[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ ایک دور میں غزہ عرب ممالک کا خوبصورت ترین مقام ہوا کرتا تھا۔ گذشتہ سو سالوں کے دوران غاصبانہ قبضے، جنگ اور زمینی محاصرے نے غزہ کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردی ہے۔ غزہ کی چار ہزار سال پرانی تاریخ ہے۔
غزہ کی خوبصورتی، قدرتی مناظر سے لے کر قابل تعریف استقامت تک
عرب دنیا کے خوبصورت ترین مقام کی حیثیت سے 1659 میں ایک فرانسیسی سیاح نے غزہ کو انتہائی خوبصورت سیاحتی مقام قرار دیا تھا۔ دو صدی بعد دوسرے معروف فرانسیسی سیاح نے غزہ کے سرسبز و شاداب صحراوں کی تعریف اپنے سفرنامے کی زینت بنائی تھی۔ آج صہیونی مظالم کے تحت غزہ سخت ترین ایام سے گزر رہا ہے لیکن یہ بھی اپنے اندر ایک خوبصورت رکھتا ہے جوکہ استقامت اور بہادری سے عبارت ہے۔
غزہ کبھی دشمن کے سامنے نہیں جھکے گا
آج سے پہلے بھی غزہ کے عوام نے دشمن کے کئی مظالم کا مشاہدہ کیا ہے لیکن کبھی ان مظالم کے سامنے ہتھیار ڈال کر غزہ کو نہیں چھوڑا۔ 332 قبل مسیح غزہ آخری شہر تھا جہاں سے اسکندر مقدونی کے حملوں کے خلاف سخت مقاومت کی گئی۔ یہ واقعہ آج بھی غزہ کے عوام کے لئے افسانے کی شکل قابل تقلید نمونہ بناہوا ہے۔ اس جنگ کے دوران فریقین سرنگیں کھود کر اپنے محاذوں کو مستحکم کیا۔ سرانجام سکندر کی فوج کو شدید نقصان ہوا اور سکندر زخمی ہوگئے۔ سکندر نے اس کے انتقام میں غزہ کے معصوم بچوں اور خواتین کاقتل عام کیا۔
غزہ برطانوی استعمار کی سیاسی حکمت عملی کی بھینٹ چڑھ گیا
1906 میں جب مصر کو برطانیہ اور فلسطین عثمانی سے جدا کرنے کے لئے ایک سرحدی لائن کھینچی گئی تو رفح کے درمیان سے بارڈر کو گزارا گیا تاکہ دونوں سلطنتوں کے درمیان ایک تجارتی علاقہ وجود میں آئے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران دونوں سلطنتوں کی فوجیں اس سرحد پر نبرد آزما ہوئیں۔ برطانوی فوج نے تین مرتبہ کوشش کے بعد 1917 میں سلطنت عثمانیہ کو شکست دی۔
جنرل ایڈمن ایلن اس سال نومبر میں غزہ کے تباہ شدہ شہر میں داخل ہوئے اسی دن برطانوی حکومت نے بالفور اعلانیہ کے تحت یہودیوں کے لئے فلسطین میں ایک مملکت کی تشکیل کا اعلان کردیا۔ جس طرح مغربی ایشیا میں آشوب برپا کرنے میں برطانوی استعمار کا مرکزی کردار رہا ہے فلسطین کی موجودہ صورتحال کی بنیاد بھی برطانیہ نے ہی رکھی تھی۔
غزہ فلسطینی قوم پرستی کا ناقابل تسخیر قلعہ
آج فلسطینی قومیت اور شناخت کا مرکز غزہ ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ کی تسلط کے آغاز سے ہی غزہ نے یہ شکل اختیار کرلی ہے۔
صہیونی حکومت نے 1967 کے بعد سے مسلسل کوشش کی تاکہ غاصبانہ قبضے اور محاصرے کے ذریعے غزہ کو کمزور کرے لیکن اب تک اس میں کامیاب نہ ہوسکی ہے۔
غزہ پر 38 سال تک صہیونی حکومت نے قبضہ کررکھا لیکن 2005 میں غزہ سے نکلنے پر مجبور ہوئی۔ اس کے بعد غزہ کے خلاف محاصرہ اور جنگ کا دور شروع ہوا۔ 2008 میں 22 روزہ جنگ ہوئی جس میں 13 صہیونی فوجی ہلاک اور 1417 فلسطینی شہید ہوگئے۔ 2012 میں 8 روزہ جنگ ہوئی جس میں اسرائیل کی طرف سے 6 ہلاکتیں ہوئی جبکہ 166 فلسطینیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ 2014 میں 51 روزہ جنگ مسلط کی گئی جس میں 72 اسرائیلی ہلاک اور 251 فلسطینی شہید ہوگئے۔
2021 میں 11 روزہ جنگ ہوئی جس میں 15 اسرائیلی اور 256 فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موجودہ جنگ میں غزہ کا محاصرہ اور زمینی و فضائی حملے جاری ہیں۔ یہ جنگ اب تک کی سب سے سخت ترین، طویل ترین اور وحشتناک ترین جنگ ہے۔ اس جنگ کے دوران فلسطینی عوام نے اپنی شناخت کھونے کے بجائے مزید مستحکم کردی ہے۔ جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود غزہ اور اپنی قومی شناخت کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔
غزہ دنیا کی تاریخ کا درخشان باب
صہیونی حکومت نے سو دنوں سے زیادہ عرصے سے غزہ میں ظلم و بربریت کا بازار کر رکھا ہے۔ شکاگو یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رابرٹ پاپ نے غزہ کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کا نام درسدن جیسے شہروں کی فہرست میں شامل کیا جائے گا جن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو کچھ غزہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے وہ تاریخ میں ہونے والے مظالم کا 25 فیصد ہے۔ تین مہینہ پہلے غزہ میں چہل پہل تھی لیکن آج وحشت کا راج ہے۔ اسرائیل حماس کو نشانہ بنانے کا دعوی کرتا ہے لیکن بمباری کے نتیجے میں غزہ کی آبادی کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ صہیونی فوجی ترجمان نے اکتوبر میں کہا تھا کہ ہماری توجہ زیادہ نقصان پہنچانے پر ہے۔
صہیونی حکام اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ غزہ کا محاصرہ کرکے سرنڈر کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ غزہ کی جنگ نے دشمن کے ساتھ مذاکرات کی منطق کو کمزور ثابت کردیا ہے اور فلسطینیوں کو یقین دلایا کہ صہیونی جنایتوں کا مقابلہ مقاومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ماضی کی جنگوں کے برعکس موجودہ جنگ میں غزہ میں سرحدی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں دونوں فریقوں کے درمیان مخاصمت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
گذشتہ 18 سالوں کے دوران غزہ کا محاصرہ کرنے کے باوجود فلسطینیوں کو سرنڈر پر مجبور نہیں کیا جاسکا بلکہ غزہ مقاومت کا محور بن چکا ہے اور پوری دنیا کی نظریں اس کی طرف متوجہ ہوگئی ہے گویا غزہ مغربی ایشیا میں صلح اور امن کے قیام کا کلیدی نکتہ ہے۔
1949 میں بن گوریان نے اقوام متحدہ کی امن کانفرنس کے دوران تجویز دی تھی کہ غزہ کو مقبوضہ فلسطین میں شامل کیا جائے لیکن یہ تجویز کبھی قابل عمل ثابت نہ ہوسکی۔
38 سال تک جارحیت کے باوجود صہیونی حکومت غزہ پر قبضہ نہ کرسکی۔ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بناکر انسانی سانحہ برپا کیا گیا۔ آج صہیونی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں غزہ مقاومت کا محور بن چکا ہے۔ غزہ کی نئی نسل آج ہونے والے مظالم کا بدلہ لے کر رہے گی۔