شہید جنرل قاسم سلیمانی "شہید المقدس" کیوں؟

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ القدس فورس کے سربراہ شہید سلیمانی کا کردار مختلف پہلوؤں سے تحقیق کے قابل ہے۔ انہوں نے ایران کے بین الاقوامی کمانڈر کی حیثیت سے 11 ستمبر کے بعد ملک کو مشرقی اور مغربی سرحدوں سے درپیش خطرات کا بھرپور مقابلہ کیا۔ صہیونی حکومت کے غاصبانہ قبضے اور القدس کی آزادی کے سلسلے میں ان کی جدوجہد قابل قدر ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے شہید سلیمانی کی تشییع جنازہ میں کہا تھا کہ شہید سلیمانی نے اپنی زندگی فلسطین اور بیت المقدس کی حمایت میں گزاری وہ شہید القدس ہیں۔ شہید سلیمانی کے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ القدس کی راہ کے شہید ہیں۔

اسلامی انقلاب کے اصولوں اور اہداف پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کا مقابلہ شروع سے ہی اس کے اہم مقاصد میں سے تھا۔ مظلوم کی حمایت استکبار اور ظلم ستیزی پر مستزاد ہے۔

اس بنا پر اسلامی جمہوریہ ایران خود کو استکبار اور استعمار کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ دنیا کے ان مظلوموں کی حمایت کا پابند سمجھتا ہے جو استکبار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ آئین کے آرٹیکل 154 کے مطابق ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم مظلوموں کے طرفدار ہیں جو کسی بھی خطے میں مظلوم ہو، ہم اس کے حق میں ہیں۔ القدس کے دفاع میں شہید سلیمانی کا انقلابی جذبہ قائد انقلاب کے اس بیان کے متوازی ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اسلام اور امام خمینی کے مکتب کے تربیت یافتہ افراد میں سے بہترین نمونہ تھے۔

شہید سلیمانی صہیونیوں سے مقابلے کو مسئلہ فلسطین کے حل کا واحد راستہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے شہید مرتضی حسین کے چہلم کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں مقاومت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ہم نے صدام کے خلاف جنگ میں دو لاکھ شہید دیے اگر شہید نہ دیتے تو کیا ہوتا؟ یاسر عرفات نے اسلحہ پھینک دیا اور ان کو فریب دے کر اسلحہ چھینا گیا اس کا نتیجہ کیا ہوا؟
شہید سلیمانی نے عماد مغنیہ کی شہادت کے بعد کہا کہ آج فلسطین اور لبنان اسرائیل کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ فلسطین سے فائر ہونے والے ہر میزائل پر عماد مغنیہ کا انگوٹھا دیکھا جاسکتا ہے۔ 

القسام بریگیڈز کے کمانڈر کے نام انہوں نے لکھا کہ سب کو یقین دلائیں کہ ایران پر بین الاقوامی دباو جتنا بھی بڑھ جائے ایران فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑے گا جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول اور رسول اکرم کے معراج کی جگہ ہے۔ فلسطین کا دفاع ہمارے لئے عزت کا باعث ہے۔ دنیا کے مال و دولت کے عوض اس دینی واجب سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ فلسطین کا دفاع اسلام اور قرآن کا دفاع ہے۔ جو بھی آپ کی آواز سنے لیکن حمایت کے لئے قدم نہ اٹھائے مسلمان نہیں ہے۔

القدس اسلام اور مغرب کا مرکزی تنازع

ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم کردار ہونے کی حیثیت شہید سلیمانی مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے خوب واقف تھے البتہ وہ فلسطین کو ایک سیاسی مسلئے سے زیادہ دینی اور پورے عالم اسلام سے مربوط مسئلہ قرار دیتے تھے۔ تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس ہمیشہ شہید سلیمانی کے دل میں تھا۔ ہر جنگ میں شہید سلیمانی موجود تھے بلکہ وہ مرکزی کردار تھے۔

شہید سلیمانی نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ اسلام اور مغرب کا تنازع ایک مسجد پر ہے۔ عالم اسلام کے درمیان اتحاد بھی اسی ایک مسجد کے محور پر ہوسکتا ہے۔ ساری جنگ مسجد اقصی کی خاطر ہے۔ عالم اسلام کے خلاف سازشیں اسی مسجد کی خاطر ہیں۔ یہ مسجد امت مسلمہ کو متحد کرسکتی ہے۔ 

1997 میں القدس فورس کی سربراہی ملنے کے بعد سے لے کر 2020 میں شہید ہونے تک شہید سلیمانی نے امام خمینی اور رہبر معظم انقلاب کے فرامین کی روشنی میں اس فورس کی پوری توجہ کو ایران اور اسلام کے حقیقی دشمن صہیونی حکومت پر مرکوز کی تھی۔ سردار حسن روندہ کے مطابق شہید سلیمانی نے یوم القدس اور خطے کی مقاومت کے صف اول میں اپنی موجودگی کو یقینی بناکر اہم کردار ادا کیا۔ شہید سلیمانی کے ساتھی حسن روندہ کہتے ہیں کہ شہید سلیمانی عالمی یوم القدس پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ اپنی 23 سالہ سربراہی کے دوران انہوں نے اس دن کو منعقد کرنے پر خصوصی توجہ دی اور پوری دنیا میں ذاتی طور پر اس دن کی تقریبات کی نگرانی کرتے تھے گویا شہید سلیمانی نے یوم القدس کو زندہ کیا تھا۔

ان کا دوسرا اقدام صف اول میں جاکر صہیونی حکومت کا مقابلہ کرنا تھا۔ القدس فورس میں ان سے پہلے سنجیدہ فوجی اقدامات نہیں تھے۔ پوری توجہ دفاعی اقدامات پر تھے لیکن شہید سلیمانی نے اس فورس کے اندر بنیادی تبدیلیاں ایجاد کیں۔ وہ صف اول کے محاذ پر جاتے تھے اور حالات کی نگرانی کرتے تھے۔

فلسطینیوں کی جھولی بھردی

رہبر انقلاب کا یہ فرمانا کہ شہید سلیمانی نے فلسطینیوں کی جھولی بھردی ان کے کردار کا واضح ترین ثبوت ہے۔ رہبر معظم نے فرمایا تھا کہ ہم نے اسرائیل کے خلاف کاروائیوں میں حصہ لیا 33 روزہ جنگ اور 22 روزہ میں جس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ شہید سلیمانی کی مدد سے حماس نے میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کیا۔ طوفان الاقصی میں دیکھا گیا کہ غزہ میں سرنگیں اور ان میں موجود میزائلوں کو اسرائیل تباہ کرنے میں ناکام رہا۔ تحریک جہاد اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد کہا تھا کہ یہ کام معجزے سے کم نہیں انتہائی سخت اور دشوار تھا تاہم کامیابی کے ساتھ انجام دیا گیا۔ شہید سلیمانی نے جو میزائل غزہ تک پہنچائے تھے ان کو تل ابیب پر فائر کیا گیا۔

شہید سلیمانی کا ایک کردار فلسطین کے مسئلے پر تمام مقاومتی گروہوں کو جمع اور یکجا کرنا تھا۔ انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو پتھر کے بجائے جدید ہتھیار سے مسلح کرنے کے علاوہ القدس کے دفاع کے لئے سب کو یکجا کیا۔ پہلے مقاومتی تنظیمیں ایک دوسرے سے جدا اور دور رہ کر کاروائیاں کرتی تھیں لیکن شہید سلیمانی نے مقاومتی تنظیموں کا ایک اتحاد تشکیل دیا۔ طوفان الاقصی کے دوران ہم نے دیکھ لیا کہ عراق، لبنان اور یمن سے مقاومتی تنظیموں نے مل کر اسرائیل پر حملہ کیا۔

نتیجہ 

شہید قدس کا لقب ملنا دلیل ہے کہ شہید سلیمانی بیت المقدس کی آزادی اور صہیونی حکومت سے مقابلے کو اولین ترجیح دیتے تھے۔ انہوں نے صہیونی حکومت سے مقابلے کو سرمشق قرار دیا تھا اور حماس اور جہاد اسلامی جیسی فلسطینی تنظیموں کو اس مقصد کی خاطر مسلح کردیا تھا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *