[]
کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد محمد معیزو نے روایتی طورپر بھارت کا دورہ کرنے سے قبل سب سے پہلے چین کا دورہ کیا۔
نئی دہلی اور مالے کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان بھارت نے مالدیپ کے قریب اپنا ایک نیا بحری اڈہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان مالدیپ کے چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات سے سخت ناراض ہے۔ ہندوستانی بحریہ نے کہا کہ ہندوستان کے انتہائی جنوب میں واقع لکش دیپ جزیرے کے منی کوئے پر آئی این ایس جٹایو کے نام سے ایک نیا بحری اڈہ تعمیر کیا جائے گا۔
بھارتی بحریہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے،” اس بحری اڈے کے قیام سے مغربی بحیرہ ہند میں بحری قذاقی اور منشیات کے خلاف بھارتی بحریہ کی کارروائیوں کو زیادہ موثر اور اس کی آپریشنل رسائی میں وسعت دینے میں مدد ملے گی۔ اس سے خطے میں بھارتی بحریہ کی جانب سے پہلے جواب دہندہ کے طورپر صلاحیت میں اضافہ اور سرزمین کے ساتھ رابطہ میں بھی مدد ملے گی۔”
بھارتی بحریہ کا کہنا ہے کہ یہ نیا بحری اڈہ اسٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت کے حامل جزائر کے سکیورٹی انفراسٹرکچر میں اضافے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اور اس کے تفصیلی منصوبے کا اعلان اگلے چند دنوں میں جاری کردیا جائے گا۔ خیال رہے کہ لکشد یپ کے کاواراتی جزیرے پر بھارت کا ایک اور بحری اڈہ آئی این ایس دویپ رکشک پہلے سے ہی موجود ہے۔
مالدیپ سے ناراضگی کا سبب
گزشتہ برس محمد معیزو کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مالدیپ اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد محمد معیزو نے روایتی طورپر بھارت کا دورہ کرنے سے قبل سب سے پہلے چین کا دورہ کیا۔ جہاں انہوں نے کہا تھا کہ چھوٹا ملک ہونے کی وجہ سے کسی کو مالدیپ پر دھونس جمانے کا لائسنس نہیں مل جاتا ہے۔
دراصل اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لکش دیپ میں اپنے دورے کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے لوگوں سے اس جزیرے کی سیاحت کو ترجیح دینے کی اپیل کی تھی۔ اس پر مالدیپ کے تین نائب وزراء نے وزیر اعظم مودی کے خلاف نازیبا بیانات دیے تھے۔ جس پر بھارت میں سوشل میڈیا پر مالدیپ کی سیاحت کو بائیکاٹ کی مہم شروع کردی گئی۔
فروری میں صدر معیزو نے بھارت سے کہا کہ وہ اپنے فوجی اہلکاروں کو مالدیپ سے واپس بلالے۔ مالدیپ میں تقریباً 75بھارتی فوجی مختلف سرگرمیوں میں شامل ہیں، جن میں سمندروں میں پھنسے لوگوں کو بچانے اور دور افتادہ جزائر سے مریضوں کو جہازوں کے ذریعہ ہسپتالوں میں پہنچانے کے کام شامل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;