[]
بنگلورو: تجارت و کاروبار میں اگر ہر کوئی مذہب کو دیکھنے لگے تو مسلمان اپنا روزگار کیسا حاصل کریں گے؟ 22 سالہ آٹورکشا ڈرائیور محمد عاشق کے والد حمید نے یہ سوال پوچھا ہے کیونکہ چہارشنبہ کی رات ان کے بیٹے کو صرف اس لئے مارا پیٹا گیا کیونکہ اس نے ایک ہندو لڑکی کو اپنی منزل تک پہنچایا تھا۔
چہارشنبہ اور جمعرات کی درمیانی شب جب محمد عاشق ایک ہندو لڑکی کو اپنی منزل پر چھوڑ کر واپس ہورہا تھا تو 10 تا15 افراد کے ایک گروپ نے اسے روک لیا اور اس کے ساتھ مارپیٹ کی۔
جہاں یہ واقعہ پیش آیا اُس سے صرف چند میٹر کے فاصلہ پر دھرم استھلا پولیس اسٹیشن واقع ہے۔ انڈین اکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق محمد عاشق نے بتایا کہ تقریبا 9 بجے رات کو ایک لڑکی اُجیرے سے دھرم استھلا جانے کیلئے میرے آٹو میں سوار ہوئی۔
جب میں اسے منزل پر چھوڑ کر واپس ہونے لگا تھا تو ایک ٹولی نے مجھے روک لیا اور آٹو سے نیچے اترنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے میرا نام پوچھا اور پھر اس لڑکی کا نام بھی پوچھا اور جب انہیں پتہ چلا کہ میں مسلمان ہوں اور وہ لڑکی ہندو تو انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا۔
انہوں نے میرا موبائل فون اور پرس چھین لیا۔ عاشق نے مزید بتایا کہ وہ لڑکی ایک اسٹوڈنٹ نظر آرہی تھی اور ان لوگوں نے جب گالی گلوچ کی تو وہ خوفزدہ ہوگئی۔ وہ لوگ لڑکی کو ایک مسلمان کے آٹو رکشا میں سوار ہونے پر گالیاں دینے لگے تھے۔
مجھے فرار ہونے کا بھی موقع نہیں ملا کیونکہ انہوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔ مارپیٹ کے نتیجہ میں عاشق زخمی ہوگیا۔ بعد میں اس نے دھرم استھلا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی۔ اس سلسلہ میں تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
عاشق کے والد حمید نے جو ایک ٹرک ڈرائیور ہیں، کہا کہ اب صورتحال بے حد نازک ہوگئی ہے۔ میرے بیٹے کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ غصہ دلانے والا ہے۔ حمید نے پوچھا کہ کاروبار کیلئے بھی مذہب کیوں اہم اور تشویش کا باعث ہوگیا ہے۔
اگر لوگ ایسے ہی کرنے لگیں تو مستقبل میں روزگار حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اسی دوران چیف منسٹر کرناٹک سدارامیا نے اس واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اخلاقی پولیسنگ میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت دی ہے۔ کرناٹک میں کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔