مکتب سلیمانی کے شاگرد فلسطینی مقاومتی رہنماوں کا اجمالی تعارف

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ شہید حاج قاسم سلیمانی مقاومت کے مرکزی رہنما سمجھے جاتے تھے۔ ان کی شخصیت اور کردار کے بارے میں آج تک بہت تحقیق ہوچکی ہے البتہ دوسرے مقاومتی رہنماوں پر ان کے اثرات اور شاگردی کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔

فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور خارجہ پالیسی میں اس کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی میں اس مسئلے کے بارے میں کافی زحمتیں برداشت کیں۔ 2016 میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر محمد نصر اور اسامہ بن حمدان جیسے اعلی رہنماوں پر مشتمل حماس کا وفد ایران آیا اور شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ فسلطین کے مستقبل کے حوالے سے کئی میٹنگ کی۔ شام کی اس وقت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حماس کے رہنماوں نے خطے میں مقاومت کے درپیش سنگین خطرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس وقت ایران اس مشکل کو حل کرسکتا ہے۔ اس وقت شہید سلیمانی نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ ایران کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے ایران کے اندر اس مسئلے پر سب متحد ہیں۔

شہید سلیمانی نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ فلسطین کے ساتھ ہماری وابستگی اور حمایت ہمارا دینی وظیفہ اور صہیونی حکومت کو روکنا ہے۔ لبنان اور شام پر اسرائیلی فضائی حملے بڑھنے کے بعد انہوں ٹوئیٹر پر کہا تھا کہ اسرائیل آخری ہاتھ پیر ماررہا ہے۔

انہوں نے اپنی شہادت سے چند مہینے پر القسام بریگیڈز کے کمانڈر محمد ضیف کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا اور کہا تھا کہ جو بھی فلسطینیوں کی آواز سنے لیکن جواب نہ دے وہ مسلمان نہیں ہے۔ ہم فلسطینیوں کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ان کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے اور ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔

مکتب سلیمانی کے شاگرد فلسطینی

رہنما ابو خالد (محمد ضیف)

محمد دیاب المصری المعروف ابوخالد حماس کی ذیلی شاخ القسام بریگیڈز کے کمانڈر ہیں۔ 1965 میں خان یونس میں پیدا ہونے والے ابو خالد کو فلسطینی عوام اور ذرائع ابلاغ میں محمد ضیف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے 1989 میں حماس میں شمولیت اختیار کی اور 1993 میں القسام کے رکن بن گئے۔ ان پر صہیونی غاصب فورسز نے اب تک مجموعی طور پر 9 مرتبہ قاتلانہ حملہ کیا ہے تاہم وہ محفوظ رہے ہیں۔ آخری قاتلانہ حملہ 2014 میں کیا گیا جس میں ان کی شریک حیات اور بچہ شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد شہید قاسم سلیمانی ان کو برادر عزیز، مجاہد بزرگ اور زندہ شہید جیسے القاب سے پکارا تھا۔

یحیی السنوار (ابوابرہیم)

یحیی السنوار غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوگئے۔ انہون نے اسلامک یونیورسٹی غزہ سے تعلیم حاصل کی۔ 1988 میں صہیونی دہشت گرد فوج نے ایک چھاپے کے دوران ان کو گرفتار کرکے تاحیات قید کی سزا سنائی۔ 2011 میں حماس اور الفتح کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے بعد ان کو رہائی ملی۔

2017 میں ان کو حماس کے سیاسی دفتر میں اسماعیل ہنیہ کا جانشین منتخب کیا گیا۔ حماس کی سیکورٹی فورس تشکیل دینے کی وجہ سے ان کو ناجی فلسطین کا نام دیا گیا۔ ان کا ماننا ہے کہ فلسطین کے اندر دشمن کے لئے مخبری کرنے والوں کی شناخت کرکے ان کو سزا دینا بہت ضروری ہے۔ یحیی السنوار اس وقت حماس کے اعلی رہنما ہیں۔ چند سال پہلے انہوں نے شہید سلیمانی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران، سپاہ پاسداران انقلاب اور القدس فورس پوری طرح فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

محمود الزھار

محمود الزھار کا شمار حماس کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 1978 میں غزہ اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ ان پر درجنوں مرتبہ صہیونی دہشت فوج نے حملہ کیا۔ 2003 میں ان کے گھر پر ایک حملے کے دوران محمود الزھار بال بال بچے۔ انہوں نے متعدد بار شہید سلیمانی سے ملاقاتیں کیں اور شہید نے فلسطین کے لئے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

اسامہ حمدان

اسامہ حالیہ سالوں میں تنظیم کے اعلی رہنماوں میں شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویوز کے دوران شہید سلیمانی کے ساتھ اپنے گہرے روابط کا اظہار کیا۔ 2008 میں صہیونی حملوں کے دوران شہید سلیمانی نے مسلسل حماس اور مقاومتی تنظیموں کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور ہر ضروری اور ممکن تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی غزہ کے مجاہدین جدید میزائل ٹیکنالوجی سے لیس کرنا چاہتے تھے۔ شہید سلیمانی کی پوری کوشش اس بات پر مرکوز تھی کہ خطے میں مقاومتی تنظیموں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جائے اور ان کو دشمن کے خلاف مسلح اور متحد کیا جائے۔

شہید سلیمانی کے بعد ان کے جانشین جنرل قاآنی بھی اسی مشن پر گامزن ہیں۔

شہید سلیمانی نے نہ صرف خود مقاومت کی قیادت کی بلکہ اپنے شاگردوں کو مقاومتی تنظیموں کی قیادت کا ہنر سکھایا۔ ان کے شاگردوں نے مختلف مواقع پر صہیونی حکومت کی جانب سے ہونے والی جارحیت کے خلاف بہادری کے ساتھ فلسطین اور بیت المقدس کا دفاع کیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *