[]
خورشید عالم داؤد قاسمی
پوری دنیا ان جنگی جرائم اور نسل کشی سے واقف ہے، جو صہیونی ریاست اسرائیل کی قابض فوج 7/ اکتوبر 2023 سے غزہ کی پٹی کے معصوم لوگوں پر فضائی حملے، میزائل اور بم گرا کر کررہی ہے۔ پھر اس نے 27/اکتوبر کو غزہ میں زمینی آپریشن شروع کیا۔ اس حملے کے آغاز سے قابض فوج فلسطینی شہریوں کو اجتماعی سزائیں دے رہی ہے۔ جنگ شروع ہونے سے اب تک 75 سے زیادہ صحافی، اقوام متحدہ کے 136 عملے اور 22835 فلسطینی شہری مارے جا چکے ہیں اور ایک بڑی تعداد میں لوگ ملبے کے نیچے دبے ہیں، جنھیں اب تک نہیں نکالا جا سکا ہے۔ بدقسمتی سے اس مہذب اور جدید دنیا کے کسی بھی ملک نے نیتن یاہو حکومت کو ایسے گھناؤنے جرائم اور نسل کشی سے روکنے کے لیے ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے، سوائے چند ممالک کے جنھوں نے اس کی کھلے طور پر مذمت کی ہے۔ اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا کی طاقت کی بدولت، اگر کسی ملک کے ایک کونے میں کوئی شخص جرم کرتا ہے؛ تو دور دراز کے لوگوں کو بھی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اسی طرح اس وقت غزہ اور مغربی کنارے میں، قابض فوج جو جنگی جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کررہی ہے، وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت انسانیت کا تقاضا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو ہر عالمی پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے اور اسرائیلی حکومت کو ہزاروں فلسطینی شہریوں کے قتل اور اربوں ڈالر کی عمارتوں اور املاک کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
جنوبی افریقہ کا جرأتمندانہ قدم: بہرحال، “کبھی نہیں سے دیر بہتر”، جنوبی افریقہ نے ایک جرأتمندانہ قدم اٹھاتے ہوئے صیہونی اور نسل پرست ریاست اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں گھسیٹنے کے لیے بروز: جمعرات 29/دسمبر 2023 کو مقدمہ دائر کیا۔ یہ مقدمہ غزہ میں تقریباً تین ماہ سے جاری بے رحمانہ اسرائیلی بمباری کے بعد دائر کیا گیا ہے، جس میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل عرضی جمع کرائی گئی ہے۔ اس کے نکات کی تفصیلات میں جانے سے پہلے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی کاز کی حمایت کے حوالے سے جنوبی افریقہ کے حزب اقتدار: “افریقن نیشنل کانگریس” کی کوششوں پر ایک نظر ڈالیں؛ جب کہ جنوبی افریقہ کے پہلے منتخب صدر جناب نیلسن منڈیلا (1918 – 2013) اس حوالے سے سرفہرست نظر آتے ہیں۔ فلسطین کے سلسلے میں جنوبی افریقہ کا موقف بالکل واضح ہے کہ وہ فلسطین کی آزادی تک اس کی حمایت کرتا رہے گا جیسا کہ مسٹر منڈیلا نے کہا تھا: “ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی آزادی کے بغیر ہماری آزادی نامکمل ہے۔” یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی افریقہ کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ 75 سال سے جو سلوک کیا جارہا ہے، وہ اس کے ملک میں نسلی امتیاز پر مبنی برٹش حکومت سے قوی مشابہت رکھتا ہے، جو 1994 میں ختم ہوئی، ملک آزاد ہوا اور جمہوری طور پر مسٹر منڈیلا ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ ابھی پچھلے مہینے کی بات ہے کہ جنوبی افریقہ کے قانون سازوں نے “پریٹوریا” میں واقع اسرائیلی سفارت خانہ بند کرنے اور جنگ بندی پر اتفاق ہونے تک، تمام سفارتی تعلقات معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
جنوبی افریقہ نے اس عرضی میں، غزہ میں اسرائیل کے جنگی اقدامات کو “نسل کشی” قرار دیا ہے؛ کیوں کہ ان اقدامات کا مقصد فلسطین کے قومی اور نسلی گروہ کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔ عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں جن نکات پر روشنی ڈالی کئی ہے وہ یہ بھی ہیں کہ “اسرائیل کی 75 سالہ نسل پرستی کے دوران فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل کشی کی کارروائیوں کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا، فلسطینی سرزمین پر اس کے 56 سالہ جارحانہ قبضے اور 16 سالہ طویل عرصے سے غزہ کی ناکہ بندی، بشمول اس سے منسلک بین الاقوامی قانون کی جو خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، مزید چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزیاں اور دیگر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم وغیرہ۔” عدالت سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ کنونشن کے تحت فلسطینی عوام کے حقوق کو مزید ناقابل تلافی اور سخت نقصان سے بچانے کے لیے عارضی اقدامات کی نشاندہی کرے۔
کیا یہ نسل کشی ہے؟ : جنوبی افریقہ کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں، اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرنا ہو گا کہ اسرائیلی قابض افواج غزہ کی پٹی میں بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف جو کارروائیاں کر رہی ہے، وہ نسل کشی ہے۔ نسل کشی کنونشن کے آرٹیکل 2 کے مطابق، “وہ کاروائیاں نسل کشی میں شامل ہوگی جو کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ‘ارادے’ کے ساتھ کی گئیں ہوں۔” یہ بات عالمی میڈیا نے ریکارڈ کیا ہے کہ گذشتہ تین مہینے سے، اسرائیلی قابض فوج نے غزہ کی پٹی میں، شہریوں کے گھروں، مساجد، گرجا گھروں، اسکولوں، یونیورسیٹیوں، اسپتالوں، شاپنگ سینٹرز وغیرہ کو مسمار کیا ہے۔ انھوں نے بچوں، خواتین اور بزرگوں سمیت ہزاروں شہریوں کا قتل کیا ہے۔ غزہ کی تقریباً پچاسی فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ انھیں خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں پانی اور بجلی کی سپلائی بند کر رکھی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی کھلی آنکھوں سے غزہ کی سرزمین پر تباہی دیکھ سکتا ہے؛ لیکن بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی ثابت کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ مدعی، جو اس مقدمہ میں جنوبی افریقہ ہے، کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اسرائیلی افواج کی یہ تباہ کن کارروائیاں “عزم وارادہ کے ساتھ” کی گئی ہیں۔
عدالت میں الزام کو ثابت کرنے کے لیے مدعی (جنوبی افریقہ) نے اسرائیلی حکام وغیرہ کے بیانات سے دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے؛ کیوں کہ ان کے عزم وارادے، ان کے بیانات میں بالکل عیاں نظر آتے ہیں، مثلا اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے کہا: “غزہ میں کوئی بے گناہ نہیں ہے۔” اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ کو بائبل کے عمالقہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے تشبیہ دی، جس میں کسی بھی شہری کی جان بخشی سے منع کیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا: “اسرائیل غزہ کے لوگوں کو اجتماعی سزا دے گا؛ کیوں کہ وہ انسانی جانور ہیں۔” اسرائیلی ثقافتی ورثہ کے وزیر امیچائی الیاہو نے مشورہ دیا تھا کہ “اسرائیل کو غزہ پر ایٹم بم گرا دینا چاہیے!” ان کے علاوہ وزیر خارجہ، قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر، وزیر زراعت ایوی ڈیکٹر، دیگر سیاسی لوگ، فوجی حکام، عوامی شخصیات وغیرہ کے زہریلے بیانات بھی شامل ہیں۔جنوبی افریقہ کے الزام کی حقیقت اور قانونی بنیاد جاننے اور ان کے دلائل کی مضبوطی کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم امریکہ کے نیویارک سے شائع ہونے والے مشہور روزنامہ “دی وال سٹریٹ جرنل” کی ایک رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں جو غزہ میں، اسرائیلی فوج کی طرف سے انجام دیے گئے تباہیوں کے حوالے سے 30/ دسمبر 2023 کو شائع کی گئی ہے۔ رپورٹ کا ایک حصہ درج ذیل ہے:
روزنامہ کی رپورٹ میں ہے کہ غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے اب زیادہ تر غیر فعال ہیں، صرف آٹھ ہیلتھ کیر سینٹرز باقی رہ گئے ہیں جو غزہ کی آبادی کی خدمت کر رہے ہیں۔ غزہ کے تاریخی امتیازی آثار بشمول بازنطینی دور کیے گرجا گھروں‘ مساجد‘ فیکٹریوں‘ عمارتوں‘ اسکولوں‘ ہوٹلوں‘ شاپنگ سینٹرز کے ساتھ ساتھ بجلی اور پانی کے ذرائع جیسی اہم سہولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ غزہ کی تقریباً پچاسی فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے ‘اس علاقے میں اکیس ہزار سے زیادہ افراد اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
شکاگو یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور فضائی بمباری کی تاریخ کے ماہر رابرٹ پیپ کا بیان جرنل نے نقل کیا ہے: “غزہ ڈریسڈن (جرمنی) جیسے شہروں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بمباری سے تباہ ہونے والے دیگر شہروں کے ساتھ تاریخ میں داخل ہوگا۔” عالمی بینک کی 12/ دسمبر کی ایک اشاعت کے حوالے سے رپورٹ میں ہےکہ غزہ میں 77 فیصد صحت کی سہولیات، 72 فیصد عوامی عمارتیں، بشمول پارکس، عدالتیں اور لائبریریاں، 68 فیصد مواصلاتی انفراسٹرکچر اور غزہ کا تقریباً پورا صنعتی زون تباہ ہو چکا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کو واضح کرنے کے لیے روزنامہ نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ امریکہ نے عراق پر 2004 سے 2010 کے دوران 3687 بم گرایا تھا؛ جب کہ اسرائیل نے غزہ پر سات اکتوبر سے تقریباً 29000 بم گرایا ہے۔
وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی افریقہ کے دلائل قوی ہیں؛ کیوں کوئی بھی باشعور شخص سمجھ سکتا ہے کہ اسرائیل نےغزہ میں ایسے اقدامات فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے عزم وارادے سے ہی اٹھایا ہے۔ بہرحال، جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے ایک فوری حکم نامے کی درخواست یہ واضح کرتے ہوئے کی تھی کہ اسرائیل حماس کے خلاف کریک ڈاؤن میں، “1948 کے نسل کشی کنونشن” کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ عدالت نے 3/ جنوری 2024 کو یہ واضح کیا کہ وہ 11 اور 12 جنوری 2024 کو غزہ جنگ کے سلسلے میں، اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے شروع کی گئی کارروائی میں، عوامی سماعت کرے گی۔
آئی سی جے کیا ہے؟
آئی سی جے یا بین الاقوامی عدالت انصاف اقوام متحدہ کی ایک سول عدالت ہے، جو نیدرلینڈ کے تیسرے بڑے شہر “دی ہیگ” میں واقع ہے۔ یہ عدالت ملکوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرتی ہے۔ اسے “عالمی عدالت” بھی کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت، جنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں ہی اس عدالت کے پابند ہیں۔ سماعت کے بعد، یہ عدالت ہنگامی اقدامات کے وقت عام طور پر، ایک دو ہفتے میں فیصلہ صادر کرتی ہے۔ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے؛ لیکن یہ اپنے فیصلے کے نفاذ میں، فریق مخالف کو مجبور نہیں کرسکتی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مقدمہ فلسطین کے مفاد میں ہے؛ کیوں کہ دنیا کی حکومتیں، جو اقوام متحدہ کی ارکان ہیں، اس کے نتائج کو قبول کر سکتی ہیں اور اس سے اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کی جانے والی پالیسیوں پر اثر پڑتا ہے۔ یہ جنگ بندی کے سلسلے میں بھی ایک کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس مقدمہ سے اسرائیل کے جنگی جرائم قانونی طور پر دستاویزی شکل میں محفوظ ہوجائیں گے۔ یہ جنوبی افریقہ کے مفاد میں بھی ہے؛ کیوں کہ یہ جنوبی افریقہ کی “انسانیت کے دفاع میں اپنے سفارتی اثر ورسوخ کو استعمال کرنے” کے فیصلے کی ایک مثال ہو گی، جیسا کہ جنوبی افریقہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان کلیسن مونییلا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے۔ یہ واضح رہے کہ آئی سی جے “دی ہیگ” میں واقع “آئی سی سی” (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) سے مختلف ہے، جو جنگی جرائم، نسل کشی وغیرہ کے بین الاقوامی جرائم کا مقدمہ افراد کے خلاف چلاتی ہے۔
جنوبی افریقہ کے اقدام پر اسرائیل کا ردعمل:
جنوبی افریقہ کے اس اقدام کے بعد، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اسرائیلی حکومت اس کیس پر زیادہ توجہ نہیں دے گی اور عدالت میں پیش ہونے سے گریز کرے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اچانک اقدام سے اسرائیلی حکومت کو ایک زبرست دھچکہ لگا ہے اور وہ حیران وپریشان ہے۔ وہ اپنے ملک کے خلاف الزامات کے دفاع کے لیے عدالت میں پیش ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے، اسرائیل نے ایک بیان میں اسے “بے بنیاد اور نفرت انگیز” قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے وزیر خارجہ کا بیان ایکس پر پوسٹ کیا گیا ہے: “جنوبی افریقہ کے دعوے میں حقائق اور قانونی دونوں بنیادوں کا فقدان ہے اور یہ عدالت کا گھٹیا اور توہین آمیز استحصال ہے۔” مزید برآں، اب اسرائیل کو بھی انسانیت یاد آگئی ہے؛ چناں چہ اس نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ غزہ کے باشندے دشمن نہیں ہیں اور وہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ نقصانات ان لوگوں کو نہ پہنچے جو اس میں شامل نہیں ہیں اور غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخل ہونے کی اجازت دے رہا ہے۔ یہ بیان بہت حد تک جھوٹ پر مبنی ہے جس سےلوگوں کو دھوکہ دینے کوشش کی جارہی ہے؛ کیوں کہ یہی اسرائیلی حکومت ہے جس جنگ شروع ہوتے ہی اسرائیل میں کام کرنے والے غزہ کے شہریوں کی پرمٹ کینسل کی تھی اور آج بھی غزہ میں لوگ خوراک کی بڑی قلت محسوس کر رہے ہیں۔ عالمی عدالت کو اسرائیلی حکام کو عدالت میں بلانا چاہیے اور الزام کی حقیقت جاننے کے لیے جھوٹ پکڑنے والا آلہ استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ وہ اپنے عہدے کی وجہہ عدالت میں بلائے جانے سے مستثنیٰ ہیں!
امریکہ کا دوہرا معیار:
بین الاقوامی عدالت انصاف کے مثبت جواب کے بعد، امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ کو صہیونی ریاست کو تحفظ فراہم کرنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا؛ کیوں کہ اس کے ویٹو کی طاقت آئی سی جے میں کام نہیں کرے گی۔ اس نے 4/جنوری 2024 کو ایک بیان جاری کیا ہے کہ جنوبی افریقہ کی درخواست بے بنیاد ہے۔ بائیڈن انتظامیہ حماس کی کارروائی کو “نسل کشی کا دہشت گردانہ خطرہ” قرار دے رہی ہے؛ لیکن وہ جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف لگائے گئے نسل کشی کے الزام کو بے بنیاد بتا رہی ہے۔ یہ دوہرا معیار ہے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے جنوبی افریقہ کی عرضی کو “بے بنیاد، نقصاندہ اور مکمل طور پر بغیر کسی بنیاد کے” قرار دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا: “اسرائیل فلسطینی عوام کو نقشے سے مٹانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ اسرائیل غزہ کو نقشے سے مٹانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ اسرائیل نسل کشانہ دہشت گردی کے خطرے سے اپنے دفاع کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اگر ہم اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں، تو ٹھیک ہے۔ ہمیں اسے مناسب طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔”
کوئی بھی عقلمند شخص بائیڈن انتظامیہ کے بیان میں ہمیشہ کی طرح تعصب محسوس کرے گا؛ کیوں کہ وہ اسرائیل پر حماس کے حملے کو “نسل کشی کا دہشت گردانہ خطرہ” قرار دے رہی ہے اور وہ غزہ میں اسرائیلی افواج کے حملوں کو دفاع کی کوشش کہہ رہی ہے؛ جب کہ حقیقت یہ غزہ تباہ ہوچکا ہے، پچاسی فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ اسرائیلی حکام، صدر، وزیراعظم، وزراء، سیاستدانوں اور عوامی شخصیات کے بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عزم وارادہ غزہ کے شہریوں کو تباہ کرنے کا ہے۔ یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
اسرائیلی حملے پر بین الاقوامی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا رد عمل:
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے جنوبی افریقہ کی عرضی کو “بے بنیاد” قرار دیا ہے۔ اب ایک سوال ہے کہ کیا صرف جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگایا ہے؟ نہیں،ایسا نہیں ہے؛ بلکہ بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ماہرین بھی ہیں جنھوں نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو جنگی جرائم، نسل پرستی، نسل کشی قرار دیا ہے اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ہاں، یہ حقیقت ہے کہ جنوبی افریقہ ہی وہ واحد ملک ہے جس نے عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کی جرأت کی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا ردعمل بھی ملاحظہ فرمائے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پالیسیاں نسل پرستی کے مترادف ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں سمیت بین الاقوامی تنظیموں نے ممکنہ جنگی جرائم کے خطرے آگاہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے نومبر میں اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کی فوری، شفاف اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جو 7/ اکتوبر 2023 اور اس کے بعد ہوئے ہیں۔”
اقوام متحدہ کے 36 ماہرین کے ایک گروپ نے 16/ نومبر 2023 کو بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ “فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کو روکے” اور 7/ اکتوبر سے اسرائیل کے جو اقدامات ہیں انھیں “نسل کشی” قرار دیا۔ انھوں نے ایک بیان میں مزید کہا: “ہم حکومتوں کی طرف سے ہماری آواز پر عمل نہ کرنے اور فوری طور پر جنگ بندی کرانے میں ناکامی سے بہت پریشان ہیں۔ ہمیں غزہ کی محصور آبادی کے خلاف اسرائیل کی جنگی حکمت عملی میں، بعض حکومتوں کی حمایت اور نسل کشی کو روکنے کے لیے عالمی نظام کے متحرک نہ ہونے پر بھی گہری تشویش ہے۔”
صہیونیت زدہ لوگوں کا خیال:
بہت سے صیہونیت زدہ لوگوں کو 7/ اکتوبر 2023 کو حماس کا حملہ یاد ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسرائیل پر حماس کے حملے کی وجہ سے ہے۔ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین 7/اکتوبر 2023 سے شروع نہیں ہوا ہے۔ فلسطین پر صہیونی ریاست کا طویل عرصے سے غاصبانہ قبضہ ہے اور اس کے شہری 75 سال سے صیہونی ریاستی افواج کے حملوں کا شکار ہیں۔ حماس نے جو اسرائیل پر حملہ کیا ہے، اس کی وجوہات میں سے مسجد اقصی کو یہودیانے کی کوشش، غزہ کی ناکہ بندی، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی توسیع، معصوم فلسطینی عوام پر تشدد وغیرہ ہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ صہیونی آباد کاری کی توسیع غزہ، مقبوضہ مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم پر مشتمل، مستقبل کی فلسطینی ریاست کے قیام میں، سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بہرحال، دنیا کے امن پسند لوگ جنوبی افریقہ کی جرأت اور حوصلے پر شکریہ ادا کرتے ہیں! انھیں امید ہے کہ یہ اہم قدم اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے اور فلسطینیوں کے خلاف فوری جنگ بندی کے حصول میں معاون ثابت ہوگا۔ ۔