔ 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *