[]
ایس. ایم. عارف حسین. اعزازی خادم تعلیمات و شریک معتمد اعلی انجمن. مشیرآباد. حیدرآباد.
رابطہ نمبر: 9985450106
اللہ تعالی نے حضور صلعم کو عالمین کیلیے رحمت بناکر دنیا میں بھیجا ہے. آپ صلعم اللہ کے محبوب ترین بندہ ہیں اور اللہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے سارے بندے بھی حضور صلعم سے محبت کریں. لھذا یہ امر واضح ہوجاتا ہیکہ حضور صلعم کی صفت میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.قرآن :- ” ( اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہیکہ آپ انکے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تند خُو( اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے’ سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور انکے لیے بخشش مانگا کریں اور ( اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں’ پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں’ بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے”.( سورہ آل عمران)
ماں سے محبت:- آپ صلعم چھ سال کے تھے ماں اللہ کو پیاری ہوگئیں. آپ صلعم نے صحابہ کو بتایا کہ میں نماز میں ہوتا اور اگر میری ماں مجھے آواز دیتی تو میں نماز چھوڑکر ماں کے پاس چلاجاتا. اس سے معلوم ہوتا ہیکہ اولاد کیلیے ماں کا کتنا بلند مقام ہے. رضاعی ماں سے محبت: – آپ صلعم کو دائی حلیمہ نے دودھ پلایا. آپ صلعم اپنی رضائی ماں سے بے انتہا محبت کرتے. جب کبھی دائی حلیمہ آپ ص سے ملاقات کیلیے تشریف لاتیں تب آپ ص انکا کھڑے ہوکر استقبال کرتے اور اپنی چادر مبارک پر بٹھاتے. جب وہ رخصت ہوتیں تب انکو تحفے دیتے اور اونٹنی پر بٹھاکر رخصت کرتے اور نگاہوں سے اوجھل ہونے تک انتظار فرماتے.
ازواج سے محبت: – آپ صلعم اپنی بیویوں سے محبت سے پیش آتے یہاں تک کہ گھر کے کاموں میں انکی مدد فرماتے.شوہر کی حیثیت سے ہر بیوی کا باری باری خیال رکھتے. جب تحجد کی نماز کیلیے اٹھتے تب ازواج کی نیند میں خلل کیے بغیر حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے. اسلامی تاریخ بتاتی ہیکہ جب آپ ص کا انتقال ہوا اس وقت آپ ص کا سر مبارک عایشہ رض کے زانوں پر تھا.
رضاعی بہن سے محبت: – آپ صلعم اپنی رضائی بہن سے بے انتہا محبت کرتے تھے. جب کبھی رضائی بہن آپ صلعم سے ملنے آتیں آپ صلعم کھڑے ہوکر استقبال کرتے اور چادر پھیلاکر اس پر بٹھاتے. جب رخصتی کا وقت آتا آپ صلعم وداع کرنیکے لیے بستی کے باہر تشریف لاتے اور نگاھوں سے اوجھل ہونے تک انتظار کرتے. بیٹی کی چاہت: – آپ صلعم اپنی بیٹی فاطمہ رض سے بہت پیار کرتے. جب کبھی فاطمہ رض آپ صلعم کے گھر تشریف لاتیں آپ صلعم کھڑے ہوکر استقبال کرتے اور بیٹی کی پیشانی پر بوسہ لیتے اور اپنی چادر مبارک پر بٹھاتے. جب فاطمہ رخصت ہوتیں گھر کے دروازہ تک آکر رخصت کرتے.
آپ صلعم جب کبھی سفر سے واپس تشریف لاتے پہلے اپنی لخت جگر فاطمہ رض سے ملاقات فرماتے. نواسوں سے محبت: – اسلام کی تاریخ گواہی دیتی ہیکہ آپ صلعم اپنے نواسوں حسن و حسین رض کو بے حد چاہتے. آپ صلعم کی نواسوں سے محبت کا عیاں ثبوت آپ صلعم کے اپنے نواسوں کے ساتھ برتاو سے ملتا ہے. آپ صلعم نماز میں ہوتے اور نواسے آپ صلعم کی پشت پر ہوتے ایسے وقت میں آپ صلعم سجدہ طویل فرماتے یہاں تک کہ بسااوقات آپ صلعم کے پیچھے نماز پڑھنے والے صحابی تشویش میں پڑجاتے کہ آخر اتنا طویل سجدہ کیوں کیا جارہا ہے کہیں خدانخواستہ آپ صلعم کو کچھ ہواتو نہیں.
غلاموں سے انثیت: –
1)آپ صلعم راستہ سے گذررہے تھے آپ ص کی نظر بلال رض پر پڑی جو غلام کی حیثیت سے سخت محنت کررہے تھے جبکہ ان کی طبیعت خراب تھی. آپ صلعم وہاں رکے اور انکے کام میں مدد کی اور یہ عمل تین دن جاری رہا. آپ ص کا یہ عمل بلال رض کو انتنا متاثر کیا کی وہ آپ صلعم کے ساتھ آنا پسند کیے اور ساتھ آگئیے اور اسلام کو قبول کئیے. دنیا گواہ ہیکہ بلال رض آپ ص کے بہت قریب رہے اور وقت کے بااثر موذن کی ذمہداری سنبھالی.
2) زید بن حارث غلام کی حیثیت سے آپ صلعم کے یہاں خدمات انجام دیتے پر آپ صلعم کبھی کام کیلیے سختی نہیں کئیے جسکی گواہی خود زید دیتے ہیں. جب زید کے والدین زید کو آزاد کروانے آے تب زید نے والدین کیساتھ جانے سے انکار کیا اور آپ صلعم کے ساتھ رینیکو پسند کیا. محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ صلعم نے زید کو منہ بولا بیٹا بنالیا اسکی وجہ سے زمانہ انکو زید بن محمد کہنے لگا.
صحابی کی محبت میں آپ ص کا رونا: – آپ صلعم تشریف فرما تھے ایک صحابی نے آکر سنایا کہ فلاں نے چوری کی ہے. اسپر آپ صلعم توجہ نہ دی. پھر انہوں نے دوبارہ ذکر کیا تب بھی آپ صلعم توجہ نہیں دئیے. تیسری مرتبہ ذکر کرنے پر آپ صلعم توجہ دئیے اور حکم دیا کہ شرعی اعتبار سے انکا ہاتھ کاٹ دیں.جب خاطی کا ہاتھ کاٹا جارہا تھا آپ صلعم کی آنکھوں سے آنسوں بہے رہے تھے. اسپر صحاباء پریشان ہوگئیے اور آپ صلعم سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے. آپ صلعم نے کہا کہ میرے امتی کا ھاتھ کاٹا جاے تو میں کیسے برداشت کرسکتا ہوں. یہاں اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ آپ صلعم اپنے امتیوں سے کتنی محبت کرتے تھے.
کچرا پھینکنے والی کی فکر: – جب آپ صلعم راستہ سے گذرتے اس وقت ایک بوڑھیا آپ صلعم پر روزانہ کچرا پھینکتی. ایک دن آپ صلعم پر کچرا نہیں گرا. اسپر آپ صلعم اس بوڑھیا کی خیریت پوچھنے اس تک پہونچے تب وہ بوڑھیا چونک گئی. اس بوڑھیا نے پوچھا کہ آپ کون ہیں تب آپ صلعم نے بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں.اسپر بوڑھیا فوری اسلام کو قبول کیا اور ذکر کیا کہ میرے ذہن میں بد گمانی تھی. واقعی آپ اللہ کے پیغمبر ہو.
امتیوں سے محبت: – ایک دفع جبرئیل علیہ تشریف لاے جو بظاہر رنجیدہ محسوس ہورہے تھے. اسپر آپ صلعم نے اس کی وجہ دریافت کی. جبرئیل علیہ نے بتایاکہ اللہ نے جہنم کا نظارہ کروایا. جہنم میں جہنمی چھ درجات میں تھے. چھٹے درجہ میں منافقین- پانچویں میں مشرکین- چوتھے میں سورج و چاند کی پرستش کرنے والے-تیسرے میں آتش کی پرستش کرنے والے- دوسرے میں یہودی- اور پہلے درجہ میں آپ صلعم کے امتی دیکھے گئیے.اسپر آپ صلعم کافی رنجیدہ ہوگئیے.آپ صلعم نماز سے فارغ ہوکر اپنے حجرہ تشریف لے جاتے اور رو رو کر امت کیلیے دعا کرتے پاے گئیے. یہ عمل تین دن تک جاری رہا اسپر باری باری سے ابوبکر- عمر- علی رض حجرہ میں جاکر آپ صلعم سے بات کرنیکی کوشش کئیے پر آپ صلعم دروازہ نہیں کھولے. تب فاطمہ رض کو جاکر بات کرنیکا مشورہ دیا گیا. جب فاطمہ رض دروازہ کھٹ کھٹائی تو آپ صلعم نے دروازہ کھولا اور اندر آنیکی اجازت دی. فاطمہ رض کے دریافت کرنے پر آپ صلعم نے اپنے امتیوں کا جہنم ہونیکا ذکر کیا اور رو رو کر امتیوں کی بخشش کیلیے اللہ سے گڑگڑاکر دعائیں کیں. یہاں اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ آپ صلعم اپنے امتیوں سے کسقدر محبت کرتے تھے اور انکی فکر میں کتنے آنسوں بہاے ہیں.
یقینا امتیوں پر لازم ہیکہ وہ اپنے ماں باپ- اولاد اپنی جان اور دنیا کی سب سے محبوب شے سے بڑھکر آپ صلعم سے محبت کریں جو انشاء اللہ دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے.اللہ تعالی ہم تمام امتیوں کو آپ صلعم سے سب سے ذیادہ محبت کرنیوالا بناے. آمین.
کیا آج کا انسان بالخصوص مسلمان اپنی ماں – بہن – بیٹی- کو وہ محبت دے پارہا ہے اور کیا پڑوسی اور اپنے ملازم کو اسطرح کی عزت دے رہا ہے جبکہ رحمت العالمین کا ایک ایک عمل انسانیت کیلے عملی سبق ہے اور قیامت تک رہیگا.
زمانہ شاہد ہیکہ “دور جدید” جو علم کے اعتبار سے “ترقی یافتہ” کہلاتا ہے جسکے نتیجہ میں انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے اور “مصنوعی ذہنیت” کے استعمال سے مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کررہا ہے. پر بے انتہا افسوس کہ محبت اور عزت دینے والے عمل سے میلوں دور ہے. آج بھی انسانیت کو اس بات کی ضرورت ہیکہ آپ صلعم کے عملی سبق پر ضرور عمل کرے. تب ہی دنیا میں انسان کو ذہنی و سماجی سکون میسر ہوگا اور اقتدار کے حصول کی حوص میں انسانوں کے درمیان پھیلائی گئی نفرت کی فضاء دور ہوگی اور نہ صرف دنیا میں سکون میسر ہوگا بلکہ آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہوگی.
اللہ تعالی سے دعا ہیکہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے والا بناے. آمین.
طالب دعا: – ایس. ایم. عارف حسین. اعزازی خادم تعلیمات و شریک معتمد اعلی انجمن. مشیرآباد. حیدرآباد.
رابطہ نمبر: 9985450106