[]
مولانا ذوالفقاراحمد:
بدنظری کی نخوست:۔
بدنظرکے ساتھ ہی شیطان انسان کے دل ودماغ پرسوار ہوجاتا ہے اوراس شخص سے شیطانی حرکتیں کروانے میں جلدی کرتا ہے۔ جس طرح ویران اورخالی جگہ پر تندوتیز آندھی اپنے اثرات چھوڑتی ہے۔ اسی طرح شیطان بھی اس شخص کے دل پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے تاکہ اس دیکھی ہوئی صورت کوخوب آراستہ ومزین کرکے اس کے سامنے پیش کرے اوراس کے سامنے ایک خوبصورت بت بنا دے۔ ایسے شخص کادل رات ودن اسی بت کی پوجا میں لگا رہتا ہے۔ وہ خام آرزؤں اورتمناؤں میں الجھا رہتا ہے ۔ اسی کا نام شہوت پرستی ،خواہش پرستی، بلکہ بت پرستی ہے۔ یہ شرک خفی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اور اس کا کہنا نہ مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے۔(الکہف 38)
ان خیالی معبودوں سے جان چھڑائے بغیر نہ تو ایمان کی حلاوت نصیب ہوتی ہے نہ قرب الہٰی کی ہوا لگتی ہے۔ بقول شاعر
بتوں کوتوڑتخیل کے ہوں کہ پتھرکے
2…بدنظری کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ انسان کا دل ودماغ متفرق چیزوں میں بٹ جاتا ہے۔یہاں تک کہ وہ اپنے مصالح ومنافع کو بھول جاتا ہے۔ گھرمیں حسین وجمیل نیکوکاراور وفادار بیوی موجود ہوتی ہے مگر اس شخص کا دل بیوی کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا۔ بیوی اچھی نہیں لگتی ذرا ذراسی بات پر اس سے الجھتا ہے، گھر کی فضا میں بے سکونی پیدا ہوجاتی ہے، جب کہ یہی شخص بے پردہ گھومنے والی عورتوں کو اس طرح للچائی نظروں سے دیکھتا ہے جس طرح شکاری کتا اپنے شکار کودیکھتا ہے۔ بسااوقات تواس شخص کا دل کام کاج میں بھی نہیں لگتا۔ اگر طالب علم ہے تو اس کوپڑھائی کے سوا ہر چیز اچھی لگتی ہے، اگر تاجرہے توکاروبار سے دل اکتا جاتا ہے ، کئی گھنٹے سوتا ہے مگرپرسکون نیند سے محروم رہتا ہے، دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ سویا ہوا ہے جب کہ وہ خیالی محبوب کے تصور میں کھویا ہوا ہوتا ہے۔
3…بدنظری کا تیسرا نقصان یہ ہے کہ دل حق وباطل اورسنت وبدعت میں تمیز کرنے سے عاری ہوجاتا ہے۔ قوت بصیرت چھن جاتی ہے۔ دین کے علوم ومعارف سے محرومی ہونے لگتی ہے۔ گناہ کا کام میں اس کو گناہ نظرنہیں آتا۔ پھرایسی صورتحال میں دین کے متعلق شیطان اس کو شکوک وشبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ نیک لوگوں سے بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں حتیٰ کہ اسے دینی شکل وصورت والے لوگوں سے ہی نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ باطل پہ ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو حق پرسمجھتا ہے اور بالآخر ایمان سے محروم ہوکر دنیا سے جہنم رسیدہوجاتا ہے۔
بدنظری سے متعلق اقوال سلف:۔
1…حدیث پاک میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا (بیہقی ۔مشکوٰۃ270)
{اﷲ تعالیٰ لعنت کرتے ہیں بدنظری کرنے والے مرداور بدنظری کرنے والی عورت پر}
2…حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ شیر اوراژدہے کے پیچھے چلے جانا مگر کسی عورت کے پیچھے ہرگز نہ جانا(مقصد یہ ہے کہ شیر اوراژدہاپلٹ آیا تو موت کے منہ میں چلے جاؤ گے اگر عورت پلٹ آئی تو جہنم کے منہ میں چلے جاؤ گے)
3…حضرت یحییٰ بن زکریا ؑسے لوگوں نے پوچھا کہ زنا کی ابتداء کہا ںسے ہوتی ہے ؟فرمایا ،آنکھوں سے…
4…حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ اگر دو بوسیدہ ہڈیاں بھی خلوت میں تنہا ہوں تو ایک دوسرے کا قصد کریں گی (بوسیدہ ہڈیوں سے مراد بوڑھا مرداور بوڑھی عورت ہے۔)
5…اما غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ پرپھاڑکھانے والا شیر جھپٹے تومیں اتنا نہیں ڈرتا جتنا نوعمر لڑکوں کی ہم نشینی سے ڈرتا ہوں۔
6…حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری فرمایا کرتے تھے کہ بدنظری کرنا قوت حافظہ کیلئے زہرقاتل کے مانند ہے۔
7…حضرت مجددالف ثانی ؒ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ جس شخص کی نظر قابو میں نہیں اس کا دل قابو میں نہیں اس کی شرمگاہ قابو میں نہیں رہے گی۔
بدنظری کا علاج:۔
دورحاضر میں انٹرنیٹ ،ٹی وی کی وجہ سے گھرگھر میں فلمیں ڈرامے عام ہوگئے ہیں، عریانی فحاشی کاسیلاب امڈآیا ہے، جوان العمرعورتیں بن ٹھن کربے پردہ گلی بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں، اشتہاربازی کے نام پر سٹرکوں کے اطراف میں عورتوں کی جاذب نظرتصاویرآویزاں ہیں، اخبارورسائل میں پرکشش تصاویر عام سی بات ہے، ایسے حالات میں نوجوان تو کیابوڑھوں کے لئے بھی نظر کی حفاظت ایک مصیبت بن گئی ہے،کوشش کے باوجود اس سے نجات کی صورت نظرنہیں آتی، جن لوگوں کے دلوں میں ہدایت کا نور موجود ہے وہ اس گناہ کے صادرہونے پر اندرہی اندر کڑھتے رہتے ہیں، سالکین طریقت اپنے مشائخ سے بدنظری کا علاج معلوم کرتے ہیں تاکہ اس بیماری سے شفانصیب ہو، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں اس بیماری سے شفایاب ہونے کے چند مجرب نسخے پیش کردیئے جائیں تاکہ نگاہیں حرام سے ہٹ کر حلال کی طرف متوجہ ہوجائیں ،شہوت کی بھڑکتی آگ کے شعلے ٹھنڈے ہوں، پاکیزگی اور پاک دامنی کی زندگی گزارنی آسان ہوجائے۔
قرآن مجید کی روشنی میں:۔
بدنظری سے بچنے کے لئے قرآن مجید کی روشنی میں سات نسخے درج ذیل ہیں:
1…ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں}
بدنظری کا سب سے بہترین علاج اپنی نگاہوں کو پست رکھنا ہے ، پس سالک کوچاہئے کہ گلی کوچہ بازار میں چلتے ہوئے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کی عادت بنائے، پیدل چل رہا ہو تو سٹرک پرنظررکھے ،سواری پے ہوتو نگاہ اتنی اٹھائے کہ دوسری سواریاں اورراہ گیروں کے گزرنے کا پتہ چلتارہے ، کسی کے چہرے کی طرف نظرنہ اٹھائے چونکہ فتنے کا مبتدا یہی ہوتا ہے ، اگر نظر خطا کرے تو استغفار پڑھے اور پھرنگاہیں نیچی کرے، اس عادت کواپنانے کے لئے کوشش کرتارہے حتیٰ کہ یہ زندگی کا حصہ بن جائے، اگردفتری کام کے سلسلے میں خریدوفروخت کے معاملے میں کسی عورت سے حسب ضرورت بات کرنی پڑے تواس کے چہرے کی طرف نظرنہ کرے، جس طرح دوناراض بندے مجبوری میں ایک دوسرے سے بات کریں بھی توچہروں پرنظر نہیں ڈالتے، آنکھ نہیں ملاتے اسی طرح ذہن میں خیال رکھے کے غیر محرم سے میری اﷲ تعالیٰ کے لئے ناراضگی ہے لہٰذا اس کے چہرے کو نہیں دیکھنا۔
2…ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{نکاح کرو عورتوں سے جو تمہیں بھلی لگتی ہوں}
جتنا جلدی ممکن ہوسکے دیندار ،فرماں بردار ،حسن وجمال والی لڑکی سے شادی کرے تاکہ جنسی ضرورت پوری ہوسکے، جوانسان بھوکا ہووہ چاہے کہ میں نفلیں پڑھ لوں تاکہ بھوک اتر جائے تو اس کو اپنا علاج کروانا چاہئے، بھوک کا علاج یہ ہے کہ روٹی کھائے اور اﷲ تعالیٰ سے بھوک اترنے کی دعا کرے، اسی طرح نظرکوپاکیزہ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ شادی کرلے، اوراﷲتعالیٰ سے پاکیزہ نظرحاصل ہونے کی دعا کرے،جب موقع ملے تو اپنی بیوی کے چہرے کومحبت کی نظرسے دیکھے، اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اگر یہ نعمت نہ ملتی توکتنی مصیبت ہوتی، جوشوقیہ نظریں گلی کوچہ بازار میں چلنے والی بے پردہ عورتوں پرڈالتا ہے وہ اپنی بیوی پرڈالے ، بیوی کوصاف ستھرا رہنے کی تلقین کرے، اچھے کپڑے لاکردے ،جوکچھ دوسری عورتوں کے پاس ہے وہی سب کچھ بیوی کے پاس ہے، دل میں سوچے کہ اگر میں غیر محرم کی طرف دیکھوں گاتو اﷲ تعالیٰ ناراض ہوں گے اور اگر بیوی کودیکھوں گا تو وہ راضی ہوں گے، حدیث پاک میں ہے:
جو شخص اپنی بیوی کومسکراتا ہوادیکھتا ہے اوربیوی خاوند کومسکراکر دیکھتی ہے تواﷲ تعالیٰ ان دونوں کو مسکراکردیکھتے ہیں، حلال کوجی بھر کردیکھے تاکہ حرام کی طرف میلان ہی نہ ہو، جب بھی نفس غیر محرم کی طرف دیکھنے کی خواہش کرے تصور میں اپنی بیوی کا چہرہ لے آئے، گناہ کا خیال دل سے دور ہوجائے گا۔
3 …ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(الاعراف:21)
{بے شک جولوگ ڈرتے ہیں ،جب ان پرشیطانی لشکروں میں سے کوئی گھیرے تووہ اﷲ کاذکر کرتے ہیں پس انہیں سوجھ آتی ہے}
اس آیت مبارکہ سے یہ راز کھلتا ہے کہ جب بھی انسان پرحملہ آورہواوردل میں گناہ کا وسوسہ ڈالے توذکر کے ذریعہ سے اپنا دفاع کرے ، چنانچہ بازار میں سے گزرتے ہوئے ذکر کا اہتمام کرے، ہوسکے توہاتھ میں تسبیح رکھ لے ورنہ قلبی ذکر توکرتا ہی رہے، غفلت گناہ کا مقدمہ ہے، ذکر کے ذریعہ غفلت دورکرے،ذکر کا نوررفتہ رفتہ دل میں ایسا سرور پیدا کرتا ہے کہ غیر کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کوجی نہیں چاہتا۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
4…ارشادی باری تعالیٰ ہے:
(کیا جانتے نہیں کہ اﷲ دیکھ رہا ہے)
سالک کا نفس جب بھی نامحرم کی طرف دیکھنے کا تقاضا کرے تو فوراً سوچے کہ اﷲ مجھے دیکھ رہے ہیں، نگاہ قابو میں رکھنی آسانی ہوجائے گی، اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر اس عورت کا باپ یاخاوند ہماری طرف دیکھ رہا ہوتو کیا ہماری نظریں اس حال میں اس عورت کے چہرے کی طرف اٹھ سکیں گی، ہمیں جھجک محسوس ہوگی کہ اس عورت کا باپ یاخاوند ہم سے سخت ناراض ہوگا، اسی طرح یہ سوچنا چاہئے کہ جب اﷲ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہے ہیں اورمنع فرمایا ہے کہ ہم غیر محرم کی طرف نظرنہ ڈالیں، اس کے باوجود اگر ہم دیکھیں گے تو یقینا پروردگار عالم کوجلال آئے گا، اگر پکڑکرلی توہمارا کیابنے گا۔
5…ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(العنکبوت:69)
{جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ضرور اسے اپنا راستہ دکھاتے ہیں}
مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ شریعت پرعمل کی خاطر نفس کے خلاف کام کرنے کومجاہدہ کہتے ہیں،یہ حقیقت ہے کہ مجاہدہ سے مشاہدہ نصیب ہوتا ہے ،لہٰذا جب بھی نفس غیر محرم کی طرف دیکھنے کا تقاضا کرے تو اپنی قوت ارادی سے اس کے خلاف کرے، ذہن میں یہ رکھے کہ اس مجاہدے کے بدلے مجھے محبوب حقیقی کا مشاہدہ نصیب ہوگا، ویسے بھی یہ مجاہدہ چند لمحوں کا ہوتا ہے جب کہ مشاہدے کی لذت ہمیشہ کے لئے ہوگی، یادرکھیں کہ ضبط نفس کے نورسے دل بہت جلدی صاف ہوتا ہے، تسبیح کے دانے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ہمت ہارنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہمت کرنے سے مسئلہ حل ہوگا، پس اپنے نفس پرجبرکرے اوراسے شریعت کی لگام ڈالے تاکہ قیامت کے دن سعادت کا ہارپہننا نصیب ہو۔
6…ارشاد باری تعالیٰ ہے: (النسائ:58)
{اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کوپہنچادو}
سالک اپنے ذہن میں یہ خیال جمائے کہ میری آنکھیں اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہیں، مجھے اس امانت کوحکم الہٰی کے مطابق استعمال کرنا ہے، اگر اس کے خلاف کیاتو امانت میں خیانت کامرتکب ہوگا، عام دستور ہے کہ جوبندہ ایک مرتبہ امانت میں خیانت کیاتوامانت میں خیانت کا مرتکب ہوگا،عام دستور ہے کہ جوبندہ ایک مرتبہ امانت میں خیانت کامرتکب ہوتودوسری مرتبہ اس کو امانت سپرد نہیں کی جاتی، ایسانہ ہوکہ میں دنیا میں اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بینائی کوغیر محرم کے دیکھنے میں استعمال کروں اور قیامت کے دن مجھے بینائی واپس ہی نہ کی جائے ،اگر اس دن اندھا کھڑا کردیاتو کیابنے گا۔
قرآن مجید سے ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے دن کچھ لوگوں کواندھا کھڑاکریں گے اوروہ پوچھیں گے کہ:
{اے رب مجھے اندھا کیوں کھڑا کیاحالانکہ میں توبیناتھا}
یہ بات بھی غورطلب ہے کہ ہم دنیا میں ایسے وقت میں پیدا ہوئے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے محبوب کی زیارت نہیں کرسکے، اگر قیامت کے دن اندھے کھڑے کئے گئے تو اس دن بھی محبوب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا دیدار نہیں کرسکیں گے، اﷲ تعالیٰ اس دہری محرومی سے ہم سب کوبچائے، لہٰذا نگاہوں کا ٹھیک استعمال کرنا ضروری ہے تاکہ قیامت کے دن یہ امانت دوبارہ نصیب ہوجائے، نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔
(اﷲ تعالیٰ خوبصورت ہے)(الجامع الصغیر: ج /ا،ص/ 263)
اس مضمون کوذہن میں رکھ کرسوچے کہ اگر میں نے دنیا کی حسینوں کوگندی نظرسے دیکھا تو کہیں اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے حسن وجمال کا مشاہدہ کرنے سے محروم نہ کردے۔
7…ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{کیا ایمان والوں پر ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اﷲ کی یاد سے ڈرجائیں اور جواترا ان پرسچا دین}
سالک کا نفس جب بھی بدنظری کا ارتکاب کرنا چاہے تو فوراً دل میں اس آیت کا مضمون سوچے کہ کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیاکہ ان کے دل ڈرجائیں، جب جب نظر اٹھانے کوجی چاہے تب تب اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہے ،کیا ایمان والوں کے لئے ابھی اﷲ تعالیٰ سے ڈرجانے کا وقت نہیں آیا، ہرنظر پہ یہ مضمون سوچتا ررہے اور اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگتا رہے، اﷲ تعالیٰ اپناڈرعطافرمائیں گے اور بدنظری سے سچی توبہ نصیب ہوجائے گی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔