[]
جرمنی کا شمار ان یورپی ممالک میں ہوتا ہے جو ماضی میں ہمیشہ اس بات کے مخالف رہے کہ اپنے ہاں عام شہریوں کو دوسہری شہریت رکھنے کی عمومی اجازت دے دیں۔
جرمن حکومت کی طرف سے پارلیمان میں پیش کردہ شہریت سے متعلق نئے قانون کی ایوان بالا نے بھی منظوری دے دی ہے۔ اس قانون کے تحت غیر ملکی مقابلتاﹰ جلد جرمن شہریت حاصل کر سکیں گے اور دوہری شہریت رکھنا بھی بالعموم ممکن ہو گا۔وفاقی جرمن پارلیمان کے عوامی نمائندوں پر مشتمل ایوان زیریں یا بندس ٹاگ میں اس حکومتی مسودہ قانون کی منظوری گزشتہ ماہ ہی دے دی گئی تھی۔ اس کے بعد اسے لازمی منظوری کے لیے وفاقی صوبوں کے نمائندہ ایوان بالا یا بنڈس راٹ میں بھیج دیا گیا تھا۔
اس نئے قانون کی، جسے جرمن شہریت سے متعلق ضابطوں کو جدید بنانے والے قانون کا نام دیا گیا ہے، ایوان بالا نے کل شام متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ اب اس قانون کی وفاقی سطح پر گزٹ رجسٹر میں نوٹیفیکیشن کے تین ماہ بعد یہ نیا قانون عملاﹰ نافذ بھی ہو جائے گا۔ امکان ہے کہ ایسا چند ہی ماہ بعد مئی میں ممکن ہو سکے گا تاہم اس کے لیے ابھی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
نئے قانون سے بدلے کا کیا کیا کچھ؟
جرمنی کا شمار ان یورپی ممالک میں ہوتا ہے جو ماضی میں ہمیشہ اس بات کے مخالف رہے کہ اپنے ہاں عام شہریوں کو دوسہری شہریت رکھنے کی عمومی اجازت دے دیں۔ ایسا استثنائی حالات میں تو اب تک ہوتا بھی تھا۔ تاہم یہ استثنا صرف یورپی یونین کے رکن ممالک اور چند دیگر ایسی ریاستوں کے شہریوں کے لیے ممکن تھا، جو اپنے شہریوں کو شہریت چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتیں۔
نئے قانون کے تحت اب یہ عمومی طور پر ممکن ہو گیا ہے کہ جرمن شہری ایک سے زیادہ ممالک کی شہریت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ غیر ملکی بھی جو مثلاﹰ اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں اور جرمنی شہریت حاصل کریں گے، انہیں آئندہ ایسا کرنے کے لیے اپنے آبائی وطن کی شہریت لازمی طور پر ترک نہیں کرنا ہو گی۔
ایک اور بڑی تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ ماضی میں کوئی بھی غیر ملکی جرمنی میں کم از کم آٹھ سال تک قانونی قیام کے بعد شہریت کی درخواست دے سکتا تھا۔ اب ایسا صرف پانچ سال بعد اور مخصوص حالات میں، جب مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے یا سماجی انضمام کے عمل میں بھرپور حصہ لیا جائے، تو کوئی بھی غیر ملکی صرف تین سال تک ملک میں قیام کے بعد بھی جرمن شہریت کی درخواست دے سکے گا۔
شہریت کا حصول مشکل کب ہو گا؟
جرمن پارلیمان کی طرف سے اب حتمی طور پر منظور ہو چکے نئے قانون کے مطابق کسی بھی غیر ملکی کے لیے مقامی شہریت حاصل کرنا اس وقت مشکل ہو گا، جب وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اخراجات زندگی خود برداشت نہ کر سکتا ہو اور اس کا گزارہ زیادہ تر صرف ریاست کی طرف سے ملنے والی سماجی امداد پر ہوتا ہو۔ مزید یہ کہ جرمن شہریت کے حصول کے خواہش منڈ کسی بھی غیر ملکی کی درخواست اس صورت میں مسترد کر دی جائے گی جب وہ جرمنی کے بنیادی جمہوری نظام اور جرمن سماجی اقدار کی نفی کرنے والی سوچ کا حامل ہو۔
ہر امیدوار کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ کسی بھی قسم کی سامیت دشمنی، نفرت انگیز رویوں یا امتیازی سلوک کا حامی نہ ہو اور جرمن تاریخ کے تناظر میں یہ بھی تسلیم کرتا ہو کہ خاص طور پر اسرائیل کے حوالے سے جرمنی پر ایک تاریخی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ نئے قانون کے تحت جرمنی میں مقیم غیر ملکیوں کے بچوں کو ان کی پیدائش کے ساتھ ہی جرمن شہریت اسی وقت مل سکے گی، جب ان کے والدین میں سے کوئی ایک کم از کم پانچ سال تک ملک میں قانونی طور پر مقیم رہا ہو۔ پہلے یہ مدت آٹھ سال تھی۔
سزا یافتہ غیر ملکیوں کی ملک بدری سے متعلق نیا قانون
جمعہ دو فروری کے روز برلن میں بنڈس راٹ نے اپنے ایک اجلاس میں جن دیگر قانونی مسودوں کی بھی منظوری دے دی، ان میں سے ایک ملک سے غیر ملکی شہریوں کی ملک بدری سے متعلق بھی تھا۔ اس نئے قانون کو غیر ملکیوں کو واپس ان کے آبائی ممالک میں بھیجے جانے سے متعلق ضابطوں میں بہتری کے قانون کا نام دیا گیا ہے۔
یورپی ممالک شہریت کو کیسے منظم کرتے ہیں
اس قانون کے تحت، جرائم کے ارتکاب کے باعث سزا یافتہ غیر ملکیوں، شدید نوعیت کے جرائم کے مرتکب افراد اور اسمگلروں وغیرہ کو آئندہ جرمنی سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے ملک بدر کیا جا سکے گا۔ اب تک مروجہ قانون کے تحت ایسی ملک بدریوں میں طویل دفتری کارروائیوں اور سرخ فیتے کی وجہ سے یا تو بہت تاخیر ہو جاتی ہے یا پھر وہ بہت ہی کم شرح سے عمل میں آتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;