[]
امریکہ کی گیدڑ بھبکی سے ہی تمام عرب ممالک جن پر مسلمانان عالم بہت گھمنڈ کرتے تھے، خاموش ہو کر جلسے اور کانفرنس کے ذریعہ بیان بازی کر کے فلسطین کے مظلوموں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا
چند ساعتوں بعد2024 کا سورج طلوع ہوتے ہی 2023 اپنی بساط سمیٹ کر ہمارے درمیان سے رخصت ہو جائے گا۔ ہر سال کی طرح یہ سال بھی حسین یادوں سے زیادہ تلخ تجربات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہہ دے گا۔ یہ سال ختم ہو جانے سے حیات مستعار کی ایک سال کی بہاریں ختم ہو جائیں گی مگر یہ سال کئی معنوں میں یاد رکھا جائے گا۔ رواں سال مشرق وسطی کے لیے ایک خوشگوار خبر سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی تھی جسے دنیا بھر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ ابھی روس یوکرین تنازع کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکامی ہمارا منہ چڑا رہی تھی کہ اسرائیل حماس جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اس سے نہ صرف مغرب کی انسان دوستی کا پردہ چاک ہوا بلکہ پرامن دنیا کا خواب بھی دھندلا گیا۔ چین اور امریکہ کے سربراہان کی ملاقات سے وابستہ توقعات کا محل بھی ریت کا ڈھیر ثابت ہوا۔
رواں سال کا سب سے تکلیف دہ واقعہ اسرائیل اور حماس کی جنگ ہے جس میں گزشتہ 86 روز کے دوران تادم تحریر21 ہزار 672 انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 65 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسپتال اور عبادت گاہیں تک بمباری سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ جنگ جارحیت اور درندگی کا بدترین نمونہ ہے۔ تصور کیجیے کہ مائیں اپنے بچوں کی ٹانگوں پر نام لکھ رہی ہیں تاکہ لاشیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہو سکتا ہے؟ ایک اندازے کے مطابق پچھلے 12 ہفتوں کی بمباری کے دوران غزہ کی تمام آبادی جو کہ 23 لاکھ بتائی جاتی ہے، نقل مکانی پر مجبور ہو چکی ہے۔ پورا غزہ مہاجرت اور نکبہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غاصب قوم کو غزہ کی حکمراں جماعت حماس کا تعاقب کرنے کے نام پر ارض مقدس کی ایک پوری نسل کو ختم کر کے فلسطین کی مزید اراضی کو ہتھیانے کا بہانہ مل گیا، جواب بھی جاری ہے۔
حماس اور اسرائیل جنگ کے دوران امریکہ اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا رویہ افسوس ناک رہا جنہوں نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور جنگ بندی میں موثر کردار ادا کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دی۔ حد تو تب ہو گئی جب امریکہ نے اسرائیل کو اہم گولہ بارود، ٹیکٹیکل گاڑیاں اور بھاری فضائی نظام فراہم کئے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکی انتظامیہ غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی سرپرست ہے۔ دنیا میں امن اور حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ خود کو غزہ میں اسرائیلی جرائم کے ساتھ جوڑے ہوئے اور پوری طرح ان کی حمایت کر رہی ہے۔ اب تک کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اسرائیلی حکمت عملی آہستہ آہستہ ناجائز قبضے کو مضبوط کرنا ہوتی ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل نے غزہ کے جتنے حصے پر قبضہ کیا تھا اب وہ ماضی کا حصہ بن چکا تھا، تب اس نے اپنا کنٹرول بڑھانے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
ساری سفارت کاری مکمل کرنے کے بعد یہ عمل کیا گیا، تبھی تو غزہ پر اسرائیلی حملے اور مظالم کی امریکہ نے کھل کر حمایت کی۔ اس پر مستزاد یہ کہ حمایت کے حوالے سے عالمی رائے عامہ نہ امریکہ کو کوئی نقصان پہنچا سکی اور نہ ہی اسرائیل پر کوئی اثر ڈال سکی۔ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت سے امریکی خارجہ پالیسی کو ذرا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ دنیا اخلاقیات پر نہیں بلکہ مفادات پر قائم ہے۔ وہیں کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل سے تعلقات کو گزند نہیں پہنچنے دی۔ عرب ممالک کی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ اس بار نہ صرف اسرائیل اور امریکہ ہمیشہ کی طرح متحد نظر آئے بلکہ بالعموم ساری دنیا ہی اسرائیل کی حمایت کرتی رہی۔ امریکی وزیر خارجہ اور صدر نے اسرائیل جا کر یہودیوں کی ہر طرح کی مدد کا اعادہ اور وعدہ کیا، مسلم ممالک اور عوام کو دھمکی بھی دی کہ امریکہ، اسرائیل کا کوئی نقصان برداشت نہیں کرے گا اور جو بھی ایسا کرنے کا سوچے گا اسے خوفناک نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
امریکہ کی گیدڑ بھبکی سے ہی تمام عرب ممالک جن پر مسلمانان عالم بہت گھمنڈ کرتے تھے، خاموش ہو کر جلسے اور کانفرنس کے ذریعہ بیان بازی کر کے فلسطین کے مظلوموں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ سرزمین مقدس کے مظلوم عوام مدد کے لیے پکار رہے ہیں مگر تخت نشین حکمران یہ آواز سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ غزہ کے مصیبت زدہ عوام کی التجائیں کلیجہ چیر دینے کے لیے کافی ہیں۔ غزہ کے عوام جس کرب اور مشکل سے گذر رہے ہیں اس کے اثرات آنے والی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے کیونکہ وہ تین ماہ کے دوران ایسی تباہ کن جنگ سے گذرے ہیں جس کی مثالی پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں میں بھی نہیں ملتیں۔
غزہ میں جنگ سے برباد بے سہارا لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ ہے نہ پینے کو پانی اور نہ سر چھپانے کو چھت ہے۔ البتہ موت اور قیامت کی ہولناکی ہر طرف ننگا ناچ کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں مصیبت زدہ غزہ کی پٹی میں بے گھر فلسطینیوں کے مصائب سامنے آئے ہیں جن میں ہر تقریباً شخص ایک جیسے مسائل کا ذکر کر رہا ہے، ویڈیوز میں سبھی کہہ رہے کہ ہم بھوک اور پیاس کی شدت سے مر رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کے برعکس سفید کفن بکثرت نظر آ رہے ہیں۔ پانی اور دودھ کے بغیر بچے تڑپ رہے ہیں لیکن استقامت، حوصلہ اور جذبہ شہادت یہ ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمین کو آج تک نہیں چھوڑا۔ فلسطینیوں کو معلوم ہے کہ کسی بھی وقت ان پر بمباری ہو سکتی ہے اور ہو رہی ہے مگر وہ اپنی زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں، یہ ان کا جذبہ شہادت ہے جس کا وہ 75 سال سے مسلسل مظاہرہ کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;