[]
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
کوزہ گروں کے گھر میں مسرت کہاں سے آئے
مٹی کے برتنوں کا زمانہ نہیں رہا
ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے
یہاں اب کوئلہ چنتے ہیں پھولوں سے بدن والے
پیٹ کی خاطر فٹ پاتھوں پر بیچ رہا ہوں تصویریں
میں کیا جانوں روزہ ہے یا میرا روزہ ٹوٹ گیا
شرم آتی ہے مزدوری بتاتے ہوئے ہم کو
اتنے میں تو بچوں کا غبارہ نہیں ملتا
پیاس کی شدت سے منہ کھولے پرندہ گر پڑا
سیڑھیوں پر ہانپتے اخبار والے کی طرح
جو گھر والوں کی مجبوری کا سودا کر لیا ہم نے
ہمیں زندہ نہ چھوڑیں گے ہماری یونین والے