مرکز سی اے اے نافذ کرکے ہندوستان میں در اندازوں کے داخل ہونے کو قانونی بنارہی ہے:کجریوال

[]

نئی دہلی: دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے جمعرات کو کہا کہ غیر قانونی دراندازوں کو ملک میں آنے کا ڈر ہے، لیکن مرکزی حکومت شہریت سے متعلق ترمیمی قانون (سی اے اے) کو نافذ کرکے ہندوستان میں ان کے داخلے کو قانونی بنا رہی ہے۔

کجریوال نے آج کہا کہ چہارشنبہ کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ سی اے اے ملک کے لئے کس طرح انتہائی خطرناک ہے اس لئے اسے واپس لیا جانا چاہئے۔ اس پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنا بیان جاری کیا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے مسٹر کیجریوال نے کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ نے اپنے پورے بیان میں سی اے اے پر اٹھائے گئے سوالات کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دیا ہے۔ مسٹر شاہ نے انہیں بے ایمان اور کرپٹ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں کہا۔

کجریوال نے کہا کہ آج مرکزی حکومت اور ملک کی تمام ریاستی حکومتیں عوام کے بچوں کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ مرکزی حکومت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ہندوستان میں لا کر آباد کرنا چاہتی ہے، انہیں روزگار کہاں سے ملے گا؟ ہمارے ملک میں پہلے ہی بہت غریبی ہے۔ لوگوں کے پاس روزگار اور گھر نہیں ہیں۔ پھر ان ملکوں سے آنے والوں کو کہاں بسایا جائے گا؟

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آزادی کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ بہت سے لوگ ہندوستان سے پاکستان اور بنگلہ دیش گئے اور پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی بہت سے لوگ ہندوستان آئے۔ اب سی اے اے کی وجہ سے جو نقل مکانی ہونے والی ہے وہ آزادی کے دوران ہونے والی نقل مکانی سے کہیں زیادہ تعداد میں ہونے والی ہے۔

دہلی کے وزیرعلی نے کہا کہ روہنگیا بی جے پی کی حکومت کے دوران ہی ہندوستان آئے تھے۔ سی اے اے قانون کے متعارف ہونے کے بعد روہنگیا اتنی بڑی تعداد میں ملک میں آنے والے ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

کجریوال نے کہا کہ ان ممالک سے لوگ 2014 سے پہلے بھی ہمارے ملک میں آئے تھے لیکن آج تک انہیں ہمارے ملک میں کوئی حقوق نہیں ملے۔ اب انہیں ہندوستانی شہریت دے کر سرکاری ملازمتیں دی جائیں گی۔

 اب آپ کی حکومت پاکستان سے دراندازی کرنے والوں کو سرکاری نوکریاں دے گی۔ ان کے راشن کارڈ بنائیں گے۔ آپ ہمارے ملک کے لوگوں کے حقوق پر شب خون مار کر پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں کو حقوق دے رہے ہیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *