[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ریبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے مجلس خبرگان رہبری کے اراکین نے آج صبح ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب کے ارشادات کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
نو منتخب نمائندوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے کسی بھی عمل سے قوم کے مزاج میں تلخی اور ملک کے سیاسی ماحول میں بگاڑ پیدا نہ ہوجائے۔
مجلس خبرگان کو اپنے انتخاب میں اسلامی جمہوریہ کے طے شدہ اصولوں کو ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
شعبان کا مہینہ بشارتوں اور خوشیوں کا مہینہ ہونے کے ساتھ دلوں کی تطہیر اور دعاؤں کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ رمضان المبارک کی لامحدود اور بے پناہ برکتوں میں داخل ہونے کی تیاری کا مہینہ ہے۔
– اس بابرکت مہینے کے یہ چند دن جو باقی رہ گئے ہیں، ہمیں بھرپور استفادہ کرنا چاہئے، شاید اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے۔
اسلامی جمہوریہ کے وجود میں آنے سے دنیا میں دو محاذ ایک دوسرے کے مقابل ٹھہرے۔ لبرل ڈیموکریسی کا محاذ اور اسلامی جمہوریت کا محاذ / لبرل جمہوریت کی ذات میں استکباریت (سامراجیت) اور جارحیت (استحصال) موجود ہے
اسلامی جمہوریہ کے وجود میں آنے سے دنیا بھر میں زبردست اثرات پیدا ہوئے۔ گویا اس نظام نے ایک بھونچال بپا کیا، یہ ایک عالمی واقعہ تھا۔ امام خمینی رح کی قیادت اور ملک بھر میں ایرانی عوام کی ہمت، حوصلے اور ایثار و قربانی نے ایک ایسے تاریخی نمونے کو دنیا کے سامنے پیش کیا جس نے دنیا کو دو واضح محاذوں میں تقسیم کردیا۔ ایک محاذ جمہوریتوں اور لبرل ڈیموکریٹک اپروچ کا حامل محاذ ہے۔
جب کہ دوسرا محاذ اسلامی جمہوریہ کا ہے جو دین اور اسلام سے متعلق تھا لیکن اس کی ابتدا دین اور اسلام سے ہوئی تھی۔ یہ محاذ آرائی اسلامی جمہوریہ (ایران)کے قیام سے پہلے موجود نہیں تھی۔
یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ یہ عدم مطابقت صرف دین کی پابندی کی وجہ سے ہے۔
مغربی جمہوریت کے کارپردازوں نے محسوس کیا کہ یہ نیا ماڈل (اسلامی جمہوریت) ان کے مفادات اور شاید بالآخر ان کے وجود سے متصادم ہے۔
یہ ٹکراو اور شدید کشمکش اس لیے ہے کہ لبرل جمہوریت اور اس منطق اور اصول کی بنیاد پر وجود میں آنے والی حکومتوں اور ریاستوں کی ذات میں ہی استکباریت (تسلط پسندی) اور جارحیت (استحصال) موجود ہے۔
جب کہ مقابل محاذ جو دینی جمہوریت کے قیام کے ساتھ پیدا ہوا، اس کا سب سے اہم مسئلہ ان واقعات کی روک تھام ہے۔ یعنی ظلم سے نمٹنا، استکبار سے لڑنا، جارحیت پسندی سے نبرد آزما ہونا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایسی حکومت جو دینی بنیاد پر قائم ہو، اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئے، اس کا بنیادی اصول اور ضابطہ اخلاق ہی ’’نہ ظلم کرنا اور نہ ہی ظلم سہنا‘‘ ہے کے اصول پر استوار ہے۔ قدرتی طور پر یہ ٹکراو اور یہ دو طرفہ محاذ آرائی ایک طبیعی بات ہے۔
ہمیں عالمی استکبار کے خلاف عملی جد و جہد کا پرچم ہمیشہ بلند رکھنا چاہیے اور ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے استکبار ستیزی کا یہ پرچم کہیں چھن نہ جائے۔
ہمیں راہ استقامت پر گامزن رہتے ہوئے اس پرچم کو مزید وسیع اور بلند کرنا چاہیے۔