ایک دعوت ایسی بھی…

[]

حمید عادل

ہم اللہ کوپیارے ہوچکے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ اللہ ہم سے پیار کرتا بھی ہے کہ نہیں۔اس بات کا پتا تو ہمیں اْس وقت چلے گا جب ہمارے دوست احباب قبر میں پرتپاک اتارکر ہمیںتنہا چھوڑ جائیں گے۔ آپ شاید یقین نہیں کریں گے کہ ہمارا انتقال محض چہلم کی ایک عالیشان دعوت کو دیکھ کر ہوا تھا اور اب چالیس روز بعد خودہمارا چہلم ہونے والا ہے۔دراصل ہم سمجھنے سے قاصرتھے کہ اس طرح فضول خرچی سے آخر مرحوم کو کیا فائدہ ہوگا؟ہمہ اقسام کی بریانی،ہمہ اقسام کے میٹھے، لذیذ ترین حلیم ، چکن سے تیار کردہ مختلف ذائقہ دار پکوان ہی نہیں بلکہ شادی خانے کو برقی قمقموں اور فواروںسے ایسے سجایا گیا تھا کہ جیسے کسی کی موت پر ماتم نہیں بلکہ خوشیاں منائی جارہی ہوں۔ جس کے چہلم کی دعوت تھی وہ ہمارے دیرینہ رفیق تھے،ان کا کوئی لڑکا امریکہ میں تھا تو کوئی برطانیہ میں، کوئی جاپان میں تھا تو کوئی چین میں۔جب مرحوم اس دنیا سے چل بسے تو ان کے آس پاس ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہ تھا ، حتیٰ کہ ان کی تدفین کے موقع پر بھی ان کے کسی سعادت مندبیٹے نے شرکت نہیں کی تھی لیکن وہ اپنے والد کا چہلم کچھ اس طرح عالیشان پیمانے پر منانا چاہتے تھے کہ تدفین میں ان کی غیر حاضری کا احساس جاتا رہے۔ ہم وہاں سے جھٹکا کھاکر اور آنسو پی کر گھر لوٹ آئے اور چہلم کے نام پر تماشے کا اثر ہمارے دل پر کچھ اس طرح ہوا کہ ہم ساری رات کروٹیں بدلتے رہے اور صبح صبح لوگ ہماری لاش کا مشاہدہ کرکے دعافرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ چین نصیب کرے…
ہماری اچانک موت سے گھر میں کہرام مچ گیا، ہمارے گزر جانے کے صدمے سے زیادہ سبھی کو یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ہمیں آخر دفنایا کہاں جائے؟ جیسے جیسے ہمارے انتقال کی اطلاع ہمارے دوست احباب اور رشتے داروں کو ملتی گئی، وہ جوق در جوق ہمارے غریب خانے پروارد ہوتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے روبروجم غفیر جما ہوگیا۔ ان کے کھلے کھلے چہرے اور ان کی پرلطف گفتگو سے قطعی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ہماری میت پر آئے ہوئے ہیں۔
وفات پاتے ہی ہماری چھٹی حس مزید تیز ہوگئی اور ہمیں اپنے دوست احباب کی سوچ و فکربآسانی سمجھ میں آنے لگی تھی۔ بیشتر کے دلوں میں یہ سوال کلبلارہا تھا کہ آخر اْسے فاتحہ سیوم میں کیا کھانے کو ملے گااور چہلم کامینو کیا ہو گا؟یہ وہ لوگ تھے جومحض اس لیے حاضر ہوئے تھے تاکہ وہ ہماری تدفین میں شریک ہوکر چہلم کی دعوت کے حقدار بن جائیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو ہمارے چہلم کی دعوت اڑانا، اپنے آپ میںایک اعزاز سمجھ رہے تھے۔
گھوڑے خاں ،چنے ہی نہیں پوٹلے کی بریانی بھی خوب کھاتے ہیں اور اس کے لیے وہ کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔وہ ایک خاص اداکے ساتھ ہماری میت کے قریب آئے، پہلے تودیر تک گھور گھور کر ہماری میت کو دیکھتے رہے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ دراصل ہم نے انہیں دو دن بعد شہر کے کسی معروف ہوٹل میں بریانی کھلانے کا وعدہ کیا تھااور وہ وعدہ وفا نا ہونے کا انہیں اس قدر ملال تھا کہ وہ ہمارے انتقال پرملال پر اپنے آنسو روک نا سکے تھے اور دنیا سمجھ رہی تھی کہ دو دوستوں میں کیا والہانہ محبت ہے!ان کا رونا بلکنا اور پچھاڑیں کھانا دیکھ کر ہمارے بڑے فرزند جو قریب ہی کھڑے تھے ،وہ بھی رو پڑے،حالانکہ ابھی تک ان کی آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں آیا تھا۔ جس طرح جمائی لیتے ہوئے کسی شخص کو دیکھ کر دوسرا شخص بھی بے ساختہ اپنا منہ کھول دیتا ہے ٹھیک اسی طرح ایسے درد ناک موقعوں پر کسی روتی صورت کو دیکھ کر دیگر لوگ بھی رونا شروع کردیتے ہیں۔ روتے روتے گھوڑے خاں نے ایک چھوٹا سا بریک لیا اورہمارے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے بناوٹی دکھ کے ساتھ کہا :
’’ بیٹے!بہت دکھ ہے مجھے، بے انتہا دکھ…‘‘ اور پھر قدرے توقف سے وہ ہمارے فرزندکی کھوپڑی پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے:
’’ بیٹے …!چہلم میں پکوان کیا ہوگا؟‘‘
’’ ابھی سوچا نہیں ہے انکل‘‘ آنسو پونچھتے ہوئے ہمارے لڑکے نے دبی دبی آواز میں جواب دیا۔
’’ میں یہ کیا سن رہا ہوں بیٹے، تمہارے والد کا انتقال ہوئے پانچ گھنٹے گزر چکے ہیں اور تم نے چہلم کے مینو کے بارے میں ابھی تک سوچا بھی نہیںہے۔ دیکھو بیٹے! آدمی صرف ایک بار ہی مرتا ہے ،اس لیے چہلم میں کسی بخالت کا مظاہرہ ہرگز نا کرنا۔ تمہارے فرشتہ صفت والد کی روح ابھی یہیں بھٹک رہی ہے، اسے اسی وقت چین نصیب ہوگا جب وہ چہلم کے مینوکے تعلق سے پوری طرح مطمئن ہوجائے گی۔‘‘
’’ کیاواقعی ایسا ہوتا ہے؟‘‘ ہمارے سادہ لوح فرزند نے حیران ہوکر سوال داغا۔
’’ہاں ہاں…ہوتا ہے ،اگر تم چہلم کے پکوان کے تعلق سے میرے کان میں بھی کہہ دو توحمید عادل کی روح مینو کو سن لے گی اورپھرمیرا دوست خوشی خوشی قبر کا عذاب جھیل جائے گا!‘‘
دریں اثنا وہاں احتیاط علی محتاط آگئے اورآتے ہی سوال دے مارا:
’’ کیاباتیں ہورہی ہیں بھائی؟‘‘
’’ کچھ نہیں،بس ایسے ہی۔‘‘ گھوڑے خاں نے ٹالنے کی کوشش کی تو احتیاط علی محتاط چہک اٹھے:
’’ مجھے کیا بیوقوف سمجھ رکھا ہے،میں دس فٹ کے فاصلے پر کی جانے والی گفتگو بھی سن لیتا ہوں، بطور خاص جب بات کھانے کھلانے کی ہو، ابھی ابھی تم پکوان کی بات کررہے تھے ناں۔‘‘
’’ ہاں انکل!ہم چہلم کے مینو کے تعلق سے فکر مند ہیں۔‘‘ہمارے ہونہار لڑکے نے جواب دیا۔
’’تمہیںفکر مند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، دیکھو تمہارے والد کھانے سے زیادہ کھلانے پر یقین رکھتے تھے، خود تو چمچ دو چمچ غذا کھالیتے لیکن ہمیں مشقاب بھر بھرکر کھلاتے۔مرنے سے صرف ایک دن قبل انہوں نے چکن سکسٹی فائیو اور فروٹ کے میٹھے میں دلچسپی دکھائی تھی۔ اگر یہ دو ڈشیں چہلم کے موقع پر تیار کردی جائیں تونا صرف حمید عادل کی روح خوش ہوجائے گی بلکہ لوگ چہلم میں اپنا اپنا پیٹ بھر کر تمہارے والدکی اچانک موت کے غم کو ہلکا کرسکیں گے۔‘‘
احتیاط علی محتاط چپ ہوئے تو گھوڑے خاں شروع ہوگئے:
’’ مرنے سے صرف چند گھنٹے قبل حمید عادل نے پوٹلے کی بریانی کھانے کی تمناکا اظہار کیا تھا، اگر چہلم کے موقع پر اصلی مصالحہ جات سے مزین مٹن بریانی تیار کردی جائے تو مجھے یقین ہے کہ حمید عادل خوشی سے قبر میں ناچنے لگے گا۔‘‘
’’ بے فکر رہیں انکل …کوئی دعوتی ،بابا کے چہلم سے مایوس نہیں لوٹے گا،میں بابا کا ایسا چہلم کروں گا کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی۔‘‘
ہمارے فرزند نے ہمارے اْن دوستوں کو دلاسہ دیا جو خود ہمارے بیٹے کو دو لفظی پرسہ تک نہ دے سکے تھے۔
ہم اتنے مجبور تھے کہ اپنے بیٹے کو اسراف سے روک بھی نہیں سکتے تھے۔دفعتاً یہ خیال بجلی کی طرح کوندا کہ ہم اس دنیا سے چل بسے تو کیا ہوا، اپنے بیٹے کے خواب میں جاکر اسے نصیحت توکر ہی سکتے ہیں کہ اگر تمہیں ہم سے محبت ہے توپھر تم کسی بھوکے کو کھانا کھلا دو، کسی ننگے کے تن کو ڈھانکو، کسی غریب لڑکی کی شادی میں کچھ نہ کچھ مدد کردو، کسی بیمار کودوائی دلا دو لیکن خدا کے لیے چہلم کے نام پرتماشا ہرگز نہ کرو۔
اپنی بات فرزند تک پہنچانے کی خاطر، خواب بہترین ذریعہ تھا۔آخر ہم نے زندگی میں بڑی بڑی مکروہ شخصیتوں کو اپنے خواب میں بلا کر ان کی ایسی کی تیسی کی ہے،اپنے بیٹے کو راہ راست پر لانا ہمارے لیے کونسا مشکل کام تھا۔ چنانچہ وفات کی پہلی ہی رات ہم اپنے فرزند کے خواب میں پہنچ گئے،لیکن جیسے ہی اس نامعقول نے ہمیں خواب میںدیکھا چیخ مار کربیدار ہوگیا اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اس واقعہ کے بعدجب جب ہم نے اس کے خواب میں آنے کی کوشش کرتے وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا۔وہ نادان بار بار ہمارے خواب میں آنے سے سمجھ بیٹھا کہ ہماری روح بے چین ہے اور اسے اْسی وقت چین نصیب ہوگا جب ہمارے چہلم کی دعوت کااعلیٰ پیمانے پراہتمام کیا جائے گا۔
ہمارے چہلم کی اعلیٰ پیمانے پر جب تیاریاں شروع ہوئیں توبیٹھے بیٹھے ہماری اکلوتی شریک حیات پھول بانو نے شگوفہ چھوڑا کہ ہمارا چہلم شہر کے ایر کنڈیشن اور محل نما شادی خانے میں منعقد کیا جائے۔ چنانچہ وہ رقم جو ہم نے اپنی دوسری لڑکی کی شادی کی خاطر اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ کاٹ کر جمع کی تھی، اسے ہمارے چہلم کی نذر کردینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔حد تو یہ کہ ہمارے احمق لڑکے نے ہمارے چہلم کو یادگار بنانے کی خاطر قرض تک لینے کا فیصلہ کرلیاتاکہ وہ دنیاکو جتا دے کہ وہ ہم سے کس قدر دیوانہ وار محبت کرتا ہے۔ چاہے دھوم دھام سے چہلم کرنے کے بعد وہ کبھی ہماری قبر پر آئے یا نہ آئے…
دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے چہلم کا دن آگیا، پھول بانو نے ایسی ایسی چیزوں کو ہماری ذات اور پسند سے منسوب کردیا ، جس سے دور کا بھی ہمارا واسطہ نہ تھا۔ فاتحہ خوانی کے موقع پرایر کنڈیشن شادی خانے کے ایک حصے میں انڈے سے لے کر مرغی کا گوشت تک، مٹن بریانی سے لے کر دم کا پلاؤ تک ،قلم سے لے کر کاغذ تک ،ہماری پسند کے لباس سے لے کر رومال تک۔ حتیٰ کہ ہم نے کالج کے دور میں جو سگریٹ نوشی کی تھی، اسے ملحوظ رکھتے ہوئے سگریٹ کی ڈبیوں کے انبار لگا دئیے گئے، جیسے ہماری روح ان تمام چیزوں سے لطف اندوز ہوگی۔ماحول کو مہکانے کی خاطر اگربتیوں کے پیاکٹ کے پیاکٹ سلگا دئیے گئے ، ایسے جیسے اگربتی کے دھوئیں سے ہمارے گناہ دھواں ہوجائیں گے۔
ہمارے چہلم میں کوئی غریب توشریک نہ تھا، البتہ شہر کے معزز حضرات کے علاوہ ایسے دوست احباب ضرور جلوہ افروز تھے، جن کے ہاں کھانے پینے کی کوئی کمی نہ تھی۔ الغرض …ہمارا چہلم تو شادی کی طرز پر منایا گیا جبکہ ہماری شادی چہلم کی طرزپر ہوئی تھی، نہایت سادگی کے ساتھ۔ سڑک پر جمائے گئے ڈیرے میں دعوتیوں نے ویج بریانی اور مرچیوں کے سالن کے ساتھ ڈبل کا میٹھا دونوں ہاتھوں سے لوٹاتھا لیکن ہمارے چہلم میں دوست احباب اور رشتے دار لذیذ ترین پکوانوں سے شکم سیر ہونے کے باوجود شکایت کر رہے تھے کہ مٹن بریانی میں گوشت کم تھا، فروٹ کے میٹھے میں پستہ او ر بادام کی کمی تھی،چکن سکسٹی فائیو میں مرچ تیکھی ہوگئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ ان سارے دلخراش ریمارکس کو سننے کے بعد ہم خود پر قابو نہ رکھ سکے اور فیصلہ کرلیا کہ خواب میں جاکر باری باری ان کی خبر لیں گے۔سب سے پہلے ہم احتیاط علی محتاط کے خواب میں نہایت احتیاط کے ساتھ پہنچے اور ان کی دھلائی کی نیت سے انہیں مارنے کی چاہ میں ڈنڈا اٹھایا توخود ہی کو مار بیٹھے ، چوٹ اتنی شدید تھی کہ ہم ایک خوفناک چیخ مار کر بیدار ہوگئے، دیکھا تو ہم مسہری کے نیچے پڑے تھے اور نیچے پڑے پڑے سوچ رہے تھے کہ کیوں نا ہم جیتے جی اپنا چہلم کرلیں۔آپ مسکرا رہے ہیں…ذرا سوچیے جب بعد از مرگ کسی کی خدمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایوارڈ دیا جاسکتا ہے تو پھر قبل از مرگ چہلم کیوں نہیں کیا جاسکتا؟اپنی مرضی کے مطابق اور اپنی نظروں کے سامنے ،تاکہ چہلم کااسراف دیکھ کر مرنے کے بعدہمیں مرنا ، نہ پڑے!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *