مشاطاؤں کی غلط بیانیاں۔ سرپرستوں کی پریشانیاں

[]

ایم جواد

کہا جاتا ہے کہ رشتے آسمان پر بنتے ہیں ، ان کی تکمیل زمین پر ہوتی ہے ۔ ہر بشر کی رب نے بنائی جوڑی ہے لیکن اسے تلاش کرنا پڑتا ہے بعض لڑکیوں کے آسانی سے رشتے طے ہوجاتے ہے کچھ لڑکیوں کو اپنے رشتے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہی صورت حال لڑکوں کے ساتھ بھی پیش آتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ لڑکے والوں کی بہ نسبت لڑکی والوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

ماضی میں خاندان کی بزرگ خواتین لڑکے اور لڑکیوں کی آپس میں رشتے طے کروادیا کرتی تھیں ۔ خاندان میں بات بن جانے سے باہر رشتوں کو تلاش کرنا نہیں پڑتا تھا لیکن آج زیادہ تربزرگ خواتین اس معاملے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔ ان کا زیادہ تر وقت ٹی وی کے سامنے گزر جاتا ہے ۔رشتوں کے متعلق بات اگر آ بھی جائے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ کبھی ملی فرصت تو سوچا جائے گا، رشتوں کے بارے میں دیکھا جائے گا۔‘‘ لیکن ٹی وی کے رہتے ہوئے فرصت کا ملنا محال ہے ، اس لیے رشتے لگانے کا کام مشاطہ کے سپرد کردیا گیا ۔

مشاطائیں پہلے بھی رشتے لگاتی تھیں لیکن ان کی تعداد کم تھی ، آج ہر چوتھی گلی سے ایک مشاطہ کسی گھر سے نکلتی نظر آتی ہے ۔ کوئی شال اوڑھے تو کوئی برقعہ پہنے پان چباناان کا محبوب مشغلہ ہے۔ آج تو ہر مشاطہ کے ہاتھ میں سل فون نظر آتا ہے ۔ کچھ غیر تعلیم یافتہ مشاطائیں ایسی بھی ہیں جنہیں اپنا فون نمبر یاد نہیں رہتا اور نہ ہی وہ کسی کا نمبر ڈائیل کرسکتی ہیں لیکن فون ریسیو کرنا انہیں آتا ہے ۔ وہ فریقوں سے لڑکی دیکھنے جانے اور لڑکے والے آنے کا وقت طے کرتی ہیں ۔ مشاطوں نے اپنے طورپر فیس بھی مقرر کررکھی ہے ۔

فوٹو ، نام نویسی ، اسم نویسی کے ساتھ ان کی فیس پہلے ادا کرنی پڑتی ہے ۔ ساتھ ساتھ جوڑے کی رقم کے لحاظ سے کمیشن بھی طے کرلیا جاتا ہے جو 5تا 15فیصد کے درمیان ہوتا ہے ۔ لڑکے اور لڑکیوں کے نصف درجن فوٹوز ان کی تھیلی یا بیاگ میں ہوتے ہیں ۔ فوری رشتہ لگانے کی حامی بھری جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ حرکیاتی ہیں ، فلاں گھر میں آٹھ دن کے اندر رشتے طے ہوا ، ہمارے پاس تو چٹ منگنی پٹ بیاہ کا معاملہ ہے ۔ صرف فوٹو ،کاغذ اور فیس دے دیجیے پھر دیکھیے کیسے کارروائی شروع ہوتی ہے ۔ لڑکیوں کے سرپرست جو لاڈلی کے رشتے کے لیے پریشان رہتے ہیں ، مشاطہ کی ساری شرطوں کو منظور کرلیتے ہیں ۔

اکثر مشاطیں فوٹو، کاغذ لے کر رفو چکر ہوجاتی ہیں ، ان کی صورت دوبارہ نہیں دکھائی دیتی کیونکہ ان کے پاس بیشتر رشتے فرضی ہوتے ہیں ۔ راہ میں ملاقات ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ کیا کریں تصویر بتلا رہے ہیں کوئی پسند کرے تو پیام لائیں گے۔ ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے ، اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے ۔ اس جواب کے بعد مزید کسی سوال کی گنجائش نہیں رہتی ۔ کچھ مشاطاؤں کا یہ طریقہ کار ہے کہ مطلوبہ فیس کے علاوہ جب گھر آئیں کرایہ وصول کرتی ہیں ، ٹھنڈے یا گرم سے تواضع بھی ضروری ہے ورنہ وہ ناراض ہوجاتی ہیں ۔

رشتہ طے کرنے کے لیے بیشتر مشاطائیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں ۔ ان کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ ایک بار رشتہ طے ہوجائے تو بعد میں بات کو نبھا لیا جائے گا لیکن دروغ گوئی دونوں فریقوں کے لیے مصیبت کا پھندا بن جاتی ہے ۔

ایک مشاطہ نے کہا کہ ہم پر رشتہ نہ لگانے کا الزام لگایا جاتا ہے ، ہم جان توڑ کوشش کرتے ہیں کہ رشتہ کسی بھی طرح طے ہوجائے تاکہ ہمیں بھاری کمیشن مل سکے جب سامنے والے فریق کو رشتہ پسند نہ آئے تو ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ لڑکے والوں کے معیارات بلند ہوچکے ہیں ۔

لاکھوں روپئے جوڑے کی رقم، قیمتی جہیز ، شادی کے دن کھانا ، لڑکی کا خوبصورت کم عمر نازک اور تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہوگیا ہے پھر لڑکی والوں کا گھر، رہن سہن اور ڈیکوریشن بھی دیکھا جاتا ہے ۔ لڑکی والے بھی بلند خواہشات رکھتے ہیں ، تعلیم یافتہ لڑکا جس کی اچھی آمدنی ہو ۔ مختصر خاندان ہو ، ذاتی مکان ہو ، ہینڈ سم ہو ۔ ان باتوں کو ملحوظ رکھا جائے گا تو رشتے کیسے طے ہوں گے۔ صرف مشاطہ کو قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔

لڑکی والوں سے اکثر مشاطیں کہتی ہیں جوڑے کی رقم لاکھوں میں دو رشتے لاؤں گی۔ گھر چھوٹا ہے ، تبدیل کرو، رشتے لاؤں گی ۔ لڑکی موٹی ہے دبلی کرو، رشتے لاؤں گی ، رنگ کم ہے فیر کلر کریم لگا کر کرو ، رشتے لاؤں گی ۔ غریب و متوسط طبقے کے لیے لاکھوں روپئے دینا رشتے کے لیے ذاتی مکان کو تبدیل کرنا، موٹاپے کو دور کرنا ، قدرتی رنگ کو بدلنا کیا آسان کام ہے ؟ اس کا جواب نفی میں حاصل ہوگا جس کے نتیجے میں شہر حیدرآباد میں ہزاروں لڑکیاں شادی کی عمر تجاوز کرجانے کا شکوہ کررہی ہیں۔ ایک طرف مشاطاؤں کی غلط بیانیاں ، سرپرستوں کی پریشانیاں بڑھا رہی ہیں تو دوسری طرف دونوں فریقوں کے اعلیٰ معیارات شادی کا رشتہ طے کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں ، اس کا سدباب ضروری ہے ۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *