[]
یروشلم: غزہ کی پٹی پراسرائیلی جنگ کے معاملے میں نئی پیش رفت کے طور پر امریکی صدرجو بائیڈن آنے والے دنوں میں ’سی آئی اے‘ کے ڈائریکٹر ولیم برنز کو بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ ثالثی کے ذریعےمعاہدے میں مدد کریں۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈیل میں غزہ میں قید تمام مغویوں کی رہائی اور دونوں فریقین کے درمیان طویل جنگ بندی شامل ہے۔
العربیہ کے مطابق اس معاملے سے واقف حکام کے مطابق ولیم برنز کی بات چیت کے لیے یورپ جانے کی توقع ہے۔ وہ اسرائیلی اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہوں ڈیوڈ برنیا اور عباس کامل اور قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی سے ملاقات کریں گے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرذرائع نے بتایا کہ مذاکرات حساس نوعیت کے ہیں اور اس سے پہلے منصوبہ بند پروگرام کی اطلاع نہیں دی گئی۔
مصراور قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان اہم بات چیت کرنے والے تھے، اور دونوں ممالک نے نومبر میں دشمنی کے ابتدائی خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی میں مدد کی تھی۔
لیکن اسرائیل اور قطرکے درمیان اس وقت سے کشیدگی عروج پر ہے جب وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی ایک آڈیو ریکارڈنگ لیک ہوئی تھی جس میں اسرائیلی اہلکار کو اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ سے گفتگو میں قطر پر تنقید کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یورپ میں برنز کی بات چیت کا انحصار ان کے ہم منصبوں کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے چیف آفیشل بریٹ میک گرک کے کام پر ہوگا، جنہوں نے اس ہفتے قطری دارالحکومت دوحہ اور قاہرہ میں متعلقہ ملاقاتیں کیں۔ .
اسرائیل کی تازہ ترین تجویز میں 100 سے زائد قیدیوں کی بتدریج رہائی کے بدلے 60 دن کے لیے لڑائی بند کرنا شامل ہے جس کا آغاز سویلین خواتین اور بچوں سے ہوگا ہے۔ اس کے بعد سویلین اور فوجی مرد اور ان لوگوں کی باقیات شامل ہیں جو اس دوران مر چکے ہیں۔
اس طرح کے وقفے سے اسرائیل کو حماس کو تباہ کر کے “مکمل فتح” حاصل کرنے کے نیتن یاہو کے عہد کے مطابق دو ماہ کی پرسکون مدت کے بعد لڑائی جاری رکھنے کا موقع ملے گا۔
اسرائیلیوں نے تجویز کیا کہ حماس کے سینیر رہنما غزہ چھوڑنے پر راضی ہو جائیں، لیکن مذاکرات سے واقف ایک اہلکار نے کہا کہ یہ خیال گروپ اور اس کے فوجی رہ نماؤں کے لیے قابل قبول نہیں۔ وہ ملک چھوڑنے کے بجائے وہیں موت قبول کرنے کو تیار ہیں۔
حماس نے اسرائیل کی جانب سے 60 دن کی جنگ بندی کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا اور کہا کہ آئندہ یرغمالیوں کی رہائی میں مستقل جنگ بندی شامل ہونی چاہیے۔ لیکن کئی حکام نے کہا کہ ان اہم نکات پر مذاکرات جاری ہیں۔
ایک سابق مصری جنرل اور دفاعی اہلکار سمیر فراغ نے کہا کہ حماس اور اسرائیل دونوں نے مذاکرات کی میز پر واپس آنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہر کوئی امن چاہتا ہے، فلسطینی، حماس اور اسرائیلی، لیکن ہر کوئی مذاکرات میں جیتنا بھی چاہتا ہے”۔