ہند۔پاک میچ: ہوٹل کمروں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ پر ہاسپٹلس بیڈز کی بکنگ

[]

احمدآباد: ونڈے ورلڈ کپ کے دوران 15 اکتوبر کو احمدآباد میں ہندوستان اور پاکستان کے دلچسپ مقابلہ کا بے صبری سے انتظار کرنے والے شائقین کیلئے شہر میں ہوٹلوں کے آسمان چھوتی قیمتیں ایک چالنج بنی ہوئی ہیں۔

آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد احمدآباد میں ہوٹل کی قیمتوں میں میچ کے دن ڈرامائی طورپر اضافہ ہوا ہے جس سے بہت سے شائقین کو سستی رہائش تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

احمدآباد میں ہوٹل کے کمرے پہلے ہی مکمل طورپر بک ہوچکے ہیں جن کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں جس سے کرکٹ کے شائقین کیلئے اس ہوٹلوں کا انتخاب کرنا انتہائی مشکل ہوگیاہے۔ اتنے زیادہ نرخوں کے ساتھ شائقین کے پاس ہائی اسٹیک میچ کے دوران آرام کیلئے جگہ تلاش کرنے کیلئے محدود اختیارات رہ گئے ہیں۔

جیسے جیسے ہوٹل کی بکنگ ریکارڈ توڑ بلندیوں پر پہنچ رہی ہے شائقین نے میچ کے دن ٹھہرنے کیلئے محفوظ اور متبادل تلاش شروع کردی ہے۔ کرکٹ مبصر مفدل ووہرا نے سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ رجحان کی طرف توجہ دلائی جس نے انکشاف کیاکہ کچھ شائقین نے احمد آباد میں رہائش کیلئے ہسپتال کے بستروں کی بکنگ کا رخ کیا ہے۔

اگرچہ یہ غیر روایتی معلوم ہوسکتا ہے۔ ہسپتال کے بستر ان لوگوں کیلئے ایک سستا متبادل بن گئے ہیں جو مہنگی قیمتوں پر ہوٹل کا کمرہ محفوظ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہسپتال کے منتظمین نے بتایاکہ کرکٹ کے شائقین کی جانب سے بیڈ بکنگ میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

قیمتوں میں اضافہ صرف احمد آباد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پڑوسی شہر بھی ہوٹل کے نرخوں میں اضافہ کا سامنا کررہے ہیں۔ وڈودرا جو احمدآباد سے صرف ایک گھنٹہ کی دوری پر ہے، نے اکتوبر میں ہوٹل بکنگ کے کرایوں میں 6 سے 7 گنا اضافہ دیکھا ہے۔

میچ کا دن قریب آنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے شائقین اپنی جگہ محفوظ کرنے کیلئے احمدآباد اور پڑوسی مقامات کا رخ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں آس پاس کے علاقوں میں بھی رہائش کی بہت زیادہ مانگ ہوگئی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے کرکٹ میچ ہمیشہ سے ہجوم کو کھینچنے والے رہے ہیں اور آنے والے مقابلے کیلئے بھی جوش و خروش عروج پر پہنچ گیا ہے۔

کرکٹ کے شائقین اس تاریخی تصادم کا حصہ بننے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں چاہے اس کا مطلب غیر روایتی رہائش کے انتظامات کا انتخاب ہی کیوں نہ ہو۔ احمدآباد کے علاوہ قریبی شہروں میں بھی ایسا ہی رجحان پیدا ہونے کا امکان ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *