[]
واضح رہے کہ آن لائن کال کے دوران جرمن فضائیہ کے سربراہ اور ان کے تین ماتحت افسروں نے کییف کو ٹورس کروز میزائلوں کی ممکنہ ترسیل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ روس یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے درمیان عدم اعتماد کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران جرمنی نے اپنے فوجی افسران کے درمیان جنگ سے متعلق ہونے والی ایک متنازعہ فون کال کی تحقیقات شروع کی ہیں۔ پیر کے روز امریکہ نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ جرمنی کی فضائیہ کے سربراہ اور ان کے تین ماتحت افسروں کے درمیان یوکرین جنگ سے متعلق ہونے والی فون کال کی ریکارڈنگ آن لائن شائع کر کے، یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ روس کے سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی کی سربراہ مارگریٹا سائمونیان نے جمعے کے روز ان چار افسروں کے درمیان ہونے والی بات چیت کی 38 منٹ کی آڈیو ریکارڈنگ جاری کر دی تھی، جس میں یوکرین کو ٹورس میزائل بھیجنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے دوسرے دن ہفتے کے روز برلن میں وزارت دفاع نے کہا کہ اسے یقین ہے کہ یہ آڈیو حقیقی ہے اور یہ بات چیت انٹرسیپٹ کر کے ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس پر وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ”یہ ایک بڑی کوشش ہے۔ روسیوں کی جانب سے اختلافات بونے کی کوشش اور تقسیم کو ظاہر کرنے کی کوشش کے ساتھ ہی یہ ظاہر کرنے کی ایک کوشش ہے کہ مغرب متحد نہیں ہے۔” وائٹ ہاؤس کا یہ بیان جرمن حکومت کے اس بیان کی ہی بازگشت ہے، جس میں پیر کے روز اس آڈیو کے لیک کرنے کو ایک ایسا، ”ہائبرڈ حملہ قرار دیا گیا، جس کا مقصد عدم تحفظ پیدا کرنا اور ہمیں تقسیم کرنا ہے۔”
واضح رہے کہ آن لائن کال کے دوران جرمن فضائیہ کے سربراہ اور ان کے تین ماتحت افسروں نے کییف کو ٹورس کروز میزائلوں کی ممکنہ ترسیل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ البتہ جرمن چانسلر اولاف شولس عوامی سطح پر ان میزائلوں کی ترسیل کے امکانات کو مسترد کر چکے ہیں۔ جان کربی نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ روس اس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ گویا جرمن حکومت کییف کے لیے، ”جو کچھ بھی کر رہی ہے، وہ اس پر متحد نہیں” ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم سب مل کر یوکرین کی حمایت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جرمن بھی پوری طرح شامل ہیں۔ ہر ملک کو خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے اور جرمنوں نے قدم بڑھایا ہے۔ انہوں نے بامعنی طریقوں سے قدم آگے بڑھایا ہے۔” اس آڈیو کلپ میں یوکرین کو بھیجے گئے برطانوی اسٹارم شیڈو کروز میزائلوں کی تعیناتی کا بھی ذکر ہے اور اس بات کا بھی حوالہ شامل ہے کہ اس کام کے لیے برطانوی ”افراد وہاں زمین پر” موجود ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اس آڈیو لیک کی تحقیقات جرمنی کا معاملہ ہے اور برطانیہ یوکرین کی حمایت کے لیے جرمنی کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
جرمنی کا ردعمل؟
ہفتے کے اواخر میں جرمن چانسلر شولس نے اسے ”بہت سنگین معاملہ” قرار دیا تھا۔ شولس نے ہفتے کے روز روم کے دورے کے دوران کہا، ”اب اس کی بہت ہی احتیاط سے، بہت شدت سے اور بہت جلد تفتیش کی جائے گی۔” جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے بھی روس پر ‘معلومات کی جنگ‘ چھیڑنے کا الزام لگایا۔
جرمن وزیر نے اتوار کے روز روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مقاصد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”اس ریکارڈنگ کے استعمال کا مقصد ہمیں غیر مستحکم اور پریشان کرنا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ پوٹن اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ جرمن فوج اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ بات چیت کو کیسے انٹرسیپٹ کر کے ریکارڈ کیا گیا۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر کا کہنا ہے کہ ملک کو روسی جاسوسی سے اپنے دفاع کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ فیزر نے کہا، ”ہم نے جاسوسی اور غلط معلومات کے خلاف اپنے حفاظتی اقدامات میں اضافہ جاری رکھا ہے اور موجودہ پیش رفت پر مسلسل رد عمل بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔”
;