فوجداری قوانین کے تین ترمیمی بلز یکطرفہ طور پر اور بغیر مباحث کے پاس ہوگئے۔ ملزمین کو ضمانت کے حصول میں دشواری ہوگیپولیس کو لامتناہی اختیارات۔ پولیس حراست کی مدت90یوم تک ہوسکتی ہے

[]

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ ماب لنچنگ جرائم میں سزائے موت۔
٭ نابالغ لڑکی کی عصمت دری میں سزائے موت۔
٭ کار سے ٹکر دے کر بھاگنے کے جرم میں دس سال قید۔
٭ زیرو (FIR) کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔
مودی حکومت نے تین متنازعہ فوجداری قوانین کو اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظورکروالیا۔ یہ قوانین ایسے وقت ندائی ووٹ سے منظور کئے گئے جب151 اراکین پارلیمان کو معطل کرکے ایوان سے باہر کردیا گیاتھا۔ پارلیمانی آمریت کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اُڈولف ہٹلر نے جرمن پارلیمان کو جلادیا تھا لیکن موجودہ حکومت ہٹلر سے بھی دو قدم آگے نکل گئی۔ اس قانون سازی کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ گرفتاری کے معاملات میں پولیس کو لامتناہی اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس سے بدترین یہ بات ہوگی کہ پولیس ریمانڈ کو90 دن تک بڑھادیا گیا ہے گویا جب تک مکمل تفتیش نہیں ہوتی ملزم پولیس تحویل میں رہے گا البتہ وقتاً فوقتاً عدالت سے ریمانڈ کی مدت بڑھانے کی اجازت طلب کی جاتی رہے گی۔ قوانین میں بہت ہی سخت سزاؤں کی گنجائش ہے۔ 1860ء کے قانون کے تحت غفلت و لاپرواہی سے کسی کی موت واقع ہوجائے تو انتہائی سزا کی مدت دو سال تھی جسے اب بڑھا کر سات سال کردیا گیا ہے اور اگر کوئی شخص کسی کو اپنی کار‘ ٹرک یا موٹر سائیکل سے ٹکر دیکر فرار ہوجائے تو ایسی صورت میں سزا کی مدت دس سال تک ہوگی۔ ایسی صورت میں جبکہ ٹرافک حادثات میں اموات کی شرح ہزاروں بلکہ لاکھوں ہوگئی ہے یہ بدلی ہوئی صورت کتنی خطرناک ہوسکتی ہے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ (RAPE) کے ملزمین کو سخت سزائیں ہوں گی اور اگر کوئی نابالغ لڑکی یعنی بارہ سال سے کم عمر کی لڑکی پر یہ ظلم ڈھایا جائے تو اس جرم کی سزا موت ہوگی جو بالکل واجبی معلوم ہوتی ہے۔ اس گھناؤنے جرم میں بہت ہی سخت سزا ہوگی یعنی عمر قید۔ اگر لڑکی کی عمر(16) سال سے کم ہو۔
اس نئے قانون نے UAPA اور NASA کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لیکن اس بات کا ضرور اندیشہ ہے کہ یہ قانون مسلمان‘ دلتوں اور قبائلی افراد کے خلاف استعمال ہوگا اور جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کے تحت یہ مظلوم طبقات اس قانون کی چکی میں پیس دیئے جائیں گے۔ گویا قوانین کی بدولت ہندوستان ایک پولیس اسٹیٹ بن جائے گا۔
ایک اور تباہ کن ترمیم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم میں ملوث ہوا اور اسے ضمانت پر رہائی نہیں مل سکی تو جملہ سزا کی مدت کے نصف وقفہ جیل میں گزارنے کے بعد اسے خودبخود ضمانت پر رہا کردیا جائے گا گویا جو مدت اس نے جیل میں کاٹی وہی ضمانت پر رہائی کے لئے کافی ہوگی اس حقیقت کے قطع نظر کہ مقدمہ چلنے کے بعد وہ بے قصور ثابت ہو۔
اس پولیس اسٹیٹ میں انصاف کب ملے گا۔ ہر ملزم پولیس کے رحم و کرم پر ہوگا۔
یہ قانون سازی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ موجودہ زعفرانی حکومت جمہوری لبادہ میں آمریت کے اصولوں پر کاربند ہے۔
ماب لنچنگ میں گو کہ سزائے موت کی سزا مقرر کی گئی ہے لیکن اس جرم کو ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو صرف ان کے کپڑوں اور داڑھی کی وجہ سے بھیڑیوں کا ایک غول گھیرلیتا ہے اور بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے۔ راجستھان اور ہریانہ کی سرحد پر ایک کار میں بیٹھے ہوئے دو مسلم نوجوانوں کو کس دردناک طریقہ سے شہید کردیا گیا اور قاتلو ںکو حکومت ہریانہ نے تحفظ عطا کیا تھا ۔ ایک مدت کے بعد ملزم مونومانیسر گرفتار ہوا۔
یہ قانون پیشۂ وکالت کیلئے بھی کسی چیالنج سے کم نہیں۔ اس پیشہ پر کتنی کاری ضرب لگے گی ابھی اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
فیض احمد فیضؔ
ZERO F.I.R کی سہولت فراہم کی گئی ہے وہ بھی ZERO ہی ہے۔
جائیدادوں کے PARTITION کیلئے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ
غیر منقولہ جائیدادیں جو مل کر خریدی جائیں یا آبائی ہوں ان کی تقسیم یعنی Partition کیلئے اس سے پہلے رجسٹریشن ایکٹ کی روشنی میں رجسٹری ضروری تھی اور رجسٹر شدہ پارٹیشن ڈیڈ کے ذریعہ ہی ایسی جائیدادیں تقسیم کی جاسکتی تھیں۔ علاوہ ازیں2011ء سے پہلے گفٹ ڈیڈ کی بھی رجسٹری ضروری تھی۔ لیکن2011ء کے حفیظہ بی بی مقدمہ میں فیصلہ صادر ہونے کے بعد صرف مسلمانوں کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں تھی اور غیر رجسٹر شدہ ہبہ نامہ کو قانونی حیثیت ہوگئی تھی۔
لیکن جاریہ ہفتہ سپریم کورٹ کے ایک اجلاسِ کاملہ نے ایک اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ آبائی یا ایک سے زیادہ افراد کی جانب سے خریدی ہوئی جائیدادوں کی تقسیم کے لئے اب رجسٹری کی ضرورت نہیں صرف اتنا ثابت ہوگا کہ غیر منقسمہ جائیداد میں ایک یا سب کا حق تھا۔
اس فیصلہ کی روشنی میں اب آبائی یا ایک سے زیادہ افراد کے نام پر خریدی ہوئی جائیداد کی تقسیم Partition کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت باقی نہیں رہی اور آپسی طور پر کسی دستاویز پر تحریر کردہ تقسیم نامہ اتنی ہی قانونی اہمیت کا حامل ہوگا جتنا کہ ایک رجسٹر شدہ تقسیم نامہ۔
لہٰذا مالکینِ جائیداد کو رجسٹریشن کے اخراجات برادشت کرنے کی ضرورت نہیں جو لاکھوں میں ہوسکتے ہیں۔
اب ہر کوئی مسلم یا غیر مسلم اپنی آبائی یا متفقہ طور پر خریدی ہوئی جائیداد کی خود ہی آپسی تقسیم کرسکتے ہیں اور ایک تقسیم نامہ کے دستاویز تیار کرکے اپنے حصہ کی مکمل ملکیت حاصل کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اس قانونی موقف کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
روڈ نمبر12بنجارہ ہلز۔ ٹاؤن پلاننگ کی نوٹس سے مالکینِ جائیداد کی ہراسانی
روڈ نمبر12 بنجارہ ہلز‘ حیدرآباد کے دونوں جانب کے مالکینِ جائیداد کو میونسپل ٹاؤن پلاننگ کے متعلقہ ڈپٹی کمشنر میونسپل کارپوریشن نے نوٹس جاری کرتے ہوئے مالکینِ جائیداد میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ نوٹس میں مالکینِ جائیداد سے درج ذیل مطالبات کئے جارہے ہیں۔
-1 سڑک نمبر12کی توسیع 100 فیٹ کی حد تک ہورہی ہے تاکہ ٹرافک میں سہولت ہو۔
-2 آپ اپنے رجسٹر شدہ دستاویزات پیش کیجئے جس سے ثابت ہوسکے کہ آپ جائیداد کے مالک ہیں۔
-3 آپ کی بلڈنگ کی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے منظور شدہ تعمیری نقشہ کی نقل پیش کریں۔
یہ مطالبات کیوں کئے جارہے ہیں یہ بات واضح نہیں ۔ متعلقہ عہدیدار کو چاہیے تھا کہ وہ باز آفتہ قانونِ حصول اراضی کے تحت متاثرہ اراضی کے حصول کی نوٹس جاری کرتا اور قانونِ حصولِ اراضی بابتہ سال2013ء کے مطابق کارروائی کی جاتی تاکہ معقول معاوضہ ادا کئے جانے کی صورت پیدا ہوتی۔
اب مالکینِ جائیداد کی ہراسانی کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے کہ آپ کے مکان کی تعمیر منظورہ پلان کی مخالفت میں کی گئی ہے یا اجازت طلب ہی نہیں کی گئی اور آپ کی تعمیر غیر قانونی ہے۔ یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ نوٹس جاری کرکے کیوں نہ غیر قانونی تعمیر کو منہدم کردیاجائے اور اس طرح ایک نفسیاتی دباؤ ڈالاجاسکتا ہے تاکہ مالکِ خوف کے سائے تلے متاثرہ رقبۂ اراضی کو بغیر کسی معاوضہ کی ادائیگی کے حوالے کردے۔
اس سڑک پر اراضی کی قیمت لاکھوں روپیہ فی مربع گز ہے اور اس جگہ اراضی کا ملنا نہ صرف دشوار ہے بلکہ ناممکن ہے ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نو منتخب شدہ حکومت بغیر معاوضہ کے ہی قیمتی اراضی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ تمام مالکینِ جائیداد کو رائے دی جاتی ہے کہ وہ قانونی مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں ورنہ شدید نقصانات کا اندیشہ رہے گا۔
کیا شادی سے پہلے رسم توڑا جاسکتا ہے
جواب:- آپ کے نام اور محلہ کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جارہا ہے اور یہ آپ کی خواہش کے احترام میں ہورہا ہے۔ آپ کی خوبصورت ‘ تعلیمیافتہ اور دیندار لڑکی کا رشتہ طئے ہوا۔ لڑکا امریکہ کا شہری ہے جبکہ والدین حیدرآباد میں رہتے ہیں۔ رشتہ کی بات ہوئی۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ہمیں صرف شادی کی جلدی ہے ۔ پھر بھی آپ لوگوں نے ان کی خواہش کا احترام کیا اور شادی سے پہلے کی رسم ادا کی گئی اور انگشتری کا تبادلہ ہوا اور شاندار پیمانہ پر آپ لوگوں نے دعوت کی۔ شادی کے لئے ایک ماہ کا وقت مقرر ہوا تاہم تاریخ نہیں دی گئی۔ درایں اثناء اس بات کا علم ہوا کہ لڑکا پہلے ہی شادی شدہ ہے اور اس کا ایک بیٹا بھی ہے ۔ یہ حقیقت آپ سے چھپائی گئی۔
اس حقیقت کے افشاء ہونے کے بعد آپ نے بجا طور پر رسم توڑ دیا۔ بہت اچھا کیا۔
اس عمل سے آپ کی لڑکی کی شادی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو آپ یقینی طور پر کہہ سکتی ہیں کہ ہم نے اپنی طرف سے رشتہ توڑ دیا کیوں کہ وہ لوگ ہمیں دھوکہ دے کر ہماری لڑکی کی زندگی برباد کردینا چاہتے تھے۔ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں۔ اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں کے خلاف دھوکہ دینے کی کوشش کا F.I.R جاری کرواسکتے تھے۔ خیر جو بھی ہوا بہت اچھا ہوا۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *