[]
مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)
نئے ہجری سال کی ابتدا مدینہ منورہ کی طرف ہجرتِ نبوی ﷺ سے لے کر اب تک چودہ سو چوالس برس کا عرصہ بیت گیا ہے، اور چودہ سو پینتالس برس شروع ہوچکا ہے۔ محرم الحرام اسلامی تقویم ہجری کا پہلا مہینہ ہے، ہم میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اسلامی تقویم کا علم ہی نہیں، ان سے اسلامی مہینوں کے نام معلوم کرلیں وہ برابر بتا نہیں سکتے۔ حالانکہ ہم مسلمان زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے معاملے میں مستقل ایک کامل نظام و تہذیب کے مالک ہیں، اس لیے ہمیں اپنی زندگی کی راہ و رسم میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھکاری پن اختیار کرنا مسلمان کی مسلمانیت کے خلاف ہے، ہمیں کسی کے در پر جھکنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ہم تو خود ساری دنیا کو تہذیب و شائستگی کے آداب و طریقے سکھانے والے ہیں۔ نئے مہینے کے استقبال کا اسلامی طریقہ ’’نئے سال ‘‘کی ابتدا ہو یا ’’نئے مہینے‘‘ کی شریعت میں جب بھی یہ (نئے سال یا نئے مہینےکا) لفظ بولا جائے گا اس سے مراد اسلامی مہینہ ہی ہوگا، نہ کہ شمسی مہینہ۔ چنانچہ اس مہینے کی ابتدا کا مسنون طریقہ شریعت کی طرف سے صرف یہ سامنے آتا ہے کہ مہینے کے اختتام پر نئے مہینے کے چاند کو دیکھنے کا اہتمام کیا جائے، یہ عمل مسنون ہے۔ اور جب چاند نظر آجائے تو نیا چاند دیکھنے کی دعا بھی پڑھی جائے، یہ بھی مسنون ہے۔ اس مسنون طریقے کو ہی اپنانے میں اور دعاؤں کا اہتمام کرنے میں برکت و فضیلت اور ثواب ہے۔
ہمیں فضول قسم کی رسومات اور خرافات سے بچتے ہوئے اسوہ نبی ﷺ کا اہتمام کرکے سچے مسلمان اور محب النبی ﷺ ہونے کاثبوت دینا چاہیے۔ امام ابن السنیؒ نے مہینہ کی ابتدا کے بارے میں رسول کریم ﷺ کی سنت و عادت شریفہ کا یوں ذکر فرمایا: ’’إن رسول اللہ ﷺ کان إذا رأی الھلالَ قال: ’’اللّٰھم اجعلہ ھلال یمنٍ و برکۃٍ۔‘‘ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنیؒ، ص:۵۹۶، رقم حدیث: ۶۹۴) ترجمہ: بے شک رسول کریم ﷺ جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو یوں دعا مانگتے: اے اللہ! ہمارے لیے اس چاند کو خیر و برکت والا بنادے ۔ ایک دوسری روایت میں اس وقت یہ دعا پڑھنے کا ذکر ہے: أللّٰھم أَھِلَّہٗ علینا بالیُمْنِ والإِیْمَانِ والسَّلامَۃِ والإِسلامِ، ربِّیْ ورَبُّکَ اللّٰہ‘‘۔ (مسند أحمد بن حنبل، مسند أبی محمد طلحہؓ بن عبید اللہؓ، رقم الحدیث: ۱۳۹۷، ج: ۲، ص:۱۷۹) ترجمہ: اے اللہ! اس پہلی رات کے چاند کو امن و سلامتی اور ایمان و اسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔‘‘
ہمیں بھی مہینے کی ابتدا اُسی طرح کرنی چاہیے، جیسا کہ آپ ﷺ کا طریقہ تھا، تاکہ برکتیں اور رحمتیں حاصل ہوں، چہ جائیکہ! ہم رسوم و بدعات سے ہر گز اسلامی سال کی ابتدا نہ کریں۔ جبکہ ہمارے پاس اسوہ و سنت رسول ﷺ موجود ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰوتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم (سورة التوبة: آیت۔ ۳۶) ترجمہ: ”بے شک شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ ہے۔
ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں (ناحق قتل) سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔رسول کریم ﷺ نے ایامِ تشریق میں مقامِ منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو! سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں، ’’رجب المرجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام‘‘۔ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے آپ ﷺ کی بعثت کے بعد اس کے احترام اور عظمت کو اور بھی واضح کردیا۔ اس مہینے میں جنگ و جدال ممنوع قرار پایا۔ محرم الحرام کا مہینہ انہی حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔
عاشوراء‘‘ کا یہ لفظ الف ممدودۂ کے ساتھ ہے۔ ’’عاشورہ‘‘ پڑھنا اور لکھنا جو مروج ہے، درست نہیں ہے۔ (حاشیہ صاوی علی الشرح الھندیہ جلد ۱ صفحہ، ۶۹۱) ماہ محرم کی وجہ تسمیہ: محرم ”حرم“ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عزت واحترام کے ہیں۔ محرم کو ”محرم“ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اہل عرب اس مہینے میں اپنی تلواریں میانوں میں ڈال دیتے تھے اور لوٹ مار قتل و غارت گری سے رک جاتے تھے یہاں تک کہ لوگ اپنے دشمنوں سے بھی خوف ہوجاتے تھے اور اپنے باپ یا بھائی کے قاتل سے ملتے تھے تو اس سے کچھ بھی نہ پوچھتے تھے۔ اور نہ کسی سے لڑائی جھگڑا کرتے تھے گویا زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ محرم کا احترام کرتے تھے، اور اس مہینے میں کسی انسان کے قتل اور جنگ وجدال کو حرام سمجھتے تھے۔ رسول کریم ﷺ کی آمد کے بعد اسلام میں اس ماہ مبارک کی حرمت و عظمت اور زیادہ ہوگئی۔ یوم عاشوراء کی تعین کے بارے میں اہل علم کی تحقیق ہے کہ یوم عاشورہ کی تعیین کے سلسلے میں روایات میں اختلافات پایا جاتا ہے بعض رویات سے ثابت ہوتا ہے کہ عاشوراء محرم کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں۔
اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک اس سے مراد محرم الحرام کی نویں تاریخ ہی ہے۔ پہلی صورت میں یوم کی اضافت گزشتہ رات کی طرف ہوگی۔ اور دوسری صورت میں یوم کی اضافت آئندہ رات کی طرف ہوگی۔ غالبا اس اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے وقت فرمایا کہ یہود دسویں محرم کو عید مناتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں، اس لئے تم نویں یا گیارہویں محرم کو روزہ رکھو اور فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا۔
الحکم بن الأعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباسؓ کے پاس گیا جبکہ وہ زم زم کے پاس اپنی چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے اور میں نے پوچھا کہ مجھے یوم عاشوراء کے بارے میں بتائیے کیوں کہ میں اس کا روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ابن عباسؓ کہنے لگے کہ جب محرم الحرام کا چاند نظر آئے تو دن کی گنتی شروع کردو اور پھر نو تاریخ کی صبح کو روزہ رکھو۔ تو میں نے پوچھا کیا رسول کریم ﷺ بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے؟ حضرت ابن عباسؓ کی روایت کی بنیاد رسول کریم ﷺ کا یہی ارشاد ہے کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نویں محرم کو عاشورہ کا روزہ رکھوں گا۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ نے ایک موقع پر کہا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرتے رہو نویں اور دسویں محرم کو دونوں دن روزہ رکھا کرو۔ یوم عاشورہ کی فضیلت اور اس کے روزے کی اہمیت کے بارے میں متعدد روایات رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں چند روایات کتبِ احادیث سے پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ افضل روزہ محرم کا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھو کیوں کہ اس دن کا روزہ انبیاء کرام رکھا کرتے تھے۔ ایک موقع پر رسول کریم ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا اگر ماہ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہو تو پھر محرم کا روزہ رکھا کرو۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں ایک دن ایسا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے پچھلے لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور اسی دن آئندہ بھی لوگوں کو توبہ قبول فرمائیں گے۔
یوم عاشوراء کے موقع پر لوگوں کو سچی توبہ کی تجدید پر ابھارا کرو اور توبہ کی قبولیت کی امید دلاؤ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس دن پچھلے لوگوں کی توبہ قبول کرچکے ہیں، اسی طرح آنے والوں کی بھی توبہ قبول فرمائیں گے۔ (سنن الترمذی) حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے اور بہت زیادہ فکر کرتے سوائے اس دن یوم عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ مبارک رمضان کے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) بعض احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے یوم عاشورہ کے روزے کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لئے دیا جاتا ہے چنانچہ ایک مرتبہ عاشورہ کے موقع پر آپ ﷺ نے انصار مدینہ کی بستیوں میں بھی یہ اعلان کرا دیا کہ لوگوں میں جس نے روزہ رکھا ہے۔
اسے پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ اسی حال میں دن گزارے اور کچھ نہ کھائیں پئیں بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں۔ اس کے بعد انصار مدینہ کا یہ معمول تھا کہ وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ ان کے بچے بھی روزہ رکھتے تھے۔ بچوں کو مسجد میں لے جاتے انہیں کھلونے دیتے لیکن جب کوئی بچہ بھوک سے روتا تو اسے کھانا بھی کھلا دیا جاتا تھا۔ ان احادیث کی بنا پر بہت سے ائمہ نے یہ سمجھا ہے کہ شروع میں عاشوراء کا روزہ فرض تھا۔ بعد میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزے کی رہ گئی۔ جس کے بارے میں رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کی برکت سے پچھلے ایک سال کے گناہوں کی صفائی ہوجائے گی۔
اور عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوجانے کے بعد بھی رسول ﷺ کا معمول یہی رہا کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ سب سے زیادہ اہتمام نفلی روزوں میں اسی کا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے عاشوراء میں روزے رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ﷺ! اس دن تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کا قومی، ملی اور مذہبی شعار ہے) تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان شاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسول کریم ﷺ دنیا سے پردہ وصال فرماگئے۔ (صحیح مسلم، حدیث:۱۷۹) اب موجودہ زمانہ میں عاشوراء کا روزہ دو یا ایک اس بارے میں، مولانا منظور نعمانیؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’نویں کو روزہ رکھنے کا آپ ﷺ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہوجائے گا۔ اکثر علماء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جاسکے تو اس کے بعد کے دن یعنی گیارہویں کو رکھ لیاجائے۔‘‘
(معارف الحدیث۔ ج، ص،۱۷۱) حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک تنہا دس تاریخ کو روزہ رکھنا مکروہ ہے تاہم مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے یہاں مکروہ نہیں۔ خیال ہوتا ہے کہ چونکہ فی زمانہ یہودیوں کے یہاں قمری کیلینڈر مروج ہے اور نہ اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام ہے، اس لئے نو تاریخ کو روزہ رکھنے کی اصل علت یعنی یہود سے تشبہ اور مماثلت موجود نہیں، لہذا تنہا دس محرم کو روزہ رکھنا بھی ان کے نزدیک کافی ہے۔ واللہ اعلم (بحوالہ قاموس الفقہ جلد۴، لفظ صوم) محرمُ الحرام کا مہینہ نہایت برکتوں اور فضیلتوں والا ہے، اس ماہِ مبارک میں روزہ رکھنے کا بہت زیادہ ثواب ہے۔چنانچہ محرم کے ایک دن کے روزے کا ثواب: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مُحرَّمُ الحرام کے ہر دن کا روزہ دس روزوں کے برابر کا ثواب ہے۔ (المعجم الصغیر۔ ج ۲، ص:۷۱)
حضرت قتادہؓ نے فرمایا: ’’ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔ حضرت ابوقتادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے عاشورہ کے روزہ کی فضلیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’اس سے ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘‘۔ (مسلم: ج۱، ص ۳۶۸) حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قومِ یہود کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ رسول کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا۔ اس پر حضرت موسیٰؑ نے اس دن شکر کا روزہ رکھا پس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔ سو رسول کریم ﷺ نے خود روزہ رکھا اور صحابہؓ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا‘‘۔ (مشکوٰة المصابیح، ص۔۱۸۰)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ چار چیزیں نہ چھوڑا کرتے تھے ان میں سے ایک عاشوراء کا روزہ ہے۔ (صحیح بخاری، مسند احمد، سنن الترمذی) اہل و عیال پر فراخی کی روایت: ایک روایت عوام میں معروف ہے کہ من وسع علی عیالہ فی یوم عاشوراء وسع اللہ علیہ فی سنۃ کلھا۔ جو عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت برتے اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال وسعت میں رکھیں گے۔ اس بنا پر علامہ حصکفیؒ، امام شامیؒ اور صاویؒ وغیرہ نے اس دن بال بچوں پر خرچ کرنے میں فراخی کو مستحب قرار دیا ہے، علامہ حصکفیؒ نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر حدیث کو بھی صحیح قرار دیا ہے، بلکہ خود امام سیوطیؒ نے بھی اس پر ’’صحیح‘‘ کا رمز لگایا ہے۔ یوم عاشوراء یعنی دس محرم کے حوالے سے بہت سی باتیں تاریخی حیثیت سے بھی مشہور ہیں مثلاً یوم عاشوراء کے اہم واقعات: اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی۔ یہی وہ دن ہے جب حضرت ادریس علیہ السلام کو اس روز مقامِ بلند کی طرف اُٹھا لیا۔ یہی دن ہے جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی نامی پہاڑ پر ٹھہری تھی۔ اسی روز حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل بنایا اور انہیں اسی روز نارِ نمرود (آگ) سے محفوظ فرمایا۔
اسی روز حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ اسی روز حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکومت واپس ملی، اسی یومِ عاشوراء کو ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب السلام کی تکلیف کو دور فرمایا، یومِ عاشوراء کے دن ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سلامتی سے سمندر پار کرایا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا، یہی وہ دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطاء فرمائی تھی، اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا تھا۔ اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی اور بنی اسرائیل کے لئے دریا میں راستہ اسی دن بنایا گیا تھا۔ آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش یومِ عاشورہ کو ہی برسی، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ یہودی یوم عاشورہ کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس دن عید مناتے تھے۔
خیبر کے یہودیوں کی عورتیں اس دن عمدہ لباس اور زیور پہنتی تھیں۔ حتیٰ کہ حدیث پاک کے مطابق قیامت بھی اسی دن آئے گی، اسی دن کا روزہ بھی پہلے فرض تھا اللہ کے رسول کریم ﷺ نے ہجرت سے پہلے اسی دن کا روزہ رکھا کرتے، اسی یوم عاشورہ کے دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اور اسی یوم عاشورہ کے دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول ﷺ، جگر گوشہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا میں شہید کیا۔ مفسرین، فقہاء و علماء کرام فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن اگر کسی شخص نے یتیم و مسکین کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے بالوں کی مقدار کے مطابق ثواب عطاء فرمائے گا۔ حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اس حوالے سے بھی بڑے خوش قسمت ہیں کہ ان کو شہادت کے لئے ایک ایسا دن ان کے حصے میں آیا جو تاریخِ عالم میں پہلے ہی سے مقدس اور بابرکت گردانا جاتا تھا۔ قارئین کرام! عاشوراء کی اہمیت و فضیلت اس بات کا متقاضی ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے اور پورے دن کو ذکر الہی میں گزارا جائے، روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے، اس دن زیادہ نیکی اور ثواب کے اعمال خیر کئے جائیں۔ یوم عاشوراء کے مقدس و بابرکت موقع پر یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ اس عظیم دن کو لا پرواہی و فضولیات میں گزار دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو اس دن کی قدر کرنے اور اعمال خیر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭