حیدرآباد سے فرح آباد تک۔دلچسپ مضمون

[]

ڈاکٹر محمد نصیر الدین منشاوی 

استاذ شعبہ اُردو، آرٹس کالج، عثمانیہ یونیورسٹی

اتوار کی ایک خوشگوار صبح تھی کہ ہم اپنے شاگردوں کے ساتھ ڈان ہائی اسکول کے وسیع و عریض صحن میں نیم کے درخت کے نیچے کرسیوں پر براجمان تھے صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے جسم و روح کو فرحت بخش رہی تھیں مشرق سے سورج کی کرنیں سامنے بنی عمارتوں سے ہمیں جھانک جھانک کرسلامی دے رہی تھیں کسی کسی گھر سے مرغ کی آواز کبھی کبھی بلند ہو رہی تھی اور ہم اللہ عزوجل سے اس کا فضل مانگ رہے تھے کیونکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے۔ ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُک مِنْـ فَضْلِکَ ‘‘ ۔ ہمارے سامنے قرآنِ مجید کھلی تھی اور سب شاگرد باری باری تلاوت کررہے تھے اپنا اپنا سبق سنا رہے تھے اور یہی ہر اتوار کا ہمارا معمول ہے کہ ڈان ہائی اسکول میں ہمارا درس تجوید و قرأت رہتا تھا۔ درس سے پہلے کافی کا ایک دور چلتا ہے اور بعد کو چائے اور بسکٹ اور الحمدللہ تمام شاگرد اعلیٰ عہدوں پر اپنی اپنی ملازمتوں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کرآزاد ہو چکے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ بچے کچھے زندگی کے وقت میں زیادہ سے زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت اور تعلیم و تعلم میں کام آئے اور اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ تقریبا تمام ہی شاگرد جامعہ نظامیہ سے سند قرأت۔حاصل کر کے قاری بھی ہو گئے ہیں۔ ڈان ہائی ا سکول اور اس کے ڈائرکٹر جناب فضل الرحمن خرم دونوں ہی ملت کی خدمت کے لیے وقف ہیں…… آئے دن یہاں ملی تعلیمی و تہذیبی پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔

 

قرآن کے صدقے میں دراصل ہمارا یہ درس صرف درس تجوید و قرات ہی نہیں بلکہ ’’ہفتہ ‘‘عید بن گیا ہے۔جس طرح عید کی خوشی کا انتظار رہتا ہے وہیں پر’’ احباب منشاوی‘‘کو ہر اتوار کا انتظار رہتا ہے کہ درس کے بعد ہمارا یہ اجتماع ایک محفل کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں پھر علمی گفتگو کے ساتھ ساتھ دکنی تہذیب و ثقافت پر تبصرے اردو زبان کی بقاء کے منصوبے سیاسی تجزئیے اور پھر کچھ طنز و مزاح اور تفریحات کے منصوبے بنتے ہیں……قدیم دکنی روایات کو بھی یاد کیا جاتا ہے اور نئی نسل کو بھی ان سے آشنا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھرا گلے ہفتے تک ہم تازہ دم رہتے ہیں. آج کی گفتگو میں بھی بہت سارے تبصرے ہوئے حالیہ2023ء کے اسمبلی انتخابات اور ان کے نتائج پر تجزیے کیے گئے اور آخر میں پھر تفریحات کا ذکر چل پڑا کہ تقریباً چھ مہینے، ایک سال میں ایک پروگرام’’ احباب منشاوی‘‘کا تفریح کا ضرور بنتا ہے ہم نے کہا کہ بھائی اس مرتبہ سری سیلم ڈیم کے’’پَوِتْر جَل‘‘کی زیارت کرتے ہیں کہ بچپن میں اسکول کے زمانے میں ٹیچر نے ہمیں ایک چارٹ لانے کی خواہش کی تھی جس پر ہندوستان کے مشہور ڈیموں کی تصاویر تھیں اس وقت پہلی مرتبہ ہم‘‘سری سیلم ڈیم’’سے واقف ہوئے تھے اور دل میں یہ تمنا تھی کہ اسے جا کر دیکھیں۔

 

چنانچہ آج تقریباً چالیس سال بعد ہم نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس مرتبہ بھی شاید اس ڈیم کی حاضری ہمارے مقدر میں نہیں تھی کیونکہ ہمارے شاگرد راشد الہاشمی نے ایک نیا انکشاف کیا اور کہنے لگے سری سیلم ہی کے راستے پر’’فرح آباد‘‘ واقع ہے جہاں کھلے شیر دندناتے پھرتے ہیں، اور حکومت تلنگا نہ نے عوام الناس کو ان سے ملاقات کروانے کا پورا انتظام کر رکھا ہے۔وہ آگے کہنے لگے کہ ایک کھلی جیپ میں آپ کو اس گھنے جنگل میں لے جایا جاتا ہے جہاں شیرآپ کا انتظار کرتے ہیںاور دو گارڈ بھی بندوق کے ساتھ آپ کو دیے جاتے ہیں کہ ناگہانی صورتحال میں اگر شیر آپ سے کچھ زیادہ ہی محبت کرنے کی نیت سے قریب آئے تو یہ بندوق بردار آپ کے محافظوں کا کردار ادا کریں گے اور آپ کو صحیح و سلامت واپس منزل سکون و چین میں پہنچا دیں گے۔راشد صاحب کچھ اس انداز سے یہ کیفیات بیان کر رہے تھے کہ دفعتا ًہم تصور میں جنگل ہی پہنچ گئے یہ تو بھلا ہو چائے کی گرم گرم پیالی کا کہ اس کہ اس کے چرکے نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ابھی ہم درس میں ہیں۔

 

خیر بات آگے بڑھی اور الحمدللہ طے پایا کہ ہم 10 دسمبر 2023ء اتوار کے دن صبح چار بجے ’’میر کارواں‘‘جناب ظاہر الدین فارقی کے مکان خیابان واقع اکبر باغ سے فرح آباد کے لئے رخت سفر باندھ لیں گے۔ان شا ء اللہ۔ دیکھتے دیکھتے ایک ہفتہ گزر گیا اور اب ہم’’خیابان‘‘سے رخت سفر باندھ چکے ہیں۔ہمارا قافلہ دو گاڑیوں ‘‘110’’اور ‘‘Innova’’کار میں سفر کے لیے کمر کس چکا ہے ۔ہم ‘‘110’’کار میں ہیں اور ہمارے ساتھ میر کارواں کے علاوہ شفیع بھائی اور راشد صاحب ہیں، اس کار کو ہم ڈرائیو کریں گے جبکہ دوسری کار‘‘innova ’’ہے جس میں ہمارے فرزند حافظ قاری محمد شعیب شرف الدین کے علاوہ زماں خان صاحب، جاوید صاحب، خواجہ بھائی اور ریاض صاحب ہیںجو‘‘Innova’’ڈرائیو کریں گے۔ ہم نے سفر کی دُعاء پڑھ لی اور چل پڑے۔ راستے میں’’سرکاری پیٹرول پمپ جو کہ چنچل گوڑہ جیل سے متصل‘‘ہے پیٹرول سے ٹانکیاں بھرلیں اور قافلہ آگے بڑھا ارادہ یہ تھا کہ شہر سے باہر نکل کر فجر ادا کریں گے لیکن صبح صادق کی اذانوں نے ہماری رفتار دھیمی کر دی چنانچہ ریاست نگر میں لب سڑک واقع ’’مسجد ظفریہ‘‘ میں ہم نے نماز فجر ادا کی باجماعت اور سیدھے بارکس آئے اور یہاں کی مشہور’’حضرمی ہریس‘‘جو کہ 50 سال سے زائد عرصے سے نہ صرف اہلیان بارکس کی خدمت کر رہی ہے بلکہ شہر کے کونے کونے سے یہاں لوگ عربی ہریس کے مزے لینے آتے ہیں۔اتوار کے دن یہاں جمِّ غفیر ہوتا ہے۔

 

ابھی صبح کا وقت ہے تو ابھی لوگوں کی آمد آمد ہے،یہاں ہریس دو قسم کی ملتی ہے کھاری اور میٹھی۔ کھاری ہریس میں قورمہ اور گھی ملایا جاتا ہے اور دوسری میٹھی…میٹھی میں گھی اور شکر ملائی جاتی ہے جو کہ مردانہ قوت کے لیے بھی بہت مفید ہوتی ہے۔اکثر لوگ یہاں دوستوں کے ساتھ آنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اچھے خاصے لوگ افراد خاندان کے ساتھ بھی آتے ہیں اور گوشے پردے کا خیال کرتے ہوئے کاروں میں ہی بیٹھ کر گرم گرم ہریس سے اپنے جسم میں گرمی پیدا کر کے نکل جاتے ہیں۔ بہرحال یہاں ہمارے پہنچتے ہی’’محمد‘‘نامی نوجوان جو کہ انہی آ ٹھ بھائیوں میں سے ہے جو کہ حضرمی ہریس کہ مالک ہیں پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں حافظ صاحب کیا حکم ہے؟   بہرحال ہمارے سفری ذمہ دار شفیع بھائی حسب خواہش کسی کے لیے کھاری اور کسی کے لیے میٹھی اور کسی کے لیے دونوں کا آرڈر کر دیا اور لمحوں میں ہی ہم گرم گرہریس کے ذائقے سے اپنی زبانوں کو مزے دینے لگے۔محمد نے کہا حافظ صاحب ڈ کاشن بول دوں، ڈکاشن کے لفظ سے یاد آیا کہ جب بھی ہمارے گھرڈکاشن بنتی ہے تو ہماری، ہماری پروفیسر بیگم سے جنگ چھڑ جاتی ہے، ہم ٹھیٹ دکنی لہجے میں جب ان سے مطالبہ کرتے کہ ہمیں’’ ڈکاشن‘‘ چاہیے تو ہمیں وہ یوں چڑھی ہوئی بلکہ گری ہوئی نظروں سے دیکھتیں اور کہتیںکہ آپ پڑھے لکھے آدمی بھی ڈکاشن کہتے ہیں دراصل وہ‘‘Decoction’’ڈکاکشن ہے، بھائی ہمیں اس سے کیا کہ ڈکاشن ہے Decoctionہے ہمیں اس کے مزے سے ہے مطلب خیر ہماری بیگم اس سلسلے میں خاندان میں بڑی شہرت رکھتی ہیں کہ ان کے ہاتھ کی لیمو اور پودینے کی ڈکاشن بڑی لذیذ ہوتی ہے اور مہمان آتے ہیں تو خاص ان سے ان کے ہاتھ کی ڈکاشن کی خواہش کرتے ہیں گو یا کہ ’’ضیافت کی مہر ہو‘‘۔

 

ہریس اور ڈکاشن نے ہم سب کو ایک دم فریش اور تازہ دم کر دیا اور ہم نے ٹھیک 7.30 بجے صبح اسٹیرنگ سنبھالی اور اب ہماری منزل فرح آباد ہے اور بارکس سے فرح آباد کا فاصلہ ایک سو باون کلومیٹر ہے جو کار سے تین گھنٹے میں پورا ہوگا۔ہم نے سفر کی دعا پڑھ لی بلکہ فجر سے پہلے صلوۃ السفر بھی پڑھ لی تھی۔ میرے لیے سری سیلم شاہراہ(Sri Silam Highway) بالکل نئی ہے کیونکہ میں اس شاہراہ پر پہلی مرتبہ سفر کر رہا ہوں۔ راستے کی رہنمائی کے لیے گوگل انکل کی خدمات حاصل کر لی گئیں صبح کا وقت ہے تو سڑک تقریبا ًخالی ہے اور وہی سواریاں فراٹے بھرتی گزر رہی ہیں جن کی منزل شہر سے دورہے۔ اتوار کا دن ویسے بھی تو کام کاج والوں کے لیے آرام کا دن ہوتا ہے اس کے اثرات صبح ہی سے شروع ہو چکے ہیں سڑکیں خالی ہیں۔

 

ان شا ء اللہ فرح آباد ہماری منزل ہے اور منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی منزل کا تعارف ہو جائے تو منزل مقصود پر پہنچنے کی جستجو اور تیز ہو جاتی ہے۔فرح آباد کا نام سن کر قارئین یقینا اس تجسس میں پڑ جائیں گے کہ اور آباد شہروں جیسے حیدرآباد، سکندر آباد، نظام آباد، رحمت آباد، احمد آباد، وقار آباد اورنگ آباد، خلد آباد کی طرح فرح آباد کیوں مشہور نہیں؟  آئیے اس کی حقیقت جانتے ہیں:فرح آباددراصل حیدرآباد سے تقریبا 150 کلومیٹر پر سطح سمندر سے 2 ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع ایک تفریحی مقام ہے جس کو نظام ششم میر محبوب علی خان نے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے بنوایا تھا۔ دراصل یہ ان کی شکارگاہ تھی جس کو انہوں نے اپنی زوجہ فرحانہ بیگم کے نام پر فرح آباد رکھا…

 

فرح آباد سری سیلم کے راستے میں پہاڑی علاقے پر واقع ہے یہاں سے سری سیلم تقریبا 60 کلومیٹر پڑتا ہے،فرح آباد تک پہنچنے کے لیے آپکو دو مرتبہ اونچے نیچے اور ٹیڑھے میڑھے پہاڑی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے سڑکیں پختہ بنی ہوئی ہیں۔فرح آباد تلنگانہ کے ڈسٹرکٹ محبوب نگر میں واقع ہے جو کہ امر آباد منڈل میں آتا ہے اور یہاں کی پنچایت منا نور کہلاتی ہے۔ یہ علاقہ نلا ملا کے مشہور گھنے جنگلات کا حصہ ہے جو تقریبا 430 کلومیٹر طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے اور اب یہ آندھرا اور تلنگانہ علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں بہر حال فرح آباد پہنچنے پر ہی اس بات کا پتہ چلے گا کہ جنگل میں شیر کتنے ہیں۔ہم باتیں کرتے کرتے شہر سے باہر نکل گئے اورہماری کاروں نے اپنی رفتار پکڑ لی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں آہستہ آہستہ ایک ایک منزل ختم ہوتی گئی۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں آتے گئے یہ شاہراہ اور شاہراؤں کی طرح ابھی چار رخی نہیں ہوئی ہے بلکہ دو رخی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ دوسری بڑی بڑی شاہراہوں کے درمیان جہاں درخت وغیرہ لگا کر شاہراہوں کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ آنے اور جانے والی سواریوں کے درمیان ایک چوڑی سی خندق نما دیوار بنائی جاتی ہے تاکہ حادثات نہ ہوں ایسی کوئی حد فاصل اس شاہراہ پر نظر نہیں آئی۔شہر سے کچھ دور تک توسڑک چھوٹی ہے درمیان میں کہیں کہیں کوئی جالی وغیرہ نظر آئی ورنہ پوری شاہراہ فرح آباد تک صرف ایک سڑک پر دو رخی ہی ہے یعنی سڑک چھوٹی ہے درمیان میں کوئی حد فاصل نہیں۔

 

جیسے جیسے آگے بڑھتے جا رہے ہیں اطراف و اکناف کا ماحول ہرا بھرا اور جنگلاتی ہوتا جا رہا ہے۔ سڑک کے دونوں جانب چھوٹے بڑے ٹیلے ہرے بھرے اور کچھ بڑے ہوں تو پہاڑ نما، ہمارے احباب ان ٹیلوں کو دیکھ کر پہاڑ کہنے لگے اور ہم بھی انہیں پہاڑ ہی کہتے اگر حال ہی میں کینیڈا کے راکی پہاڑوں کے سلسلے نہ دیکھے ہوتے کہ اُن پہاڑوں کی بلندیاں شروع ہوتی ہی پانچ ہزار سے زائد فیٹ کی بلندی سے، تو اب یہ دو ڈھائی سو فیٹ یا پانچ سو، ہزار فیٹ کے پہاڑوں کی بلندی ہمیں کیا خاک بلندی نظر آئے گی خیر یہ سب قدرت کی تقسیم ہے۔ حیدرآباد سے فرح آباد تک جو مشہور گاؤں آنے والے تھے ہمارے شاگرد شفیع بھائی نے بتائے تو وہ یہ ہیں، شہر کے بالکل آخری سرے پر پہاڑی شریف، کڑتال، آمنگل، کلوا کرتی، اچم پیٹ،دیورکنڈہ وغیرہ وغیرہ،یہ وہ نام ہیں جو ہم بچپن سے کسی نہ کسی قریبی رشتہ دار یا محلے دار سے سنتے آئے ہیں اور آج یہاں سے گزر کر ان شاء اللہ فرح آباد پہنچنا ہے۔ دوسرے مقامات کی تاریخ کیا ہے ہمیں اس کی جستجو کیوں کر ہو؟ البتہ پہاڑی شریف کے نام نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی اور ہم تاریخ کے پنوں میں پہاڑی شریف کو یوں تلاش کرنے لگے اور وہ ہمیں اس طرح نظرآنے لگی۔

 

پہاڑی شریف کا علاقہ اس وقت سے آباد ہے جبکہ حیدرآباد شہر کی بنیاد رکھنے کے لیے ابھی چارسو سال باقی تھے،بانی شہر محمد قلی قطب شاہ کو چھوڑیئے ان کے آبا و اجداد کا بھی کوئی ا تہ پتہ نہیں تھا۔ اس وقت ایک عراقی صوفی بزرگ بابا شرف الدینؒ حیدرآباد تشریف لائے تھے اور اسی پہاڑی پر فروکش ہو گئے جب سے اس پہاڑی کو ان سے منسوب کرتے ہوئے پہاڑی شریف کہا جاتا رہا ہے۔ بابا شرف الدین ؒ کا نام اُن کے والد سید محمود بن سید احمد نے سید عارف رکھا تھا لیکن بعد کو آپ کے پیر و مرشد ہوئے شہاب الدین سہروردی نے آپ کا نام شرف الدین رکھا آپ شہر بغداد کے مشہور دریائے دجلہ کے ایک جزیرے’’ بنی عمر‘‘میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی بعد ازاں اس وقت کے مشہور بزرگ شہاب الدین سہروردی ؒ کی شاگردی کا شرف حاصل کیا اور ان ہی کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے۔ملک بھر میں نو سال سفر کرنے کے بعد1229 ؁ء میں وہ دکن آ گئے اور چار مینارسے تقریبا12کلومیٹر مغرب میں ایک پہاڑی پرنو سال کی طویل مدت تک وہ مراقبے میں وقت گزارا کرتے اور اپنی مشہور کتاب’’ شمس العارفین‘‘جو دراصل’’سبحان الذی اسرا‘‘کی تفسیر ہے اسکی اور دیگر کتابوں کی تصنیف کرتے۔ آپ نہایت خوش اخلاق اور سادہ مزاج تھے غریب پرور اور ایثار پسند۔اکثر خود بھوکے رہتے مگر غریبوں کو کھلاتے اور ہمسایوں کا ضرور خیال کرتے۔

 

سلطان العارفین آ پ کا لقب تھا۔ آپ نے ہندوستان میں سلسلہ سہروردی کے جڑوں کو خوب مضبوط کیا اشاعت اسلام کا آپ کو بے پناہ شوق تھا آپ کی تقریر ہوتی توسامعین پر سکوت کا عالم ہوتا غیر مسلم آپ کی مجلس میں بیٹھتے تو کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہو جاتے آپ کی تقریروں نے بے شمار فاسقوںاور فاجروں کو متقی و پرہیز گار بنا دیا،ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں معتقدین نے آپ کے دست حق پرست پر ایمان قبول کیا۔ آپ مجرد تھے نکاح نہیں فرمایا تھا اس لیے اپنے حقیقی بھائی حضرت شریف الدین موسی سہروردی کے فرزند حضرت سید فرید الدین سہروردی کو اپنا جانشین بنایا۔95 سال کی عمر میں آپ اس حالت میں اپنے رب سے جا ملے کہ بارگاہ یزدی میں سر بسجود تھے۔ 19 شعبان682؁ھ تاریخ وفات ہے جب کہ دوسرے دن یعنی بتاریخ 20؍ شعبان المعظم 682؁ھ بعد نماز ظہر اسی پہاڑ پر آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

 

تاریخ کے پنوں سے باہر نکلے تو ہم کلوا کرتی بائی پاس روڈ پر پہنچ چکے ہیں ہم نے ڈرائیو کرتے ہوئے سامنے والے سائن بورڈ پر ایک ترچھی لکیر دیکھی جو اشارہ کر رہی تھی کہ(فرح آباد) سری سیلم راستے کیلئے سیدھے مڑجائیے ہم نے اپنے ساتھیوں کو آگاہ بھی کیا کہ ہمیں سیدھا موڑ مڑنا ہے۔ مگر ہمارے ایک شاگرد نے جن کو حضرت گوگل پر اتنا اعتماد ہے جیسے مرید کو مرشد پر ہوتا ہے، اُنہوں نے کہا نہیں صاحب ہم کو سیدھا چلنا ہے ہم نے کار کی ا سٹیرنگ سیدھی ہی رکھی الحمدللہ20 کلومیٹر دور جانے کے بعد جب سائن بورڈ پر اشارہ دیور کنڈہ نظر آیا تو پھر سب کا ماتھا ٹھنکا اور یہ محسوس ہوا کہ ہم راستہ بھٹک گئے ہیں، اور ہم نے کہا کہ بھائی کسی سے پوچھ لیتے ہیں سامنے ایک کسان سر پر گھاس کا گٹھا اُٹھائے جا رہا ہے ہم نے اسے بلایا اور پوچھا کہ کیا سری سیلم کا راستہ یہی ہے اس نے ٹھیٹ گاؤنٹی انداز میں تلنگی میں کہا کہ پیچھے جو موڑ تم چھوڑ آئے ہو وہیں سے اس کا راستہ ہے۔ اللہ اکبر! گوگل پر ایمان لانے کا نتیجہ سامنے ہے؟اسی وقت رک کر کسی سے پوچھ لیتے تو نہ وقت ضائع ہوتا اور نہ توانائی نہ پیٹرول نہ پیسہ! خیر جو ہونا ہے وہ ہو کر رہتا ہے اس بوڑھے کسان نے پھر سمجھایا کہ یہاں سے کچھ دور جانے کے بعد دائیں موڑ لینا پھر آپ سری سیلم شاہرا ہ پہنچ جاؤ گے۔اور کیا سنائیں کتنے راستے بھٹکے کتنی مرتبہ کار پلٹائی خدا خدا کر کے تقریبا 10 کلومیٹر سے زیادہ کا راستہ کچے راستوں اور چھوٹے چھوٹے گاؤں سے گزر کر شاہراہ سیری سیلم نظر آئی جان میں جان آئی اور پھر ہم نے اپنی کاریں اسی شاہرا پر ڈال دیں اور پندرہ بیس منٹ بعد ہم اب’’امرآباد تحفظ شیر‘‘(Amarabad Tiger Reserve) کے سامنے کھڑ ے ہیں۔سڑک کی بائیں جانب ایک شاندار ہوٹل ہے’’مرگوانی‘‘(Murgavani) ، سوچا چلو کھانا کھاتے چلیں گے لیکن ہم سے پہلے گاڑی والے ٹکٹ لے چکے ہیں لہذا ہم نے بھی ٹکٹ لے لیا فی کار پچاس روپے ا ور ہم ان کی اتباع میں چلنے لگے۔’’ تحفظ شیر‘‘ باب داخلے کی جو کمان ہے جس پر’’ Amarabad Tiger Reserve ‘‘لکھا ہوا ہے اور اس پرشیر اس انداز سے کھڑے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ کہیں غرا کر ہم پر ہی کود نہ جائیں۔تقریبا 50 کلومیٹر سے زیادہ ڈرائیو کرنے کے بعد شاہراہ سری سیلم سے ہٹ کر ایک راستہ اندر جاتا دکھائی دیا کچھ کاریں اور کچھ لوگ بھی یہاں ہیں اور سائن بورڈ س پر شیر کی تصاویر ہم سمجھ گئے کہ یہی ہماری منزل مقصود ہے سب کار سے اتر گئے گیٹ میں داخل ہوہی رہے ہیں کہ گیٹ کے بائیں جانب ایک اونچے چبوترے پر حیرت ناک منظر ہے کہ ایک شیر لحیم شحم اس ہئیت سے بیٹھا ہے کہ ہر آنے جانے والے کا جائزہ لے رہا ہو اور اس پر بندر بڑی ہی بے باکی سے ناچ کود رہے ہیں واہ رے بندر بہت خوب۔ قریب جا کر دیکھا تو یہ اصلی شیر نہیں شیر کا مجسمہ ہے خیر اصلی شیر دیکھنے میں اب بہت ہی کم وقت رہ گیا ہے ہم گیٹ کے اندر داخل ہو گئے بائیں جانب ٹکٹ حاصل کرنے کا کمرہ ہے اور اس سے کچھ دور سات سیٹوں والی اوپن جیپ کھڑی ہے۔ شفیع بھائی نے ہمیں آ کر اطلاع دی کہ سات آدمیوںکہ دو ہزار روپے یعنی اگر ایک آدمی بھی ہو تو اسے بھی دو ہزار دینے ہوں گے اکثر لوگ دو چار کی تعداد میں آتے ہیں وہ اور سیاحوں کا انتظار کر کے اس رقم کو آ پس میں تقسیم کر کے سات کا کر لیتے ہیں اور پھر جاتے ہیں شیروں کو دیکھنے۔پوچھنے پر یہاں کے’’ سیاحی رہنما ‘‘نے بتایا کہ شیر کی نظر آنے کے امکانات ایک فیصد ہیں۔ اس نے پھر کہا آپ کی خوش نصیبی پر منحصر ہے قسمت اچھی رہی تو شیر نظر بھی ا ٓجائے گا اور قسمت اور اچھی رہی تو ان شاء اللہ ہم واپس بھی صحیح سلامت آ جائیں گے۔ہمارے ایک شاگرد خواجہ بھائی نے اس بات سے اختلاف کیا کہ جب شیر نظر آتے ہی نہیں تو دو ہزار کیا جنگل کو دیکھنے کے دیں گے جبکہ راستہ تمام جنگل ہی دیکھتے آرہے ہیں کچھ اور احباب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور ہم چپ ساد ھ رہے۔ ہمارا یہ وطیرہ ہے کہ ہر اختلافی مسئلے پر ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ان تمام باتوں کو سن کر میر کارواں جناب ظاہر الدین فاروقی نے کہا کہ جب اتنی دور ا ٓہی گئے ہیں تو رسک لے ہی لیتے ہیں چنانچہ دو ہزار روپے کا ٹکٹ خرید لیا گیا سات آدمیوں کے لیے مگر شفیع بھائی کی کارگزاری نے دو ہزار روپوں میں نو آدمیوں کی جگہ نکال لی ویسے بھی شفیع بھائی بڑے کام کے آدمی ہیں بالخصوص سفر میں.. لمبا سفر تھا تو ضروریات سے فارغ بھی ہو لیا گیا جنہیں حاجت تھی یہاں ایک حمام خانہ بنا ہوا ہے۔ یہ ضروری ہوتا ہے بچے ہوتے ہیں بڑے ہوتے ہیں خواتین ہوتی ہیں اور ہم نے یہ حال ہی میں دیکھا کہ کینیڈا میں تو ہر تفریح گاہ کے ساتھ صاف و شفاف بڑے بڑے حمام خانے Toilets بنے ہوتے ہیں اور ہر گھنٹہ دو گھنٹے میں فینائل وغیرہ کے کیمیکل سے صفائی ہوتی رہتی ہے۔

 

اب سب اس کھلی جیپ میں بیٹھ گئے اور سواری کی دعاء پڑھ لی اور بعض نے تو شیر سے حفاظت کی بھی دعا پڑھ لی ہوگی اگر انہیں یاد ہو ہمیں تو یاد نہیں ہے ہمیں تو بچپن میں طہارت خانہ جاتے وقت خبیث شیاطین سے حفاظت کی دعا سکھائی گئی تھی اور اگر ہم کو شیر سے حفاظت کے لیے کوئی دعا پڑھنا تھا تو اسی دعا میں ترمیم کے ساتھ یہ دعا پڑھتے ۔اے اللہ شیراور شیروں سے ہماری حفاظت فرما ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں۔یا اللہ جنگل میں ایک شیر کو دیکھنے کے لیے کیا کیا جتن کیے جا رہے ہیں۔ اب ہماری جیپ دس کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے لگی اور سب کی نگاہیں گھنے درختوں کے تنوں میں جا گھسیں کہ کہیں نہ کہیں سے شیر کے دیدار ہو جائیں کچھ نظریں اِدھرکچھ اُدھر دل میں کبھی خوشی کبھی غم۔ شیر نظر ا ٓجائے اور چلا جائے تو خوش اور اگر نظر بھی ا ٓجائے اور ہم سے گلے بھی ملنے کی ضد کرے تو پھر یہاں سے وہاں تک غم ہی غم۔ دفعتاً نرسمہا جو ہمارا سیاحی رہنما بھی ہے اور ڈ رائیور بھی اس نے یکدم بریک لگایا اور ایک طرف اشارہ کرنے لگا اور تیلوگو زبان میں کہنے لگا کہ‘‘ اکڑ سوڈ و’’ہم سب چونک گئے کیا شیر نظر آگیا سب دور جھاڑیوں میں دیکھنے لگے پھر وہ ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوا صاحب یہ درخت جس کی چھال پر خوبصورت چوکور چھوٹے چھوٹے ڈبے نظر آرہے ہیں اس کو‘‘ درختِ مگر مچھ’’Crocodile Tree‘‘کہتے ہیں وہ آگے چلتا جا رہا تھا اور ہمیں جگہ جگہ روک کر مختلف درختوں کے فضائل بیان کر رہا تھا جب تین سے چار مرتبہ ایسا ہو گیا تو ہم میں سے کسی نے ٹھیٹ دکنی انداز میں کہا، کیارے باوا شیراں دکھاتا ہوں بول کو جھاڑاں دکھا را، اس جملے پر ہم سب ہنس پڑے۔پھر کچھ دور آگے جا کر بائیں جانب اس نے ایک کھنڈر کی طرف اشارہ کیا جہاں کچھ باقیات عمارتوں کی نظر آئیں اور وہاں سائن بورڈ پر انگریزی میں لکھا ہے SHIKARGAH اب نرسمہا نے ایک تاریخ دان کی کمان سنبھال لی اور ہم سے کہنے لگا تیلوگو زبان میں اور ہم اچھی خاصی تیلنگی سمجھ لیتے ہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتے ہیں یہ ابا جان کی طرف سے ورثے میں ملی میٹھی زبان ہے۔کہ ابا جان تلنگی ہی کے استاد تھے۔اس نے کہا دراصل ڈیڑھ سو سال پہلے نظام ششم میر محبوب علی خان نے اپنی بیگم فرحانہ بیگم کے نام پر یہ شکار گاہ (فرح آباد) تعمیر کروائی تھی اور انہی کے نام پر اس علاقے کا نام فرح آباد رکھا ایک اور روایت اس نے بیان کی کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرحانہ دراصل ان کی ایک پالتو شیرنی تھی جس سے وہ بہت محبت کرتے تھے اسی لیے اس کے نام پر اس جگہ کا نام فرح آباد رکھا۔بات کچھ بھی ہو دراصل بات یہ ہے کہ اس گئے گزرے زمانے میں جب کہ مال برداری کے لیے صرف بیل یا اس قسم کے دوسرے جانور میسر تھے کس طرح اِن اونچے اونچے پہاڑوں کے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے یہ تعمیری سامان یہاں پہنچایاگیاہوگا۔نہ پیٹرول نہ ڈیزل نہ راستے پختہ نہ پختہ سڑکیں پھر اس گھنے جنگل میں روشنیوں کا کوئی انتظام نہیں،خون خوار درندوں کا ڈر ہمیشہ سر پر۔ اللہ اکبر…عقل دنگ رہ جاتی ہے یہاں کے ایک قدیم مسلمان باشندے جن کے باپ دادا یہیں کے رہنے والے تھے بلکہ ان کے والد تو نظام ہشتم میر برکت علی خان کے ساتھ شکار پر بھی جایا کرتے تھے اُنہوں نے بتایا کہ ان کے والد ان سے کہا کرتے تھے کہ حیدرآباد سے ایک لاری نما گاڑی آتی جو ایندھن(کوئلے) سے چلتی تھی اس طرح دو تھیلے کوئلے حیدرآباد سے فرح آباد تک لگتے اور دو تھیلے فرح آباد سے حیدرآباد تک۔ ہمارے نوابوں نے اتنی مصیبتیں ضرور اُٹھائیں لیکن مجال ہے کہ ان کے شوق میں ذرّہ برابر بھی کمی آئی ہو۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت اس علاقے میں چار شاندار تعمیرات ہوئی تھیں ایک فرح آ باد کا ڈاک بنگلہ جو ہمارے سامنے اپنی اجڑی داستان سنا رہا تھا تو دوسری تعمیر مننا نور کے ڈاک بنگلے کی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں عمارتوں کونکسلائیٹس نے بارود سے ڈھیر کر دیا تیسری عمارت جامع مسجد مننا نور ہے اور چوتھی عمارت کوتوالی یعنی پولیس اسٹیشن۔یہاں اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد نرسمہا آگے بڑھا ہم دیکھتے کیا ہیں کہ دیمک نے اس گھنے جنگل میں جگہ جگہ ایسے شاندار برج اور ٹاور مٹی کے بنا رکھے ہیں کہ ان کے سامنے برج خلیفہ اور ایفل ٹاور بھی ماند پڑ جائے پورے قلعے کے قلعے ہیں۔ نرسمہا سے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جب ریچھ رات میںآتا ہے تو ان عمارتوں کو تہس نہس کر دیتا ہے جو دیمک نے بنائے اور ان عمارتوں کی بنیاد میں جو دیمک کے خاندان کے خاندان معہ اپنے سسرال کے رہتے ہیں ان کو کھا جاتا ہے۔ پھر سانپ ماموں یہاں بسیرا کرتے ہیں۔ نرسمہا سانولا سا اچھے ناک نقشے والا اور ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر لیے یہ داستانیں راستہ بھر سناتا رہا بتاتا رہا ہم بھی شیر کو بھول کر اسے دیکھتے اور سنتے رہے۔ مگر ایک بات قابل لحاظ ہے کہ جب جیپ چلنا شروع ہوئی تو جنگل کی ہوا کی خوشبو اور ٹھنڈک دونوں ہی اتنے فرحت بخش ہیں کہ دل تمنا کرنے لگا کاش نرسمہا ہمیں اسی طرح میلوں میل کہانیاں سناتے لے جاتا رہے اور ہم چلتے ہی رہیں یقین جانئے ایسی سلامتی والی ٹھنڈی ہوا ہم نے کینیڈا میں بھی محسوس نہیں کی۔  نو کلومیٹر جانے کے بعد نرسمہانے ایک طرف جیپ روک دی اور یہ اونچی جگہ ہے یعنی فرح آباد کا آخری کونہ اس کے بعد نیچے بہت بڑی کھائی ہے تقریبا ہزار فٹ تو ہوگی اور پھر پیچھے نلا ملا کے گھنے جنگلات دور تالاب بھی دکھائی دیتا ہے یہ وہ مقام ہے جسے فرح آباد ویو پوائنٹ کہتے ہیں ہر طرف سناٹا اور بالکل خاموشی ہے نہ پرند نظر آرہا ہے نہ چرند۔ حیرت تو یہ ہے کہ اتنے گھنے جنگل میں ایک پرندہ بھی ہم نے نہیں دیکھا تو کہیں سے آواز آئی نئی صاحب آج اتوار ہے نا سب چھٹی پر ہیں۔

 

یہاں موقع اور ماحول کے اعتبار سے قرآنی آیات کی تلاوت بھی ہوئی کچھ تصویریں لوگوں نے لیں کچھ یادیں ہم نے دل و دماغ میں محفوظ کیں اب بیان کرنے کے لیے کچھ اور تو تھا نہیں چنانچہ آداب روانگی بیان کر دیے گئے اور ہم ’’فاتح شیر‘‘ کی طرح سینہ تانے گاڑی میں بیٹھ گئے گویا کہ ہم نے شیر کا شکار کر لیا ہو؟ واپسی پر ہم نے نرسمہا سے سوال کیا’’ میاں یہ فرح آباد‘‘کی بستی نظر نہیں آئی تو اس نے کچھ دور جانے کے بعد کچھ جھونپڑیاں دکھائیں کچھ کچے مکانات بس دو چار ہی ہوں گے یا کچھ زیادہ اور کہنے لگا اب یہاں آدی واسی یعنی قبائلی لوگ رہتے ہیں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ‘‘خیالی شیروں’’ کے ساتھ گزارنے کے بعد ہم واپس باب الداخلے پر پہنچ گئے، 2ہزار فیس تو پہلے ہی ادا کی جا چکی تھی اب شفیع بھائی نے نرسہما کو سوروپے کی سلامی بھی دے دی کہ اس نے ہم کو شیروں کے جنگل سے سلامتی کے ساتھ نکال لایا تھا۔ ظہر کا وقت گزرتا جا رہا تھا اور وہ سفر کا بھی کیا مزہ آئے جس میں رب کائنات کی یاد نہ ہو اس کا ذکر نہ ہو اس کی مخلوق میں غور و فکر نہ ہو۔ چنانچہ ریاض بھائی کی نشاندہی پر آگے سری سیلم شاہر اہ پر چھ کلو میٹر دور ایک مسجد چھوٹی سی تین کمان والی صحن چھوٹا سا جس پر از بسطا س کے شیٹ پڑے ہیں ایک عدد مینار’’جامع مسجد وتورلا پلی ‘‘مسجد کی شمالی دیوار پر اردو، انگریزی اور تیلوگو تینوں زبانوں میں مسجد کا نام لکھا ہے اور اس سمت میں ایک چیز دیکھ کر ہم کو حیرت ہوئی کہ اس شمالی دیوار پر یہ جملہ لکھا ہوا ہے’’ LADIES NO ENTRY‘‘شبہ یہ ہے کہ شاید اطراف واکنا ف کے کھانے پینے کی ہوٹلیں ہیں تو عام طور پر منہ ہاتھ دھونے کے لیے مردو خواتین لب سڑک مساجد کا رخ کرتی ہیں اور احتیاط نہیں کرتیں تو مسجد کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے یہ جملہ لکھ دیا گیا ہو۔ بہرحال سب نے وضو کیا حافظ قاری محمد شعیب شرف الدین نے امامت کی دو رکعت قصر.. نماز سے فارغ ہوتے ہی بھوک نے اپنے دہانے کھول دیے چنانچہ طے پاپا کی امر آباد کے باب الداخلے پر ایک اچھی اور بڑی ہوٹل مرگوانی’’Murgavani‘‘ہے جو ہم چھوڑ آئے تھے ،جہاں اکثر سیاح دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے ہیں آدھا گھنٹہ سفر کرنے کے بعد ہم ریسٹورنٹ پہنچ گئے کاریں پار ک کیں منہ ہاتھ دھونے تک احباب کے مشورے سے گرم گرم پھلکے مرغ کا سالن کچھ ترکاری کا سالن فرائیڈ رائس اور سلاد ٹیبل پر سجا بھی دیا گیا اور ہم کھانے بھی لگے۔ صبح سات بجے حلیم کھائی تھی سوچا تھا کہ اب رات میں ہی کھائیں گے مگر شیروں کے خوف نے ہمارے کھانے ہی ہضم کر دیے تھے۔

اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہم شکم سیر ہو گئے۔ یہاں ہوٹل میں حلال حرام کی جانچ ضروری ہے ایک کڑپا کا نوجوان جو ہماری میزبانی کر رہا تھا اس نے بتایا کہ یہاں مٹن بریانی حلال نہیں ہے چنانچہ وہ ختم بھی ہو گئی ہمیں وہ نصیب بھی نہیں ہوئی چلو اچھا ہی ہوا۔ بہرحال اب ہندوستان بھی مغربی ممالک کی طرح مشتبہ ہوتا جا رہا ہے چنانچہ ہر جگہ جہاں بھی ہم کھائیں حلال حرام کی جانچ پڑتال ضرور کر لیں اس سے پہلے کے یہ جانچ پڑتال کا حق بھی ہم سے چھین لیا جائے۔ الامان والحفیظ۔

ظہرانے سے فارغ ہو کر ہوٹل سے باہر آتے وقت ہم نے اس خیال سے کہ تفریح کی یہ بہترین جگہ ہے اور کبھی خاندان کے ساتھ آئیں اور ایک دو دن رہ سکیں تو کمرہ کا کرایہ کیا ہوگا، کاؤنٹر پر رکھے ٹیرف کارڈ پر نظر ڈالی تو ہماری انکھیں پتھرا گئیں چکر آنے لگا خود کو سنبھالا اور پھر دیکھا کہ کیا ہم صحیح دیکھ رہے ہیں جی ہاں ہم بالکل درست دیکھ رہے تھے ایک کمرے کا ایک دن کا کرایہ(تین ہزار سات سو روپیہ اور اگر اے۔ سی۔ ہو تو ساڑھے پانچ ہزار روپے)۔اللہ اکبر۔ہم نے ملک کی سینکڑوں ہوٹلوں میں ملک کی شب بسری کی ہے

 

اور پھر دلی جیسے مہنگے علاقوں میں بھی اوسطاً ایک کمرے کا کرایہ دوہزار روپے ہوتا ہے اس قدر مہنگا کرایہ ، معلوم کرنے پر پتہ چلا دراصل آگے امر آباد ٹول گیٹ ہے جہاں سے’’ شیروں کی سرحد شروع ہو جاتی ہے ‘‘تو حکومت کا قاعدہ یہ ہے کہ رات نو بجے سے صبح چھ بجے تک کسی بھی سواری کو یہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے تو مجبورا ًجو سیاح سری سیلم جاتے ہیں، وہ یہیں رک جاتے ہیں اور صبح سفر کرتے ہیں چنانچہ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر ہوٹل کے مالک نے قیمتیں بڑھا کر رکھی ہیں کہ جھک مار کر کمرہ لیا جائے یا جنگل میں رات گزاری جائے۔ سلام ہو ان مسلم حکمرانوں پر یا دیگر پر جنہوں نے انسانوں بالخصوص مسافروں کی سہولت کے لیے سرائے خانے بنائے جہاں نہ صرف کھانا مفت ہوتا تھا بلکہ رہنا سہنا بھی اور نہانا دھونا بھی مفت۔مسافرین تازہ دم ہو کر دعائیں دیتے ہوئے سرائے خانوں سے نکلتے تھے۔ آج مادیت کے دیو نے انسانیت کا خون چوس کر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا ہے انسان تو ہے مگر اس ڈھانچے کی مانند جو جذبات و احساسات سے بالکل عاری ہو۔

 

نماز عصر کا وقت نکلا جا رہا ہے چنانچہ ہم نے قریب ہی جامع مسجد’’منا نور ‘‘ کا رخ کیا گاؤں کی مساجد کھلی کشادہ ہوادار اور صحن دار ہوتی ہیں جہاں ایک الگ قسم کا سکون محسوس ہوتا ہے چنانچہ اس مسجد کا مرکزی ہال بھی بڑا ہے اور چاروں طرف کافی کشادہ صحن ہے۔ وضو بنایا سب نے نماز عصر ادا کی مسجد کے باب الداخلہ پر قدیم نیم کا درخت ہے اور یہاں بندروں کے غول کے غول ہیں۔ارادہ تھا کہ ہم شام ہونے سے پہلے ڈنڈی پراجیکٹ سے گزر کر آگے جا کر مغرب پڑھیں گے مگر عصر کے بعد کچھ مٹھائی اور کچھ کھا رے کی چاہ نے مغرب اسی مسجد میں ہم سے پڑھوا دی احباب کی خواہش پر شعیب میاں کی قرأت بھی اس مسجد میں ہوئی مقامی احباب بھی محظوظ ہوئے۔ مسجد کی دیوار پر بنائے مسجد کا کتبہ ہے جس پر تعمیری تاریخ درج ہے یکم مارچ 1326ھ یعنی تقریباً ایک سوپچیس سال اس مسجد کو بنا کر ہوئے ہیں یہ وہی مسجد ہے جس کا ہم فرح آباد کے ساتھ بننے والی عمارات میں ذکر کرتے آئے ہیں راستے میں جامع مسجد کلوا کرتی میں عشاء پڑھی، چائے پی اور الحمدللہ رات 11 بجے سب اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ یار زندہ صحبت باقی۔

 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *