[]
ممبئی: ریلوے پولیس کانسٹیبل چیتن سنگھ جس نے جئے پور-ممبئی ٹرین میں اپنے سینئر اور تین مسلم مسافروں کو اپنی آٹو میٹک رائفل سے گولی مار کر ہلاک کردیا، اس واقعہ سے چند گھنٹے قبل اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا کہ وہ خود کو بیمار محسوس کررہا ہے۔
وہ اپنی ڈیوٹی پوری ہونے سے پہلے ٹرین سے اترنا چاہتا تھا لیکن اسے کہا گیا کہ وہ اپنی شفٹ مکمل کر لے۔ اس سے وہ مشتعل ہو گیا اور ڈیوٹی انچارج ٹیکا رام مینا سے اس کا جھگڑا شروع ہو گیا۔ اس دوران اس نے مبینہ طور پر اپنے ایک ساتھی کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی۔
ریلوے پروٹیکشن فورس کے ایک کانسٹیبل گھنشیام اچاریہ نے اتوار کی رات چیتن سنگھ اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر ٹیکارام مینا کے ساتھ سوپر فاسٹ ٹرین میں ڈیوٹی پر تھے، پولیس کو وہ واقعات سنائے ہیں جن کی وجہ سے یہ چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا۔
رات کے چونکا دینے والے واقعات کو بیان کرتے ہوئے گھنشیام اچاریہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ مسٹر مینا (58)، کانسٹیبل نریندر پرمار (58) اور چیتن سنگھ (33) کے ساتھ ایسکارٹ ڈیوٹی پر تھے۔
مسٹر اچاریہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ صبح 2:53 بجے کے قریب سورت سے ممبئی جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی کے لئے سوار ہوئے، چیتن سنگھ اور مسٹر مینا ایئرکنڈیشنڈ ڈبوں میں ڈیوٹی پر تھے جبکہ وہ اور مسٹر پرمار سلیپر کوچ میں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم ڈیوٹی شروع ہونے کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد اے ایس آئی ٹیکا رام مینا کے پاس رپورٹ پیش کرنے گئے۔ کانسٹیبل چیتن سنگھ اور تین ٹکٹ انسپکٹر ان کے ساتھ تھے۔ اے ایس آئی ٹیکا رام مینا نے انہیں بتایا کہ چیتن سنگھ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
میں نے اسے چھو کر دیکھا کہ اسے بخار تو نہیں ہے۔ میں اس کا اندازہ نہیں لگا سکا۔ چیتن سنگھ اگلے اسٹیشن پر ٹرین سے اترنا چاہتا تھا تاہم انچارج اے ایس آئی مینا اسے بتا رہے تھے کہ ان کی کم از کم دو گھنٹے کی ڈیوٹی باقی ہے۔
مسٹر اچاریہ نے مزید بتایا کہ 33 سالہ پولیس اہلکار چیتن سنگھ سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ مسٹر مینا نے پھر ہمارے انسپکٹر کو فون کیا اور انہوں نے ہدایت کی کہ ممبئی سینٹرل کنٹرول روم کو مطلع کیا جائے۔ کنٹرول روم کے اہلکاروں نے بھی کہا کہ چیتن سنگھ کو اپنی ڈیوٹی پوری کرنی چاہیے اور پھر ممبئی میں اتر کر اپنا علاج کرانا چاہیے۔
ریلوے پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ اے ایس آئی مینا نے چیتن سنگھ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ مان نہیں رہا تھا۔ مسٹر اچاریہ نے کہا کہ مسٹر مینا نے ان سے چیتن سنگھ کے لئے کولڈ ڈرنک لانے کو کہا، لیکن چیتن نے وہ نہیں پیا۔
“اے ایس آئی مینا نے پھر مجھ سے کہا کہ چیتن سنگھ کی رائفل لے لو اور اسے آرام کرنے دو۔ چنانچہ میں اسے B4 کوچ کے پاس لے گیا اور اسے ایک خالی سیٹ پر لیٹنے کو کہا اور اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا لیکن چیتن سنگھ زیادہ دیر تک سو نہیں پایا۔ تقریباً 10 منٹ بعد وہ اپنی رائفل مانگنے لگا۔ میں نے انکار کر دیا اور اسے آرام کرنے کو کہا۔
وہ غصے میں آگیا اور میرا گلا دبانے کی کوشش کی۔ میں بے بس ہو گیا اور وہ (چیتن سنگھ) میرے ہاتھ سے رائفل چھین کر واپس چلا گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ اس نے غلطی سے میری رائفل لے لی تھی۔
گھنشیام آچاریہ نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ انہوں نے فوری طور پر اپنے اعلیٰ افسران کو آگاہ کیا۔ اس کے فوراً بعد وہ اے ایس آئی ٹیکارام مینا کے پاس گئے اور انہیں ہتھیار بدل جانے کی بات بتائی جس پر چیتن سنگھ نے میرا ہتھیار واپس کر دیا اور اپنا لے لیا۔
اس وقت اس کا چہرہ غصے سے بھبھک رہا تھا۔ اے ایس آئی مینا اسے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ بحث کر رہا تھے۔ وہ ہماری بات نہیں سن رہا تھا۔ اس لئے میں اس جگہ سے دوسری جگہ چلا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں واپس جا رہا تھا تو دیکھا کہ چیتن سنگھ اپنی رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹارہا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ فائرنگ کرنے کے موڈ میں ہے۔ میں نے فوری اے ایس آئی مینا کو بتایا اور انہوں نے چیتن سنگھ کو پرسکون ہوجانے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد میں (گھنشیام اچاریہ) واپس چلے گئے۔
اچاریہ نے پھر بتایا کہ صبح تقریباً 5.25 بجے ٹرین ویترنا اسٹیشن پہنچی۔ مجھے آر پی ایف کے ایک بیچ میٹ کا فون آیا جس نے مجھے بتایا کہ اے ایس آئی مینا کو گولی مار دی گئی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا کہ ایک کوچ اٹینڈنٹ نے اسے بتایا ہے۔
میں کوچ B5 کی طرف بھاگا۔ کچھ مسافر میری طرف بھاگ رہے تھے۔ وہ خوفزدہ تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ چیتن سنگھ نے اے ایس آئی مینا کو گولی مار دی ہے۔ میں نے کانسٹیبل نریندر پرمار کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا تم ٹھیک ہو۔ اس کے بعد میں نے کنٹرول روم کو بھی آگاہ کیا۔
گھنشیام آچاریہ نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے چیتن سنگھ کو کوچ B1 کے قریب دیکھا۔ اس نے رائفل پکڑی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ غصے سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھے بھی گولی مار سکتا ہے۔ اس لیے میں مڑ گیا۔ تقریباً 10 منٹ بعد کسی نے زنجیر کھینچی۔
میں نے ایک ایپ چیک کی تو پتہ چلا کہ ٹرین میرا روڈ اور دہی سر اسٹیشنوں کے درمیان تھی۔ میں نے کوچ کے دروازے کے پیچھے سے جھانکا اور چیتن سنگھ کو دیکھا۔ وہ بندوق پکڑے ہوئے تھا اور پھر ایک بار گولی چلانے کے لئے تیار نظر آرہا تھا۔
گھنشیام آچاریہ نے پولیس کو بتایا کہ انہوں نے مسافروں سے کھڑکیاں بند کرنے اور اپنے سر نیچے کرنے کو کہا۔ مجھے گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں باتھ روم میں چھپ گیا تھا۔ جب میں چند منٹ بعد باہر آیا تو میں نے چیتن سنگھ کو پٹریوں پر چلتے ہوئے دیکھا۔ وہ ابھی تک رائفل پکڑے ہوئے تھا۔ تقریباً 15 منٹ بعد ٹرین دوبارہ شروع ہوئی۔
اچاریہ نے بتایا کہ جب وہ کوچ B5 اور B6 کی طرف بڑھے تو انہوں نے تین مسافروں کو خون میں لت پت دیکھا۔ بوریوالی اسٹیشن پر ریلوے پولیس کے اہلکاروں نے گولی کھانے والوں کو پلیٹ فارم پر لے جانے کے لئے اسٹریچر کا استعمال کیا۔ ان میں سے ایک میری ٹیم کے لیڈر اے ایس آئی مینا بھی تھے۔
گھنشیام اچاریہ نے مزید بتایا کہ چیتن سنگھ نے دہی سر اسٹیشن پر بھاگنے کی کوشش کی لیکن پکڑا گیا۔ اسے حراست میں لے لیا گیا ہے اور اعلیٰ سطحی تحقیقات جاری ہیں۔
ایک سینئر افسر نے کل میڈیا کو بتایا تھا ہے کہ چیتن سنگھ کافی گرم مزاج شخص تھا۔ اس نے اپنا آپا کھو دیا اور اپنے سینئر کو گولی مار دی، پھر جس کو دیکھا اس پر گولی چلا دی۔ آر پی ایف انسپکٹر جنرل (ویسٹرن ریلوے) پروین سنہا نے کل یہ بات کہی تھی۔
اس کہانی کے برعکس سوشیل میڈیا پر وائرل ہورہے ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چیتن سنگھ تین مسلم مسافرین اور اپنے انچارج کو گولی مارنے کے بعد کہتا ہے کہ ہندوستان میں رہنا ہے کہ مودی اور یوگی کہنا ہوگا۔
اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ چیتن سنگھ فرقہ وارانہ ذہنیت کا حامل شخص تھا جو مسلمانوں سے نفرت کرتا تھا۔ مودی کی گندی سیاست اور گودی میڈیا کا روزانہ ہندو مسلم ہندو مسلم کرنا لاکھوں ہندوؤں کو شدت پسند اور انتہا پسند بناچکا ہے۔ ایسے لاکھوں کروڑوں ہندو ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کے خواہاں ہیں۔