[]
از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سائنس میں خیر بھی ہے اور شر بھی۔ خیر اس لئے کہ بہت سے سائنسی انکشافات وایجادات نے انسانوں کو بے پناہ فائدے پہنچائے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں آرام وآسائش کے لئے سہولیات فراہم کی ہیں۔ مہلک وباؤں اور بیماریوں سے نجات دلائی ہے۔ شر اس لئے کہ سائنس نے انسانی ہلاکتوں کے لئے ظلم واستبداد روا رکھنے والے مہلک ہتھیار فراہم کئے ہیں۔
گویا ایک طرف تو سائنس نے خیر کا پہلو اختیار کیا تودوسری جانب شر کا راستہ اپنایا۔ بادی النظر میں یہ خیال درست معلوم پڑتا ہے اور سائنس کے خیر کے پہلو کی بہ نسبت اس کے شر کے پہلو پر ناگواری کا اظہار ایک قدرتی ردعمل ہے۔ لیکن اگر آپ سائنس کی کامرانیوں کا تجزیہ کریں اور سائنسدانوں کے مقصد تحقیق کا مطالعہ کریں تو خیر وشر کا مفروضہ بے معنی نظر آئے گا۔
سچائی صرف اتنی ہے کہ جب تک انسان حق کے راستے پر گامزن رہا تو اس نے سائنس کا استعمال سماجی بہبود کے لئے کیا اور جب وہ حق کے راستے سے بہک گیا اور اس کا مقصد سماج کا استحصال ہوگیا تو اس نے سائنس کااستعمال اپنی طاقت وقوت بڑھانے کے لئے کیا تاکہ وہ جبر کی حکومت کر سکے۔
مثال کے طور پر سائنس نے ایٹم کو توڑ کر اس کی بے پناہ طاقت کا انکشاف کیا تو اسی طاقت سے ایک جانب بجلی بنانے کے کارخانے قائم ہوئے تو دوسری جانب یہی طاقت ایٹم بم کا ذریعہ بنی۔ یہ دونوں کام خود حضرتِ انسان نے کئے۔
وہ انسان جو حکومتوں کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں، ان لوگوں نے ایٹم کااستعمال بجائے فلاح کے، بربادیٔ دنیا کے لئے کیا تواس میں سائنس کا کیا دوش، اس میں شرکا پہلو کیوں کر ہوا؟ شرتو ان دماغوں میں تھا جو ہیروشیما اور ناگاساکی کی ہلاکتوں پر شرمسار نہ ہوئے۔
سائنس کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو یہ سچائی واضح ہوجائے گی کہ سائنسداں کا مقصد ایجاد وانکشاف ہمیشہ رموز قدرت سے پردہ اٹھانا ہی رہا ہے۔ جو کائنات انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے اس کی تسخیر ہی مقصد ایجاد کہی جاسکتی ہے۔ اب اگر انسان اپنے نفس پر قابو نہ پاتے ہوئے سائنسی ایجاد کا استعمال تسخیر دنیا کے لئے نہیں بلکہ استحصال سماج کے لئے کرتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ قدرت کے احکام سے منحرف ہوگیا ہے۔
دنیا کے مشہور عالموں اور دانشوروں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد تسخیر نفس کے ساتھ تسخیر دنیا بھی ہے۔ تسخیر نفس کے لئے اسے دین کی ضرورت ہوتی ہے تو تسخیر دنیا کے لئے سائنس کی مدد درکار ہوتی ہے۔ بغیر سائنس کی مدد کے کوئی بھی قوم ترقی پذیر اور پھر ترقی یافتہ نہیں بن سکتی ہے۔ اور نہ ہی وہ نئی ارتقائی منزلوں کا پتہ لگا سکتی ہے۔
ایٹم کی طاقت کی طرح دنیا کی بیشتر ایجادات کو اچھے اور برے لوگوں نے بالترتیب اچھے اور برے کاموں میں استعمال کیا ہے۔ بندوق ایجاد ہوئی تو بعض نے اسے اپنی حفاظت کے لئے کام میں لایا تو دوسرے بے رحم ہاتھوں نے اس سے معصوم جانیں لیں۔ ان ہی ہتھیاروں کی مدد سے ملک وملت کے جانباز سپاہیوں نے اپنے علاقوں کی حفاظت کی تو یہی ہتھیار دوسری قوموں کو غلام بنانے کا ذریعہ بنے۔
ان شر انگیز حرکتوں کا دوش سائنس پر رکھنا مناسب نہیں۔ اس کے ذمہ دار صرف سماج کے وہ صاحب اقتدار لوگ ہوتے ہیں جو قومی رہنما بن کر حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اور سائنس کی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔
چنانچہ آج کی دنیا میں ضروری ہوگیا ہے کہ اگر سائنس کو شر سے یا غلط استعمال سے بچانا ہے تو رہنمائے ملک وملت وہ لوگ ہوں جو سائنسی رجحان رکھتے ہوں۔
ایک سوال جو اکثر ذہنوں میں ابھرتا ہے وہ یہ کہ آخر یہ سائنسی مزاج ہے کیا؟ تو یہ جان لیجئے کہ سائنسی مزاج کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ ایک عام آدمی کو سائنس کا علم ہو اوراس نے سائنس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو۔ سائنسی مزاج کا مفہوم یہ ہے کہ عوام خواہ تعلیم یافتہ ہوں یا عرف عام میں ناخواندہ۔ وہ کسی تبدیلی کو اپنانے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ خاص طور سے وہ تبدیلیاں جو سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر سود مند اور سماج کے لئے ضروری سمجھی گئی ہوں۔
سائنسی مزاج کے عام ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ اوہام پرستی ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ توہم پرستی سائنسی مزاج کی ضد ہے اور ہماری سماجی و معاشی ترقی میں حائل ہوتی ہے۔
ہندوستان میں آج بھی جبکہ یرقان کا مؤثر علاج موجود ہے، نہ جانے کتنی اموات روز اس لئے ہوتی ہیں کہ ایسے مریضوں کے متعلقین ہفتوں اور مہینوں جھاڑ پھونک میں صرف کرنے کے بعد جب مریض کو اسپتال یا ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں تو اس وقت تک مرض لا علاج ہوچکا ہوتا ہے۔
بہت سی جوان ماؤں کی قیمتی زندگی صرف اس لئے ضائع ہوجاتی ہیں کیوں کہ ولادت کے موقع پر کچھ متعلقین موجودہ سائنسی سہولیات سے مستفید ہونا خاندان کے اصولوں اور روایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
پچھلی دو یا تین دہائیوں میں ہندوستان سے چیچک اور طاعون جیسی بھیانک وباؤں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ سائنس کا بڑا کارنامہ ہے لیکن ان وباؤں کے ختم کرنے میں بڑے جتن کرنے پڑے ہیں۔ ٹیکہ لگانے میں عوامی غصہ اور عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی پولیو کے خاتمہ کی مہم میں حکومت وقت کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ سماج کے کچھ سیدھے سادھے لیکن ناواقف اور ناسمجھ لوگوں نے یہ باور کر لیا کہ پولیو کو ختم کرنے کی دوائیں ان کے بچوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
ان کو نہیں معلوم کہ پولیو ویکسین کی چند بوندیں آئندہ آنے والی نسلوں کو اس خطرناک اور معذور کردینے والی بیماری سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا سکتی ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان حیرت انگیز بوندوں نے دنیا کے بیشتر علاقوں کو اس عبرت ناک بیماری سے نجات بھی دلا دی ہے۔
وبائیں تو وبائیں ہیں، زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں اور کھاد کا چلن عام کرنے میں حکومت کی مشنری کو رکاوٹ کا سامنا ہوا ہے۔ صفائی کی بات آج بھی جب کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ گندگی میں بہت سے جراثیم پلتے ہیں جو انسان پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں تو نہ جانے کتنے لوگ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔
سگریٹ یا تمباکو نوشی اورجنسی بے راہ روی، کینسر اور ایڈز جیسی بیماری پیدا کرتے ہیں لیکن لوگ ان پر دھیان دینا پسند نہیں کرتے، غرضیکہ کتنے ہی عوامی مسائل ہیں جن کا حل سائنس کے توسط سے ہوسکتا ہے لیکن سائنسی مزاج نہ ہونے کے سبب ایسا نہیں ہوپاتا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذہبی رہنما سائنسی تبدیلیوں کے مخالف ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اوہام پرست ہوتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اوہام پرست صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر اپنے مفاد کی خاطر مذہب کی آڑ لیتے ہیں۔ مذہب کا سائنس سے ٹکراؤ نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے۔ جناتوں کو بوتل میں بند کرنے کا کام کوئی عالم دین نہیں کرتا، یہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کا تعلق دین سے دور کا بھی نہیں ہوتا ہے۔
سائنسی مزاج کی کمی ہمارے معاشرہ کے لئے مضرت رساں ہے۔ اس صورت حال کا جاری رہنا ہمارے عوام کے لئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر آج ہم سب نے مل کر اس مسئلہ پر مثبت قدم نہ اٹھائے اور سائنسی رویہ کو عام کرنے میں ناکام رہے، سائنس کوایک عام آدمی کے دروازے تک نہ لے جاسکے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔
سائنسی برتری پر مولانا رابع حسنی ندوی یوں رقم طراز ہیں: ’’مغرب نے اپنی اصل طاقت وقت کے تقاضہ کا لحاظ کرنے اور ترویج علم اوراس میں فروغ حاصل کرنے سے بنائی ہے۔ انہوں نے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی وقوت کی نئی راہیں تلاش کیں اور اقتصادی طاقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔ آج اہل دین (مسلمان) قدیم اختیار کردہ ذرائع کو مقاصد کا درجہ دینے لگے ہیں اور بہتری کی جو صورتیں پیدا ہورہی ہیں ان کو اختیار کرنے سے گریزکرنے لگے ہیں‘‘۔ (تعمیر حیات 1994)
کسی بھی ملک وملت کی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہاں سائنسی ترقی کے مدارج کیا ہیں۔ جو قومیں سائنسی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتی جاتی ہیں وہ دنیا میں عزت کا مقام رکھتی ہیں اور جو قومیں سائنسی مشاغل سے بے توجہی برتتی ہیں وہ معاشی اعتبار سے کمزور ہوکر ذلیل وخوار ہوتی ہیں اور دنیا کے نقشہ پر دھندلی نظر آتی ہیں۔
قوموں کی مفلسی، لاچاری، پست ہمتی، بیماری اور غلامی کا براہ راست تعلق سائنس اور ٹکنا لوجی کی پیش رفت سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا دین ومذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس دنیا میں انفرادی یا اجتماعی عزت پانے کے لئے عصری علوم پر قدرت پانالازمی ہے۔
کسی قوم کو کلیتاً آزادی اسی وقت ملتی ہے جب اس کے معاشرہ سے جہالت اور غریبی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ غریب قومیں آزاد نہیں رہ پاتی ہیں۔ فرسودہ رسم ورواج کو چھوڑنا اور سائنس کو اپنی تہذیبی وراثت سمجھنا ہی قوموں کو عزت کا مقام دلا سکتا ہے۔
موجودہ یعنی اکیسویں صدی میں دنیا نہایت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ طاقتور ملک کمزور ممالک کا معاشی استحصال کرنے کے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ وہ Colonization کو نئی شکل دینے کے درپے ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے بڑی دانشمندی درکار ہے۔
جنگی صف آرائی اور مذہبی وتہذیبی ٹکراؤ تو صرف تباہی وبربادی لا سکتا ہے، یہ مسئلہ کا حل قطعاً نہیں ہے۔ جوشیلی تقریریں، مذہبی ومسلکی برتری کے دعوے، ماضی کی کامرانیوں پر فخریہ تبصرے سب بے سود ہیں۔ اقبال نے کہا تھا :
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
مسئلہ کا حل علمی برتری حاصل کرنے میں ہے۔ قومی و ملی وقار پانے کے لئے لازم ہے کہ علم کے حصول کے لئے اس طرح سرگرداں رہا جائے جیسے کہ وہ ہماری ہی کھوئی دولت ہے اور ہم ا س کے وارث ہیں۔