[]
ناگپور: کانگریس قائد راہول گاندھی نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مہاراجاؤں کی طرح کام کرتی ہے اور ہر کام کے لیے اوپر سے حکم پر عمل کیا جاتا ہے لیکن کانگریس میں عام کارکنوں کی بات نہیں سنی جاتی ہے اور عام کارکن بھی اعلیٰ قیادت تک اپنی بات پہنچاسکتا ہے۔
کانگریس کے 139 ویں یوم تاسیس کے موقع پر یہاں منعقد ایک بڑی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت میں عوام کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ ملک میں دلتوں‘ قبائلیوں‘ او بی سی وغیرہ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور جب تک ملک میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی جاتی انہیں انصاف نہیں مل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ مرکز میں کانگریس کی حکومت آنے پر ملک میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی جائے گی۔ کانگریس نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کا کام کرتی ہے اور پورے ملک اور پورے سماج میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا کام کرتی ہے۔
راہول گاندھی نے کہا کہ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ملک میں اقتدار کی لڑائی چل رہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ لڑائی دو نظریات کے درمیان ہے۔ بی جے پی کا نظریہ بادشاہوں کا نظریہ ہے، وہ کسی کی نہیں سنتے۔
بی جے پی میں اوپر سے حکم آتا ہے اور سب کو ماننا پڑتا ہے جبکہ کانگریس پارٹی میں کارکنوں کی طرف سے آواز آتی ہے اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی میں جو بھی کام ہوتا ہے اوپر سے حکم آتا ہے لیکن کانگریس میں چھوٹا کارکن بھی ہمیں روک سکتا ہے اور ہم سے اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے۔
مہاراشٹر کانگریس کے صدر جب بی جے پی میں تھے تو انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے جی ایس ٹی میں کسانوں کی حصہ داری کے حوالے سے سوال پوچھ لیا تھا جس کے بعد انہیں بھگادیاگیا تھا، لیکن کانگریس میں ایک عام آدمی کو بھی بولنے کی آزادی ہے۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ ہمارا نظریہ کہتا ہے کہ ملک کی باگ ڈور ملک کے لوگوں کے پاس رہنی چاہئے اور ملک کو بادشاہت کی طرح نہیں بلکہ جمہوری طریقہ سے چلایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ادارے عوامی ووٹوں سے بنتے ہیں، لیکن آر ایس ایس نے تمام اداروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرس کا تقرر صرف ایک نظریہ کے لوگوں سے کیا جا رہا ہے۔انہوں نے بے روزگاری کا مسئلہ بھی اٹھایا اور کہا کہ ملک میں بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ ملک میں اتنی بے روزگاری کبھی نہیں تھی۔ ملک کے نوجوان بے روزگار ہیں اس لیے وہ گھنٹوں موبائل فون پر مصروف رہتے ہیں۔