[]
مولانا سید احمد ومیض ندوی ۔استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد
اسرائیل ایک ناجائز مملکت ہے؛ عالمی طاقتوں نے ظلم و جبر کے ساتھ اسے فلسطین کی مقدس سرزمین میں بسایا ہے؛ ساری دنیا جانتی ہے کہ فلسطین عربوں کی سرزمین ہے؛ یہاں سب سے پہلے کنعانی عرب آباد ہوئے؛ سوائے چند دہائیوں کے ماضی میں کبھی اس علاقے میں یہودی آبادی کا سراغ نہیں ملتا؛ اس کا ناجائز ہونا خود اس کے زوال پذیر ہونے کی دلیل ہے! دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم؛ حکیم الاسلام؛ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: اتنی بات واضح ہے کہ اسرائیل کی موجودہ نام نہاد حکومت ناجائز اور غیر قانونی ہے؛ جس کا توڑ دینا ہی عدل پسند دنیا کا سب سے پہلا کام ہونا چاہیے؛ کیونکہ دوسروں کی تخریب پر اپنی تعمیر اٹھائی جانی ڈکیتی اور چوری کے سوا اور کیا لقب پا سکتا ہے؛ برطانیہ نے چوروں کی طرح نقب زنی کی؛ امریکہ نے ڈکیتوں کی طرح مال اٹھایا؛ یہود نےتھانگیوں کی طرح اسے لے کر رکھ لیا؛ اور مجلس اقوام نے کفن چوروں کے انداز سے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی؛ تو کیا چوروں؛ ڈکیتوں؛ تھانگیوں اور کفن چوروں کے حاصل کردہ مال کو جائز مال کہا جا سکے گا؟ اگر دنیا کی کسی منصف عدالت میں اس کا مقدمہ رکھا جائے تو کیا فرد جرم ان سب رہزنوں کے خلاف نہیں لگائی جائے گی؟ اور کیا وقت آنے پر یہ سب کے سب درجہ بدرجہ سزا کے مستحق نہ ہوں گے؟ اور کیا مال کو اصل مالک کے حوالے کر دیا جانا ہی قرینہ انصاف نہ ہوگا؟ بہرحال اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ کہ یہ ناجائز مال زیادہ دیر تک غاصبوں کے قبضے میں نہیں رہے گا. (اسرائیل کتاب وسنت کی روشنی میں؛ قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ؛ دارالکتاب دیوبند ١٩٨٩)
اسرائیل کے زوال کو یقینی بنانے والی دوسری بڑی حقیقت اس کا دہشت گرد ہونا ہے؛ اسرائیل دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے؛ جس کی سرپرستی عالمی دہشت گرد امریکہ کر رہا ہے؛ اور یہ ظاہر ہے کہ دہشت گرد کو کبھی دوام اور بقا حاصل نہیں ہو سکتا؛ اسرائیل کی دہشت گردی سے دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے؛ اس سفاک نے تا حال ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جانیں لی ہے؛ جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے؛ حالیہ جنگ میں اس کی وحشیانہ بمباری میں1 2 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں؛ یہ ایسا دہشت گرد ہے کہ اس نے غزہ کے پورے علاقے کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے؛ اسے نہ بچوں پر ترس آتا ہے نہ خواتین پر؛ اس نے ہسپتالوں؛ اسکولوں اور رہائشی کیمپوں کو تک نہیں بخشا؛ گزشتہ 75 سالوں سے یہ دہشت گرد دندنا رہا ہے؛ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے آئے دن ظلم و ستم کی ایک نئی داستان رقم کرتا جا رہا ہے؛ خالق کائنات اسے چھوٹ دیتا آ رہا ہے لیکن ایک وقت آے گا وہ اپنی دہشت گردی سمیت نیست و نابود ہو جائے گا؛ اس لئےکہ ظالموں کا انجام ہمیشہ تباہی کی شکل میں ہوتا ہے؛ اسرائیل کی رگ رگ میں دہشت گردی اور غارت گری پیوست ہے؛ اسرائیل کے دہشت گرد مملکت ہونے کا ایک بین ثبوت اس کا قومی ترانہ ہے؛ اسرائیل کا قومی ترانہ دنیا کا واحد ترانہ ہے جس میں کھلے عام دہشت گردی اور سینوں میں نیزے گاڑنے اور عام انسانوں کا خون بہانے کو کامیابی قرار دیا گیا ہے؛ اسرائیلی ترانے کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے: جب تک دل میں یہودی روح ہے؛ یہ تمنا کے ساتھ مشرق کی طرف بڑھتا ہے؛ ہماری امید ابھی پوری نہیں ہوئی؛ اپنی زمین پر ایک ہزار سال کا خواب؛ اپنے خوابوں کی دنیا یروشلم ؛ہمارے دشمن یہ سن کر ٹھٹر جائیں؛ اور کنعان کے سب لوگ لڑکھڑا جائیں؛ بیبولون (بغداد) کے لوگ ٹھٹھر جائیں؛ ان کے آسمانوں پر ہمارا خوف اور دہشت چھائی رہے؛ جب ہم اپنے نیزے ان کی چھاتیوں میں گاڑھ دیں گے اور ہم ان کا خون اور ان کے سر کٹے ہوئے دیکھیں؛ تب ہم اللہ کے پسندیدہ ہوں گے۔
اسرائیل کے عدم استحکام کی ایک دلیل یہ ہے کہ صہیونی قابض حکومت کے اندر آپسی تنازعات بڑھ رہے ہیں؛ اور قابض رہنماؤں میں غداری اور بغاوت کی لہر اٹھ رہی ہے؛ نیتن یاہو نے قابض فوج کے چیف آف اسٹاف کو جنگی کونسل کے اجلاس سے پہلے اس کے لیپ ٹاپ ریکارڈنگ ڈیوائس کی خود تلاشی لینے پر مجبور کر دیا؛ حکومت کو اپنے ہی فوجی چیف اسٹاف پر جنگی کونسل میٹنگ کی خفیہ ریکارڈنگ کر کے لیک کرنے کا شبہ تھا؛ “اسرائیل ہمارا گھر ہے” پارٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ چیف آف اسٹاف کی تلاشی اسرائیلی فوج کے تمام سپاہیوں کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے۔
حالیہ حماس اسرائیل جنگ کو بعض حلقوں کی جانب سے اسرائیل کی تباہی کے پیش خیمے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے؛ اسرائیل غزہ پر اندھا دھند بمباری کر رہا ہے؛ غزہ کے شہید ہونے والے عام شہریوں کی تعداد 21 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے؛ لیکن اس جنگ میں اسرائیل اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا کر رہا ہے؛ اسرائیل غزہ میں تین مقاصد کے لیے داخل ہوا تھا ایک مجاہدین کے پاس اپنے اسرائیلی قیدیوں کو ڈھونڈھ نکالنا جس میں وہ اب تک ناکام ہے دوسرا حماس کے بڑے کمانڈر اور لیڈروں کو پکڑ کر حماس کا بالکلیہ صفایا کرنا ؛اب تک اسرائیل اس میں بھی ناکام ہے؛ تیسرا مکمل غزہ پر قبضہ کرنا اور مکمل غزہ کو اپنی مقبوضہ فلسطینی اراضی میں شامل کر کے اس پر اپنی حکومت قائم کرنا؛ اس میں بھی اسرائیل بری طرح ناکام ہوا ہے؛اب تک نہ صرف حماس باقی ہے بلکہ بھرپور مزاحمت کر رہی ہے؛ حماس کے علاوہ خالص سنی مجاہدین کی متعدد جماعتیں شریک مزاحمت ہیں؛ مزاحمت کا یہ سلسلہ 1980 اور اس سے پہلے سے جاری ہے؛ شہید عز الدین القسام نے جن کی شہادت 1935 میں ہوئی ان ساری جہادی تنظیموں کی بنیاد رکھی ہے؛ سوچنے کی بات ہے کہ گزشتہ 90 سالوں سے مزاحمتی تحریکات مزاحمت کر رہی ہیں مگر اب تک اسرائیل ان کا خاتمہ تو کیا کرتا ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکا؛ حماس کی بنائی ہوئی جنگی خندقیں صہیونی افواج کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہیں؛ بعض صہیونی فوجیوں کے محاذ جنگ سےفرار اختیار کرنے کی اطلاعات بھی آرہی ہیں ؛ہیں صہیونی یمام برگیڈیئر ؛غزہ کی مزاحمت کے حملوں کی شدت سے گھبرا کر خوف و دہشت میں آ کر اپنے مورچوں سے پیچھے ہٹ گئی؛ حتی کہ اس نے جنگ میں حصہ لینے سے تک انکار کر دیاہے؛ یمام برگیڈ کے بقول غزہ کا میدان بھول بھلیوں کی طرح تھا؛ اور نامعلوم دشمن کو تلاش کرنا ناممکن ہو رہا تھا؛ اس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم باقاعدہ فوجوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں؛ لیکن غزہ میں ہمیں اپنا دشمن نظر نہیں آرہا ؛جبکہ ہمیں ہر لمحہ وہاں سے مارا جا رہا ہے جہاں سے ہمیں معلوم نہیں؛ علاوہ ازیں حماس اور کتائب القسام کے ساتھ جنگ کے دوران کئی ایک اسرائیلی کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں؛ غزہ کے بیچ کیمپ پر متنازعہ ربی جیکب ہر زوگ کے قتل کی خبر ہے؛ جو کہ خلیجی ممالک میں یہودیوں کی نمائندگی کرنے والا پہلا ربی سمجھا جاتا تھا؛ یہ اور اس قسم کے دیگر عوامل اسرائیل کے عنقریب زوال کا مژدہ سنا رہے ہیں؛ اس وقت ایک طرف فلسطینی مجاہدین کی جرأت اور حوصلہ مندی قابل دیدنی ہے؛ ایسی شدید بمباری کے باوجود اس کے مجاھدین اسرائیل کو شکست سے دوچار کرنے کے عزائم کا پورے وثوق کے ساتھ اعلان کر رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے حوصلوں اور ایمانی ولولوں میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے ؛ دوسری طرف اسرائیلیوں کو ان کے حلقوں میں گردش کر رہی ایک پیش گوئی خوب ستا رہی ہے؛ اور ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں؛ اسرائیلی مملکت کے زوال سے متعلق یہ پیش گوئی ہے؛ جسےآٹھویں دہائی کی لعنت سے جانا جاتا ہے؛ صہیونی حلقوں میں یہ پیش گوئی موضوع بحث بنی ہوئی ہے؛ عنایت شمسی نامی ایک کالم نگار نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: صیہونی حلقوں میں بعض تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ پیش گوئی گردش کر رہی ہے کہ اسرائیل کے قیام کی آٹھویں دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی ناجائز اسرائیلی ریاست کے خاتمے کا وقت شروع ہو چکا ہے؛ چنانچہ تورات اور تلمود کے حوالے دے کر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ریاست اسرائیل آٹھویں دہائی کی لعنت سے خود کو محفوظ رکھ پائے گی یا نہیں؟ آگے آٹھویں دہائی کی لعنت کی وضاحت کرتے ہوئے کالم نگار نے اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود باراک کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ سال اسرائیل کے سابق وزیراعظم باراک نے اسرائیل کے قیام کی ٨٠ ویں سالگرہ سے قبل اسرائیل کے انہدام اور شکست و ریخت کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ دو غیر معمولی ادوار کے علاوہ یہودیوں کے پاس 80 سال سے زیادہ عرصے تک کوئی ریاست نہیں رہی ہے؛ اسرائیلی اخبار یدیعوت احرنوت میں شائع اپنے ایک مضمون میں سابق وزیراعظم اسرائیل کا کہنا تھا کہ یہودیوں کی پوری تاریخ میں ان کی کوئی ریاست 80 سال سے زیادہ نہیں رہی ہے؛ سوائے دو ادوار کے اول کنگ ڈیوڈ (حضرت داؤد علیہ السلام جو نبی اور بادشاہ تھے) کا دور اور دوم حشمونیہ کا دور ؛ان دو ادوار کے علاوہ یہودیوں کی کوئی ریاست 80 سال تک قائم نہیں رہ سکی؛ ایہود باراک کا مزید کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کا موجودہ تجربہ” اسرائیل” یہودی تاریخ کا تیسرا تجربہ ہے؛ جو اپنے آٹھویں عشرے میں داخل ہو چکا ہے؛ باراک نے تاریخی تعامل کا حوالہ دیتے ہوئے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آاٹھویں دہائی کی لعنت اب اسرائیل پر بھی اسی طرح نازل ہوگی جس طرح تاریخ میں اس سے پہلے مختلف یہودی ریاستوں پر پڑتی رہی ہے؛ باراک نے نشاندہی کی کہ آٹھویں دہائی کی لعنت سے صرف یہودی ہی متاثر نہیں ہوئے ہیں امریکہ کو بھی اپنی آٹھویں دہائی میں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا؛ اسی طرح اٹلی آاٹھویں دہائی میں ایک فاشسٹ ریاست میں بدل گیا تھا؛ جرمنی آٹھویں دہائی میں نازی ریاست میں تبدیل ہوا ؛اور آٹھویں دہائی کی لعنت میں گرفتار ہو کر شکست و ریخت سے دوچار ہوا؛ روس کا کمیونسٹ انقلاب بھی آٹھویں دہائی میں تباہی سے دوچار ہوا؛ اسرائیل ایک مشکل جغرافیائی خطے میں واقع ہے؛ اس حال میں ہمیں اپنے آپ کو سنبھالنا بہت ضروری ہو گیا ہے؛ باراک نے تلمودی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اب آٹھویں دہائی میں اس حال میں آ پہنچے ہیں کہ ریاست اسرائیل طوفانوں کی زد میں ہے ایسے میں ہم تلمود کے احکامات کو نظر انداز نہیں کر سکتے؛ اسکی تائید کرتے ہوئے ایک دوسرے یہودی اسکالر ایری شاویت نے بھی اپنی کتاب دی تھرڈ ہاؤس میں اسرائیل کے قیام کی آٹھویں دہائی میں اس کے وجود کو لاحق خطرات کا ذکر کیا ہے؛ اسرائیلی تجزیہ کار روگل اولفر کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے ڈیتھ سرٹیفکٹ پر دستخط کر دیے ہیں؛ وہ اس کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ایک سے زائد محاذ جنگ؛ اندرونی ٹوٹ پھوٹ؛ بدعنوانی؛ یہودی تحریکات کے داخلی تنازعات؛ اور اسرائیلی معاشرے میں ثقافتی تضادات؛ جیسے عوامل اسرائیل کے وجود کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔(ایم ایم نیوز ٢٥ دسمبر ٢٠٢٣)
۰۰۰٭٭٭۰۰۰