شہید حاج قاسم سلیمانی اتحاد بین المسلمین کے علمبردار

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اتحاد گذشتہ 5 دہائیوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے قائدین اور مفکرین کا سب سے اہم موضوع رہا ہے۔ جس نے حکومتوں، شخصیات اور  بین الاقوامی فیصلوں کی نوعیت پر  مختلف اثرات مرتب کیے ہیں۔

شہید سلیمانی کا ایک مشہور قول جو سوشل میڈیا میں بڑے پیمانے پر وائرل ہوا وہ یہ کہ فلسطین کے ننانوے فیصد لوگ سنی ہیں۔ آج ہم فلسطین سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہم شیعہ مفادات کی تلاش میں ہیں؟ نہیں، ویسے اگر فلسطین میں کوئی شیعیت کی ترویج چاہتا ہے تو ہم اس کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔ بذات خود میں ایسے شخص کے ساتھ کام نہیں کرتا۔

 شہید کے یہ الفاظ ایک پالیسی نہیں بلکہ رہبر معظم انقلاب کی طرح  وہ بھی اتحاد بین المسلمین پر قلبی عقیدہ رکھتے تھے، اسے ایک سیاسی حربہ نہیں سمجھتے تھے۔ جیسا کہ شہید قدس کے قریبی لوگوں کی یاد داشتوں کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے۔

انہیں واپس بلاو!

 قدس فورس میں رہبر معظم انقلاب کے سابق نمائندے حجۃ الاسلام و المسلمین سعادت جنرل سلیمانی کے قریبی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عراق اور شام کے عوام کے ساتھ شہید   قدس کے اتحاد سے متعلق فیصلوں کے مختلف واقعات بیان کیے ہیں۔ 

 مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں: میں نے شہید سلیمانی کے شدید غم و غصے کا اس وقت مشاہدہ کیا جب ایک دینی طالب علم نے اہل سنت کے درمیان شیعہ مکتب کی تبلیغ کی غرض سے کچھ شیعہ مباحث کو زیر بحث لایا۔ جس پر شہید سلیمانی  کہا: “انہیں اب یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، اور انھیں واپس ایران بھیج دو، ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہیں جو  مطلوبہ صلاحیت نہیں رکھتے!

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شہید سلیمانی ماحول سازی اور ثقافتی فعالیت پر یقین رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں براہ راست تبلیغ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں ثقافتی ماحول بنانا چاہئے۔”

وہ راتوں کو اہل سنت مجاہدین کے ساتھ بیدار رہتے تھے

جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد، فلسطینی اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کے عہدیداروں اور رہنماؤں نے ان سے جڑی بہت سی یادوں کو بیان کیا۔ ان میں سے ایک فلسطین کی تحریک  جہاد اسلامی کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ ہیں، جنہوں نے جنرل سلیمانی کے ساتھ اپنے ایک سفر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں تہران کے ایک سفر کے دوران شہید کے ساتھ ہوائی جہاز میں تھا۔ انہوں نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا اور ایک روٹی نکال کر اپنے دوستوں میں بانٹ دی اور کچھہ ہی لمحوں بعد انہوں ایک معمر شخص کو ایک کڑا دیا جو اپنی بیٹی کے ساتھ جہاز میں سوار تھا۔ 

فلسطین میں حاج قاسم صبح کی نماز کے لیے ہمارے ساتھ اٹھتے اور سُنی  امام جماعت کے پیچھے خاک شفا (سجدہ گاہ) پر نماز ادا کرتے اور ان کا یہ طرز عمل ہم سب کے لیے معمول کی بات تھی کہ ہر شخص اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے اسلام کے لیے کام کرتا تھا۔ 

قاسم سلیمانی ذاتی طور پر غزہ کی جنگوں میں موجود تھے اور مزاحمتی فورسز کے ساتھ رات کو جاگتے تھے اور حملوں کی شدت پر ان کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔

ہم ان کے لئے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے

ایران میں حماس کے نمائندے خالد قدومی نے اس سوال کے جواب میں کہ شہید قاسم سلیمانی کی بلاتفریق عمومی مدد کے اصول سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات عرب ممالک میں شہید پر فرقہ واریت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس ناروا اور جھوٹے الزام کو کیسے برطرف کیا جائے؟

خالد قدومی نے کہا کہ جس سلیمانی کو ہم جانتے ہیں وہ دشمن کے میڈیا میں دکھائے گئے سلیمانی سے یکسر مختلف ہیں۔ ان کی شہادت کے دن تک ہم نے انہیں کبھی یہ کہتے ہوئے نہیں دیکھا، مثلاً حماس سنی ہے یا کچھ اور۔ ہم ان کے لئے بھائی تھے اور ہم نے کہیں نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے کوئی درخواست کی ہو یا انہوں نے کسی ضرورت کو محسوس کیا ہو اور  پوری نہ کی ہو۔ 

مثال کے طور پر میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ بعض جنگوں میں خاص طور پر 2014 کی جنگ میں حماس کے مجاہدین کو حاج قاسم اور ان کی ٹیم نے ایک خاص ہتھیار فراہم کیا تھا جس سے جنگ کا رخ  ہی بدل گیا تھا۔

جنرل سلیمانی کی کارکردگی علاقائی امور کے مبصرین پر اس قدر واضح  تھی کہ ایک فلسطینی محقق مصطفیٰ یوسف اللداوی نے اپنی ایک یاد داشت میں لکھا کہ شہید کا پختہ یقین اور ایمان تھا کہ (امت مسلمہ کی) بھلائی صرف وحدت اور متحدہ مزاحمت میں مضمر ہے اور جو کوئی بھی مزاحمت کے محور سے دور ہو جائے اسے واپس محور مقاومت میں آجانا چاہیے۔ 

یہی وجہ ہے کہ رہبرانقلاب اسلامی ایران سید علی خامنہ ای نے شہید سلیمانی کی ان کوششوں کو قدر کو نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کے صبر اور ایمان پر انہیں مبارکباد دی۔ 
انہوں نے شہید کی پیشانی پر بوسہ دیا، کیونکہ شہید مزاحمتی محور کی اجزاء کے درمیان موجود خلا کو پر کرنے اور صفوں میں اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ان کا ایمان تھا کہ اتحاد اور یکجہتی مزاحمت کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ہے کیونکہ تقسیم اور تفریق سے مزاحمت کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔

نتیجہ

شہید سلیمانی کا عمل اور عقیدہ اتحاد کا عملی نمونہ تھا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سال حج کے موقع پر اپنے پیغام میں امت اسلامی کے درمیان اتحاد کو  باہمی مکالمے، فکری اور عملی رابطے، ہم آہنگی، تعاون اور اسلامی ممالک کے درمیان اقتصادی رابطوں کی مضبوطی کے معنی میں بیان کرتے ہوئے اس اتحاد کے دوسرے پہلو کو اسلامی مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دانشوروں کے درمیان کے نیک نیتی، رواداری، انصاف پسندی پر مبنی مکالمہ قرار دیا۔

 اس وسیع نقطہ نظر کی عملی شکل کو شہید قدس کے میدانی فیصلوں اور ان کے عقائد کے پس منظر میں لمس کیا جا سکتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *