[]
جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے کچھ دنوں پہلے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور افغان حکام سے پاکستان میں پرامن انتخابات کی ضمانت مانگی تھی۔
ایک تاجک طالبان رہنما کی طرف سے پاکستانی ریاست کو دھمکی اور ایک دوسرے غیر معروف گروپ راہ حق کی طرف سے واپڈا کے ملازمین کے اغوا نے پاکستان میں پرامن انتخابات اور سکیورٹی کے حوالے سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔عبدالحمید خراسانی نامی اس عسکریت پسند رہنما نے ایک وڈیومیں دھمکی دی ہے کہ ملا ہیبت اللہ کے حکم پر پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف راہ حق نامی ایک گروپ نے ٹانک کے علاقے سے تین واپڈا کے ملازمین کو اغوا کر لیا ہے۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں نہ صرف پرامن انتخابات کے لیے خطرناک ہیں بلکہ یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی بہت بڑے چیلنجز کھڑے کر سکتی ہیں۔ کئی حلقوں میں ٹی ٹی پی کی پالیسی بھی زیر بحث ہے۔
خراسانی کا یہ بیان سوشل میڈیا پہ بڑے پیمانے پہ شیئر ہوا جس میں اس نے فارسی میں پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے، ”تمہاری کافرانہ اور ظالمانہ حکومت کو جلد ہی ٹی ٹی پی ختم کردے گی۔‘‘خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دھمکی آرمی چیف کے ایک خطاب کا رد عمل تھا جس میں انہوں نے افغانستان کی حکومت پرشدید تنقید کی تھی۔
دوسری طرف راہ حق نے واپڈا کے تین مزدوروں کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں وہ حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اس گروپ کے مطالبات مان لے۔ ان مزدوروں کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب سے ہے۔ دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے انتخابات اور انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ نہ کرنے کا بیان جاری کیا ہے۔
سلامتی کے لیے خطرات
سکیورٹی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتحال پاکستان کی اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ٹی ٹی پی میں ٹھگوں اور مجرموں نے اسلامی شناخت اور شریعت کے نعرے کے پیچھے پناہ لی ہوئی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی بے چینی سے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے: ”ان کی اس کوشش کو پاکستان آرمی نے ناکام بنایا ہے اسی لیے وہ پاکستان آرمی اور پولیس پر حملے کر رہے ہیں تاکہ وہ سرحدی علاقوں سے پسپا ہو کر نکل جائیں۔‘‘
نئے شدت پسند گروپ، بظاہر ٹی ٹی پی کے پیروکار
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ جو نئے گروپ ابھرے ہیں ان کا طریقہ واردات بالکل ٹی ٹی پی کی ہی طرح ہے۔ اس لیے یہ بڑا خطرہ ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں عسکری تنظیموں پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ 2021ء کے بعد بہت سارے چھوٹے موٹے جہادی گروپ نمودار ہوئے ہیں، ”لیکن ان سب کا طریقہ واردات ٹی ٹی پی یا القاعدہ برصغیر کی طرح کا ہے۔ ان میں سے تحریک جہاد پاکستان نے سات بڑے حملے کیے ہیں۔‘‘
معروف پختون دانشور ڈاکٹر فرحت تاج کا کہنا ہے کہ ان سارے جہادی گروپوں کا نظریہ ایک ہی ہے اور یہ مختلف ناموں سے سکیورٹی اہلکاروں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ پاکستان کے اندرونی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں اور جب تک ان سارے گروپوں کو ایک ساتھ ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا اس خطرے سے صحیح طریقے سے نمٹا نہیں جا سکتا۔‘‘
’پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان نظریاتی طور پر ایک‘
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پختون دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ جہادی گروپ پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ پاکستان کے اثاثے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ صرف بیانات کی جنگ ہے اور پاکستان کی سلامتی کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ دراصل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان تینوں نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر محسود کے مطابق پاکستان کی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ساتھ موجودہ نام نہاد کشیدگی اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ خطے میں ایک نئی جنگ ہونے جا رہی ہے: ”جس میں ممکنہ طور پر چینی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔‘‘
کیا پر امن انتخابات ممکن ہیں؟
احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں صرف یہ کہا ہے کہ وہ انتخابات کو ٹارگٹ نہیں کریں گے، ”وہ سکیورٹی اداروں کو ٹارگٹ کریں گے اور انہوں نے اپنے بیان میں عوام سے سکیورٹی اداروں سے دور رہنے کا کہا ہے۔‘‘
فرحت تاج کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کسی بھی بیان پہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، ”ایمل ولی خان، فضل الرحمان اور دوسرے سیاسی رہنماؤں کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے ممکنہ طور پر اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔‘‘
تاہم احسان اللہ ٹیپو کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی سے زیادہ داعش خون خرابہ کر سکتی ہے: ”ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں نے یہ تصدیق کی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ نہیں کریں گے لیکن داعش نے جمیعت علماء اسلام کے امیدواروں اور کارکنان پر حملے کیے ہیں اور وہ مزید حملے کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ”محسن داوڑ اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کو قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کیا گیا ہے، تو کچھ غیر معروف تنظیمیں بھی انتخابات کے دوران سیاست دانوں پر حملے کر سکتی ہیں۔‘‘
ٹی ٹی پی نے بیان کیوں دیا؟
واضح رہے کہ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے کچھ دنوں پہلے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور افغان حکام سے پاکستان میں پرامن انتخابات کی ضمانت مانگی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے یہ بیان غالباﹰ اسی دورے کی وجہ سے دیا ہے۔ تاہم سکیورٹی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ کا کہنا ہے کہ فضل الرحمان کا طالبان پر اتنا اثر و رسوخ نہیں ہے۔ ”ٹی ٹی پی نے ایسا غالباﹰ افغان حکومت کے احترام میں کیا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;