[]
– مفتی ناصرالدین مظاہری
عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لاَ تُصَاحِبْ اِلَّامؤمِنًا، وَلاَ یأکل ُطَعَامَکَ َاِلاَّ تَقی۔ (ابوداود ،ترمذی)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کے سوا کسی کو ساتھی نہ بناؤ اور تمہارا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی اور نہ کھائے‘‘۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سب سے برا کھانا وہ ولیمہ ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔ شر الطعام طعام الولیمۃ یدعی لہا الاغنیاء، ویترک الفقراء۔ (بخاری)
آج کل ہمارا عمل عموما اس حدیث شریف کے مطابق ہورہا ہے یانہیں اس کااندازہ آپ خودکرسکتے ہیں،اب عام طورپر ایسا دیکھنے میں آتاہے کہ لوگ غریبوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور امیروں، اپنے ہم منصبوں اوربرابر والوں کودعوت میں بلاتے ہیں۔
ایسانہیں ہے کہ سبھی لوگ اپنی دعوتوں میں غریبوں کومحروم کردیتے ہیں اب بھی اس دنیامیں بہت سے خداکے نیک بندے ایسے ہیں جواپنے دسترخوان پرغریبوں کومدعوکرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں چنانچہ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفرحسینؒ کے ایک ارادت مندتھے ان کانام حاجی عبدالمجید تھا، یہیں مظاہرعلوم کے پیچھے محلہ نیابانس کے رہنے والے تھے،ان کا ہمیشہ یہی عمل رہاکہ وہ وقتاً فوقتاً دعوت کانظام بناتے اورائمہ،مؤذنین ،طلبہ اور ملازمین کو مدعو کرتے تھے ۔انہوں نے اپنی اولاد کووصیت کررکھی تھی کہ ہمیشہ غریبوں کی دعوت کرنا۔چنانچہ اُن کے فرزندان کایہ عمل اب بھی جاری ہے ہمیشہ غریب طلبہ،غریب لوگ، غریب علماء اورغریب ملازمین کی دعوت کرتے ہیں۔
ہمارے دوست مفتی جمال احمدمظاہری نصیرآبادی نے مجھے ایک پیغام بھیجاہے جس میں انہوں نے الٰہ آبادکے ایک صاحب خیر کاواقعہ لکھاہے :
’’ تقریبا پانچ سال پہلے کی بات ہے مسجد سے گھرآیا تو ایک کارڈ ولیمے کا ملا، میں داعی سے واقف نہیں تھا،خیال ہوا کہ مسجد یا مدرسے کے تعلق سے کسی علماء دوست نے دعوت دی ہے، وقت مقررہ پر پروگرام کی جگہ پہنچا تو بہت خوبصورت اور نورانی منظر دیکھنے کو ملا ہر طرف کرتا پاجامہ؛ داڑھی ٹوپی نظر آئی،الہ آباد کے اکابر اور اصاغر علماء تخت پر دسترخوان بچھاکر کھانا تناول فرماتے نظر آئے۔داعی کے بارے میں معلوم ہوا کہ نثار احمد نام ہے، پیشے سے انجینئر ہیں، الحمدللہ اچھا خاصا کاروبار ہے، انہوں نے الٰہ آباد کے ہر محلہ میں ایک شخص کو کارڈ دیکر ذمہ دار بنا دیا کہ آپ کے محلہ میں جوبھی عالم یا حافظ یا مسجد کا امام اورمؤذن ،مکتب کا معلم ملے اُسے آپ دعوت نامہ پہنچا دیں۔انہوں نے شہر الہ آباد کے تقریباً سارے ہی علماء اور صلحاء کو اپنے دسترخوان پر جمع کردیا۔نکاح بھی بڑی سادگی کے ساتھ مسجدمیں ہوا‘‘۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفرحسینؒ امیروں کی دعوتوں کوٹال دیاکرتے تھے لیکن غریبوں کی دعوتو ں کے مشتاق رہا کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے:
’’ غریبوں کی دعوتیں بے لوث ہوتی ہیں،ان کااپناکوئی مفاد نہیں ہوتاہے،ان کی کمائی نہایت پاکیزہ ہوتی ہے ،پاک کمائی کے اپنے ہی انوار وبرکات ہوتے ہیں‘‘۔
اسی لیے مفتی صاحب نے ایسے ایسے لوگوں کی دعوتیں بھی قبول کرلی ہیں کہ جب اس غریب کے گھرپہنچے توصحیح سے بیٹھنے کی بھی جگہ ندارد تھی۔
جب ذکرآہی گیاہے تولگے ہاتھوں ایک واقعہ مدرسہ کے فراش (چپراسی) ملایسٰین قریشی کاپیش کرتاچلوں:
ایک دن ملاجی نے مجھ سے اپناایک واقعہ بتایا کہ حضرت مفتی مظفرحسین صاحبؒ جلدی کسی کی دعوت قبول نہیں فرماتے اورمیری ایسی پوزیشن نہیں تھی کہ مفتی صاحب کی دعوت کروں، گھریلوحالات خراب تھے،ایک دفعہ میں حضرت کے پاس دفتر اہتمام میں بیٹھاہواتھاکہ اچانک مفتی صاحب نے فرمایا کہ بھائی یٰسین! آج آپ کے یہاں میری دعوت ہے!یٰسین قریشی کہتے ہیں یہ سنناتھاکہ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، میں نے صاف صاف عرض کردیاکہ حضرت!میرے گھر کے چوہے بھوک کی وجہ سے عصالے کرچلتے ہیں اورآپ دعوت کی بات کررہے ہیں؟
مفتی صاحب نے فرمایاکہ کوئی بات نہیں جو ماحضر ہوگا وہی کھالوں گا، میں نے کہا کہ حضرت! صاف بات یہ ہے کہ ماحضر ہی نہیں ہے،فرمایاپھربھی تمہارے گھر چلیں گے اوراگرکچھ مل گیاتوٹھیک ورنہ واپس چلے آئیں گے، حضرت مولانااطہرحسینؒ جواپنی مخصوص زاہدانہ شان اور قناعت پسندانہ آن کی وجہ سے مشہورتھے اوروہ توکہیں بھی کسی کے یہاں بھی دعوت میں نہیں جاتے تھے،دعوت کی اِس گفتگومیں شریک ہوگئے اورکہنے لگے کہ بھائی یٰسین!بھائی صاحب کے ساتھ میں بھی آؤں گا۔
یٰسین صاحب کہتے ہیں کہ میری حالت توایسی ہوگئی کہ کاٹوتوخون نہیں،میں جلدی جلدی گھرپہنچا،ڈرتے ڈرتے اپنی اہلیہ کویہ واقعہ بتایا اور صاف صاف کہہ دیاکہ میں نے دعوت کی پیش کش بالکل نہیں کی تھی، مفتی صاحب نے خودہی فرمایا ہے اب کیاہوگا؟
یٰسین قریشی صاحب کی اہلیہ نے کہاکہ کوئی بات نہیں ہے آنے دو،میں نے کہااللہ کی بندی وہ کوئی عام انسان نہیں ہیں مظاہرعلوم کے ناظم صاحب ہیں ساتھ ہی ان کے بھائی بھی ہیں، اہلیہ نے کہاکہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے مائکے سے عقیقے کاکھانا آیاہے وہی ان کے سامنے رکھ دیں گے۔اتنے میں مفتی صاحبؒ اور مولانا اطہر صاحبؒ رکشہ میں بیٹھ کرمیرے گھرپہنچ گئے، جو کچھ تھاسامنے رکھ دیا گیا، دونوں بھائیوں نے بڑی محبت اور اپنائیت سے تھوڑا سا کھانا کھایا، چلتے وقت مفتی صاحبؒ نے دوسو روپے اور مولانا اطہرحسین صاحبؒ نے سوروپے بھی عنایت فرمائے، اس زمانہ میں یہ رقم میری تنخواہ سے بھی زیادہ تھی اورمجھے اُن دنوں روپوں کی سخت ضرورت تھی۔
میں امیروں کی دعوتوں کامخالف نہیں ہوں ، آپ کریں شوق سے کریں لیکن امیروں کے چکرمیں اگرآپ نے غریبوں کو بھلا دیا تو اس میں غریبوں کانقصان کم ہواآپ کا نقصان زیادہ ہواکیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبوں سے محبت اورتعلق کے جوفضائل ومناقب بیان فرمائے ہیں آپ اُن فضائل سے محروم رہ جائیں گے۔اسی طرح امیرکھاناکھانے کے بعدآپ کانام نہیں لے گا،آپ کے کھانے کی تعریفیں نہیں کرے گا،لیکن غریب ہمیشہ آپ کی دعوت کویادرکھے گا،جب بھی دعوت کاذکرآئے گاآپ کودعائیں دے گااور یہی مخلصانہ دعائیں اِن شاء اللہ آپ کے لیے قبولیت اورترقی کاذریعہ ثابت ہوں گی۔
ہمیں قبولیت دعوت کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ پیش نظررکھنا چاہئے ،کیسے کیسے غریبوں کے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں کہ آپ تصورنہیں کرسکتے۔کیسے کیسے کھانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن غریبوں کے یہاں کھائے ہیں کہ آج ہم وہ کھانے ہضم نہیں کرسکتے۔غریب دنیامیں بھلے ہی غریب ہے لیکن آخرت کے اعتبارسے بہت امیرہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں نے جب جنت دیکھی تواس میں مجھے غریبوں کی تعدادسب سے زیادہ نظرآئی۔
ایک دفعہ ماہ رمضان کی آمدآمدتھی ،غالباًرجب یا شعبان کا مہینہ تھا، حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے ماہِ رمضان میں ملک کے دُوردَرازعلاقوں میں جانے والے سفراء حضرات کوشعبۂ تحفظ میں طلب فرمایا،اِس موقع پرآپ نے امانت، دیانت، ہمدردی، خیرخواہی، سفرکے آداب، مسافروں سے رویہ اور خاص کر جب کسی کے یہاں چندے کے لئے جائیں تواُس موقع پر آدابِ گفتگو اور عرض حال پر بصیرت افروز نصائح فرمانے کے ساتھ یہ بھی فرمایاکہ
’’ ہمیشہ یادرکھناکہ غریب شخص کاچندہ پہلے لینا، امیر کے چندے میں وہ برکت نہیں ہوتی جوغریب کے چندے میں ہوتی ہے، اسی طرح غریب کاچندہ کم سمجھ کرہرگز چھوڑنا نہیں، ممکن ہے اللہ پاک اُس غریب کے چندے کی برکت سے امیروں کاچندہ بھی قبول فرمالے‘‘۔
یہ چندباتیں تھیں جو عرصہ سے میرے ذہن میں گردش کررہی تھیں ،آج انھیں لفظی جامہ پہنانے کی توفیق بھی اس لئے ملی کہ ایک صاحب نے شہرسے بہت دورائرپورٹ کے قریب ایک شانداربارات گھرمیں دعوت ولیمہ کانظم کیاہے ،اتنی دُورکوئی غریب اتناصرفہ اورکرایہ خرچ کرکے نہیں پہنچ سکتا۔جب اللہ پاک نے آپ کواتنی دولت دی ہے توآپ غریبوں کے لئے شہرمیں دعوت کانظام بناسکتے تھے اور امیروں کے لئے دُور دَراز اپنے معیار کے بارات گھرمیں نظم کرسکتے تھے۔عین ممکن ہے کہ آپ کے دل میں غریبوں کاخیال ہی نہ آیا ہو؟
٭٭٭