غالب یاد آتا ہے

[]

ظہیر حسن۔متھرا

غالب کے بارے میں کچھ بولنا، یعنی اپنا منہ کھولنا !

خاکم بدہن،لیکن غالب یاد آتا ہے

الفاظ غالب کے خیالات غالب کے، جذبات غالب کے کیونکہ غالب میں خزینہ لطف و کرم، دفینه درد والم، گنجینه ارض و سما، بلند حوصلگی اور ہم سب کچھ ہے اور بدرجہ کمال ہے۔اس لئے غالب یاد آتا ہے کوئی مہمان میرے گھر آتا ہے، بور یا تلاش کرتا ہوں ، جگر کے ٹکڑے ٹکڑے یک جا کرتا ہوں ، خود اپنے گھر کی دربانی کرتا ہوں ، پھر غالب یاد آتا ہے

 

کہیں عیادت کیلئے جاتا ہوں ، چہرے پر رونق یا تا ہوں تو غالب یاد آتا ہے

غنچه نا شگفتہ کو دور سے دکھا کے وہ فتنہ خو، پری رو مجھے کچھ سمجھائے ہے، میری سمجھ میں کب آئے ہے، وہ خود ہی سے شرمائے ہے نہ کوئی آئے ہے نہ کوئی جائے ہے، اک محشر خیال ہے سہ وشاں ، مہ رخاں ، شوخیاں ، غمزہ و عشوہ و ادا

عنائیاں لن ترانیاں اور تصور وصال

یسی جنت گئی جہنم میں

غالب یاد آتا ہے

رد جب حد سے سوا ہوتا ہے۔ ابن مریم سے بھلا کس کا بھلا ہوتا ہے

گھکڑیاں، بیڑیاں ، ایک بارگراں ، اندوہ وفا کی دلفریبیاں

ش عمر کی بر ہنہ پادوڑ ، خار مغیلاں ، آبلے پاؤں کے

آنکھوں سے خون کی دوندیاں رواں دواں

یا دو شمعیں فروزاں ! ایسا لگتا ہے کہ مشکلیں اب ہو گئیں آساں !

تو غالب یاد آتا ہے؟

کمال آدمی ہے غالب ! ایک بھی نماز پڑھی ہو تو کافر ، ایک دن بھی شراب نہ پی

ہو تو کافر اور ہے مغل بچہ، حریف سے مردانگن عشق ! جانتا ہے حسن مطلق خود بین و خود آراء ہے ، ہر جگہ جلوہ نما ہے، مگر نظر نہیں آتا ، زمانہ خاک چھانتا ہے اُسکی تلاش میں، پھر دیوانہ وارد آپس آتا ہے

جانے کہاں کھو جاتا ہے، تو غالب یاد آتا ہے

ہاں اہل طلب کون سے طعنہ نایافت

دیکھا کہ وہ ملتا ہی نہیں اپنی ہی کو کھو آئے ؟

میں اس کی تلاش میں صحرانوردی کروں، صحرا میں گم ہو جاؤں

یہ میری قسمت کہاں ! ہاں غالب ضرور یاد آتا ہے

عظمت انسان کی بات ہوگی !

رفعت و بلند پروازی کے چرچے ہونگے ، چاند سے پرے، حد ادراک کے اُس پار

دشت امکاں سے لا مکاں تک انسان کی پہنچ ہوگی

یه شب وروز کا تماشہ جو میرے سامنے ہے اس کے پرے کیا ہے، قبلہ قبلہ نما !

تو غالب یاد آتا ہے

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا

عشق پر زور نہیں یا عشق نے نکما کر دیا ، نبرد عشق میں مجروح ہوئے

یا محبت میں مرنے جینے کا فرق ہی پتہ نہ چلا ! عشق وحشت ہے یا مصیبت !

بلبل کا کاروبار ہے یا دماغ کا خلل !

کان پر رکھ کر قلم سوچنا پڑے گا ؟

عشق کی کوئی بھی منزل ہو، کوئی بھی مرحلہ ہو

بہت پہلے غالب وہاں سے گزر چکا ہے!

مذہب کی بات کرتے ہیں، دیر و حرم کے چرچے ہیں ، انواع و اقسام کی داڑھیاں،

سجدوں کے نشاں ، تلک کی دھاریاں، چونے اور شیروانیاں، غالب کے

پاس دو ایک باتیں تھیں کوئی مسائل تصوف نہیں : وہ لے گئے باپو کے بندر !

نہ سنو گر برا کہے کوئی

نہ کہو گر برا کرے کوئی

بخش دو گر خطا کرے کوئی

روک لوگر غلط چلے کوئی

لہذا غالب یاد آئیگا ؛ زمانہ صدیوں تک اسکی داستاں دہرائیگا؛

اور میں ناچیز حقیر، فقیر ظہیر

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

( مرزا اسداللہ خاں غالب کی برسی کے موقع پر خصوصی تحریر)

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *